• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
روز آشنائی … تنویر زمان خان
کیا دنیا میں کووڈ19 کا پھر سے حملہ شروع ہونے لگا ہے۔ اس کا موسم سرما میں کیا پھر سے وہی ماسک، فاصلے، ہاتھ دھونے کی عادت، محدود سفر، ہاتھوں کو سینیٹائز کرنے سے شروع ہوگا۔ کیا ہسپتالوں میں پھر سے ایمرجنسی، ٹی وی پر روزانہ مثبت اور منفی مریضوں کی رپورٹس اور مرنے والوں کی تعداد گننے کا کام شروع ہونے کو ہے۔ مین اسٹریم میڈیا اور اخبارات وغیرہ کو یہی کچھ کہا جانے لگا ہے۔ پھر سے ویکسین کے ٹیکے لگوانے کا کہا جارہا ہے۔ پہلے مرحلے کے لیے عمر کو بریکٹ کردیا گیا ہے۔ برطانیہ اور امریکہ میں گھروں میں فری ٹیسٹ اور فری کٹ بھیجنے کے احکامات جاری کردیے گئے ہیں۔ برطانیہ میں پیسنٹھ یا اس سے اوپر والوں کو ویکسین کے لیے ہدایات جاری کردی گئی ہیں۔ کیئرنگ ہومز کو سب سے پہلے اس دائرے میں شامل کیا گیا ہے۔ امریکہ میں بھی25ستمبر سے صدر بائیڈن نے ہرگھر کے لیے چار کورونا ٹیسٹ کیٹس اور پوسٹ فری ارسال کرنے کے احکامات جاری کردیے ہیں، تاکہ لوگ اپنا خود ٹیسٹ کریں۔ ابھی چار ماہ قبل مئی میں انشورنس کمپنیوں نے حکومتی احکامات کے مطابق فری کٹ سسٹم ختم کردیا تھا، جبکہ اب حال ہی میں امریکی محکمہ صحت نے کووڈ19ٹیسٹ کٹ کے مینوفیکچرز کو شروعات کے طور پر600ملین ڈالر بھی مختص کردیے ہیں تاکہ وہ اپنا تیاری کا کام شروع کردیں، اس کے علاوہ کاؤنٹر پر فوری ٹیسٹ کے لیے بھی200ملین ڈالر جاری کیے جارہے ہیں۔ بنیادی طور پر مقصد یہ ہے کہ امریکہ کو اس دفعہ کسی ایمرجنسی کی صورت حال میں امریکہ سے باہر نہ دیکھنا پڑے۔ گزشتہ برسوں میں جب کووڈ19عروج پر تھاتو امریکہ بھی وینٹی لیٹرز کے لیے مختلف ممالک سے رجوع کرتا رہا ہے۔ 2019ء سے لے کر اب تک دنیا بھر میں کووڈ19نے جو تباہی مچائی، اسی سے ابھی دنیا سنبھل نہیں پائی بلکہ کووڈ کے احتیاطی سسٹم نے پوری دنیا کے روزمرہ کے چلتے کاروبار کو بدل کے رکھ دیا ہے۔ لوگ اور ادارے گھروں سے کام کرنے لگے ہیں۔ کئی دفاتر اور بزنس اپنا بوریابستر لپیٹ کے سرکاری خزانے پر بوجھ بن چکے ہیں جبکہ اسی وبائی دور میں کئی کاروبار ترقی کی بہت بلند سطح پر بھی پہنچ گئے ہیں۔ انہیں یہی کووڈ19راس آگیا۔ آج دنیا بھر میں روزمرہ کے استعمال کی اشیا کی قیمتیں جو آسمان سے باتیں کرنے لگی ہیں، اس میں کلی طور پر تو نہیں لیکن کووڈ کا بھی بڑا عمل دخل ہے جبکہ بہت سے لوگوں کا اب بھی یہی خیال ہے کہ یہ سب کووڈ دراصل ایک مخصوص بزنس کمیونٹی کی سازش تھی۔ کووڈ19یا ایسا کوئی وائرس حقیقت میں کوئی وجود نہیں رکھتا۔ انہوں نے اسی خیال سے ویکسین کا ایک شاٹ کبھی نہیں لگوایا۔ بلکہ وہ اسے سرعام مسترد بھی کرتے رہے۔ گزشتہ ماہ برطانیہ میں سروے کیا گیا اور رپورٹس اکٹھی کی گئیں، جن میں بتایا گیا ہے کہ برطانیہ میں چند ماہ میں کورونا کووڈ19کے مریضوں میں25فیصد اضافہ ہوا ہے۔ دراصل ہسپتالوں میں فلو کا نام ہی ختم کردیا گیا ہے اور فلو کو کووڈ ہی مانا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ بھی عام لوگوں کا خیال ہے کہ ویکسین کے اثرات سے لوگوں میں دل کے امراض اور کارڈیک اریسٹ کے مریضوں میں اضافہ ہوگیا ہے۔ اچانک موت کے واقعات میں خاطر خواہ اضافہ محسو کیا جانے لگا ہے لیکن ہسپتالوں میں پھر سے فائٹرز، موڈرنا، اسٹرازینیکا، چینی اور انڈیسن ویکسینوں کا ذکر سننے میں آنے لگا ہے۔ گزشتہ تین برسوں میں دنیا بھر میں12اعشاریہ سات ارب ٹیکے لگائے گئے جوکہ ایک ریکارڈ نمبر ہے۔ اب پھر سے کووڈ کی ایپ چالو ہوجائے گی اور سفر کے لیے بھی ٹیسٹ اور ویکسین کا اندراج لازمی ہونے جارہا ہے گوکہ فی الحال یہ سب قبل از وقت کی باتیں ہیں۔
یورپ سے سے مزید