اسلام آباد ( مہتاب حیدر) بین الاقوامی مالیاتی فنڈ نے پاکستان کے ترقیاتی فریم ورک 15 زمروں میں 5بڑے کمزوریوں کی بنیاد پر کم ترین قرا دیا ہے۔
آئی ایم ایف نے اندازہ لگایا ہے کہ گزشتہ 10 سال کے دوران اخراجات کو حدمیں رکھنے کے حوالے سے مالیاتی قواعد کا بہت کم اثر رہا ہے اور قرض کے حصول کی حد تو عموماً پھلانگی گئی ہے۔
آئی ایم ایف نے جن 5 بڑی کسروں کی نشاندہی کی ہے ان میں سے ایک یہ ہے کہ جاری کھاتے اور ترقیاتی بجٹ الگ الگ وزارتیں تیار کرتی ہیں۔ قانون ’ خود مختار اداروں ‘ سے اپنے پروجیکٹس کےلیے رقوم کے ذرائع بتانے کا تقاضا ہی نہیں کرتا۔
پروجیکٹس کی موثر مانیٹرنگ کی کمی کے حوالے سے آئی ایم ایف کا کہنا تا کہ اثاثوں کے رجسٹر برقرار رکھنا لازم نہیں اور غیر منقولہ اثاٹوں پر رقم کا اندراج تو ہوتا ہے لیکن مالیاتی اسٹیٹمنٹ میں فرسودگی نہیں بتائی جاتی ۔پانچ سالہ پلاننگ 2018 میں بند ہوگئی تھی اور موجودہ منصوبوں کی لاگت نہیں لگائی گئی اور ان کے قابل پیمائش نتائج بھی کم ہیں۔
مقاصد اور منصوبوں کے مابین لنک نہیں ہے اور یہ جاننا ممکن نہیں ہے کہ پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام سے قومی مقاصد کے حصول میں کیسے مدد ملے گی۔ آئی ایم یاف نے پاکستان کے ترقیاتی نمونے کو تین بڑے زمروں منصوبہ بندی، مختص رقوم اور پی ایس ڈی پی کے نفاذ میں بانٹ کر دیکھا ہے۔
آئی ایم ایف کی ٹیکنیکل اسسٹنس کی رپورٹ کے مطابق مالیاتی قواعد اور ان کے اہداف، اور میڈیم ٹرم مالیاتی فریم ورک بجٹ کے عمل کے دوران میڈیم ٹریم مالیاتی فریم ورک کےلیے ضروری ہوتا ہے۔
آئی ایم ایف نے اس کے اثر کو بہت کم قرار دیا ہےاور کہا ہے کہ مالیاتی قواعد نے اخراجات کو گزشتہ 10 سال کے دوران کم رکھنے میں بہت کم کردار ادا کیا ہے اور اکثر ان حدود کی خلاف ورزی ہوئی ہے۔
آئی ایم ایف نے یہ بھی پایا کہ پی ایس ڈی پی کے پراجیکتس کےلیے تخمینہ سازی کا عمل اوسط سطح کا تھا اور کہا کہ تخمینہ سازی کا عمل سخت گیرہونا چاہیے تھا ( تاکہ اس کی خامیاں دورہوسکتیں )جس کی مرکزی سطح پر اسپورٹ بھی ہوتی لیکن اس تخمنے کو بیرونی جائزوں کےلیے توشائع ہی نہیں کیاجاتا ۔