• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کبھی کسی فلم پر پابندی، کبھی کسی ڈرامے پر،کبھی تھیٹر بند،تو کبھی کوئی چینل۔ اِس کی زبان بند کردو، اُس کی لگامیں کھینچ لو۔ آخر کب تک ہم یہ ’’ پابندی، پابندی‘‘ کھیلتے رہیں گے۔ سرکاری سطح پر فنونِ لطیفہ کی کبھی ڈھنگ سے پزیرائی تو ہو نہیں پائی، الٹا غیر ضروری اور بسا اوقات متعصبانہ اعتراضات کی بنیاد پر آئے روز کسی نہ کسی تخلیقی کاوش کوبندش کا سامنا رہتا ہے۔ ایسے میں یہ تھیٹر، ٹیلی ویژن اور فِلم سے وابستہ ہُنرمند، رائٹرز، ڈائریکٹرز اور فن کار جائیں تو کہاں جائیں؟ کیا محض پابندیوں، بندشوں سے معاشرتی بگاڑ میں سدھار ممکن ہے۔ 

مُلکی معیشت کا ٹائی ٹینیک ڈوبنے سے بچ جائے گا۔ بِرصغیر کے ممتاز شاعر، ن۔ م راشد کی مقبول نَظم سماعتوں میں گونجتی ہے؎ زندگی سے ڈرتے ہو..... زندگی تو تم بھی ہو، زندگی تو ہم بھی ہیں..... زندگی سے ڈرتے ہو.....آدمی سے ڈرتے ہو.....آدمی تو تم بھی ہو،آدمی تو ہم بھی ہیں.....آدمی زَباں بھی ہے،آدمی بیاں بھی ہے.....اُس سے تم نہیں ڈرتے .....حرف اور معنی کے رشتہ ہائے آہن سے آدمی ہے وابستہ..... آدمی کے دامن سے زندگی ہے وابستہ.....اس سے تم نہیں ڈرتے.....’’اَن کہی‘‘ سے ڈرتے ہو.....جو ابھی آئی نہیں،اس گھڑی سے ڈرتے ہو.....اُس گھڑی کی آمد کی آگہی سے ڈرتے ہو۔

یہ پابندیوں، بندشوں کا کھیل آج کا نہیں ہے۔ جب صرف ایک سرکاری ٹیلی ویژن تھا،تب بھی مختلف فن کاروں، پروگراموں پر قدغنیں لگانا معمول کی بات تھی۔ جیسے کبھی ’’ففٹی ففٹی‘‘ بند کردیا، تو کبھی انور مقصود جیسے مایہ ناز لکھاری کو ٹیلی ویژن پر آنے سے روک دیا ۔ مہتاب اکبر راشدی کے لیے پی ٹی وی کے دروازے بند ہوگئے، تو مارشل لائی ادوار میں تمام نشریات ہی(خبر ناموں سے لے کرٹی وی ڈراموں کے اسکرپٹس تک کی) اچھی طرح جانچ پڑتال تو ایک معمول کی پریکٹس رہی ہے۔ مسئلہ دراصل یہ ہے کہ ہمارے یہاں قواعد وضوابط پرعمل در آمد کی تو کوئی صُورت ممکن نہیں، تو بس بقول ڈاکٹر پیرزادہ قاسم ؎ شہر طلب کرے، اگر تم سے علاجِ تِیرگی..... صاحبِ اختیار ہو،آگ لگا دیا کرو۔ 

جیسا کہ 1991ء میں پاک و ہند کےممتازناوِل نِگارشوکت صدیقی کے شہرۂ آفاق ناوِل پر مبنی ڈراما سیریل ’’جانگلوس‘‘ کو اُس وقت اچانک بند کردیا گیا،جب وہ مقبولیت کے آسمان پر پہنچا ہوا تھا اور یہ حکم تب صادر ہوا، جب ڈرامے کی صرف19اقساط نشر ہوئی تھیں۔ اس ضمن میں ’’جانگلوس‘‘ کے ڈائریکٹر کاظم پاشا کا کہنا ہے کہ ’’ یہ اُن دِنوں کی بات ہے، جب ہر طرف شوکت صدیقی کے لکھے ہوئے ڈرامے ’’جانگلوس‘‘ کی دُھوم مچی ہوئی تھی۔ ڈرامے کی پہلی ہی قسط نے ناظرین کے دِل جیت لیے تھے۔ ابھی اُس کی19ویں قِسط نَشر ہوئی تھی کہ اسلام آباد سے ایم ڈی پی ٹی وی اسلم اظہر کا ٹیلی فون آگیا کہ ’’ کاظم پاشا! ہم ’’جانگلوس‘‘ بند کررہے ہیں۔ 

اس کی وجہ نہیں پوچھنا، ’’اُوپر‘‘سے حُکم مِلا ہے، اورزِیادہ سوال کرنے کی بھی اجازت نہیں۔‘‘ مَیں خَاموش ہوگیا اور کر بھی کیا سکتا تھا۔ ڈرامے کے مرکزی کرداروں میں ایم وارثی اور شبیر جان وغیرہ تھے، اُن کی کردارنِگاری کو بے حد سَراہا جارہا تھا۔ دراصل شوکت صدیقی کی تحریرمیں ایسی کاٹ اور سچائی تھی کہ اُوپروالوں کو برداشت ہی نہیں ہوئی۔ یُوں بھی شوکت صاحب نے اپنے ناول ’’جانگلوس‘‘ کی بنیاد چھوٹے چور اور بڑے چور کے فلسفے اور تصور پر رکھی تھی۔ اس ناول کو پنجاب کی الف لیلیٰ بھی کہا گیا۔ اُن کی ناول نگاری دراصل ماجرا نگاری کا فن ہے اور اُن کا وہ فن ’’جانگلوس‘‘ میں اپنے عُروج پر نظر آیا۔ بعد ازاں، کئی برس بعد اس ڈرامے کو ’’جیو‘‘ سے شروع کرنے کی بھی کوشش کی گئی، مگر وہ بھی کام یاب ثابت نہیں ہوئی۔‘‘

اِن دنوں لاہور سے تعلق رکھنے والے تھیٹر فن کاروں کوبھی اسی بندش/ پابندی کے روایتی کلیے کے تحت سخت اذیت اور مالی مشکلات کا سامنا ہے کہ فی الوقت پنجاب حکومت نے 10 سے زائد بڑے تھیٹر سیل کیے ہوئے ہیں۔ فن کاروں پرفحاشی و عریانی کو فروغ دینے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔ اور حسبِ روایت اُن چند کالی بھیڑوں کے خلاف کریک ڈاؤن کےبجائے کہ جو اس بگاڑ کی محرک ہیں، سارا بوریا بستر ہی سمیٹ دیا گیا ہے۔ سمجھ نہیں آتا کہ قواعد و ضوابط پر عمل در آمد کروانے کی بجائے پوری بساط ہی لپیٹ دینا کہاں کی دانش مندی ہے۔

حکومت کے ایسے ہی اقدامات سے فن کار طبقے میں مایوسی جنم لیتی ہے۔ پنجاب حکومت اور صوبائی وزیر اطلاعات و ثقافت عامر میر کو یاد رکھنا چاہیے کہ اسی لاہور تھیٹر نے ٹیلی ویژن اور فلموں کو ان گنت باصلاحیت فن کار دیئے ہیں۔ ایک سے بڑھ کر ایک ڈراما پیش کیا ہے۔ یہاں سے شرطیہ میٹھے،عمرشریف حاضر ہو اور جَنم جَنم کی میلی چَادر جیسے شاہ کار ڈرامے طویل عرصے تک پیش کیے گئے۔ افضال احمد نے تماثیل تھیٹر میں ’’جَنم جَنم کی میلی چَادر‘‘ کو مسلسل تین چار برس تک پیش کیا اور اس ڈرامے نے مُلک کو کروڑوں روپے کا بزنس دیا۔ پنجاب بھر سے شائقین یہ ڈراما روزانہ کی بنیاد پر دیکھنے آتے تھے۔ ایک زمانے میں معین اختراورعمرشریف بھی لاہو تھیٹرمیں کام کرتے رہے ہیں۔ 

عمر شریف نے تو شمع سینما کو ’’لاہور تھیٹر‘‘ بنا کر کراچی اور لاہور کے نام ور مزاحیہ فن کاروں کے ساتھ مل کر لاجواب ڈرامے پیش کیے۔ البتہ اُسی عرصے میں عمرشریف کے ایک ڈرامے ’’لوٹے اور لفافے‘‘ کو بھی پابندی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔پھر اسی پلیٹ فارم سے امان اللہ،علی اعجاز،رنگیلا،سہیل احمد، قوی خان اور اطہر شاہ خان جیدی نے متعدد یادگارڈرامے پیش کیے۔ مانا کہ پچھلے چند برسوں میں لاہورتھیٹر میں فحاشی و عریانی کا غلبہ ہے اور اِس وجہ سے کئی فیملیز نے تھیٹر کا رُخ کرنا چھوڑ دیا ہے۔ لیکن تھیٹرز سیل کرنا پھر بھی مسئلے کا حل نہیں۔ 

حکومتِ پنجاب اور فَن کاروں کو مِل کر ہی اس مسئلے کا حل نکالنا ہوگا کہ منہگائی کےاِس شدید دور میں نہ تو فن کاروں کے گھروں کے چولھے بجھیں اورشہریوں کو سستی تفریح بھی فراہم ہوتی رہے، گو کہ حکومت اور فن کاروں کے مابین مذاکرات جاری ہیں، سو اس ضمن میں ہماری نگراں حکومت سے درخواست ہے کہ قواعد و ضوابط پرعمل در آمد یقینی بنا کر اس مسئلے کو جلد از جلد حل کیا جائے۔

اب کچھ ایسی فلموں کی بھی بات ہوجائے، جنہیں اچانک سینما گھروں سے اتار دیا گیا، یا ریلیز سے قبل ہی پابندی کا سامنا کرنا پڑا۔ مثلا شعیب منصورجیسے صفِ اول کے ہدایت کار کی فلم’’ وَرنہ‘‘ کو بھی ابتدا میں پابندی کا سامنا کرنا پڑا تھا اور سنیما گھروں کی زینت نہیں بننےدیا گیا تھا،اس حوالے سے سَینسر بورڈ نے موقف اَختیار کیا تھا کہ فلم کی کہانی ایک لڑکی کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعے کے گرد گُھومتی ہے۔ بعد ازاں مختلف خواتین تنظیموں نے اس حوالے سے آواز اٹھائی اور ملک بھر میں مظاہرے کیے گئے، تو فلم کو ریلیز کی اجازت مل گئی۔ یاد رہے، فلم میں مرکزی کردار سپر اسٹار ماہرہ خان نے ادا کیا تھا۔

اسی طرح ڈراما سیریل ’’دھواں‘‘ سے بین الاقوامی شہرت حاصل کرنے والے باصلاحیت فن کار اور ڈائریکٹر عاشر عظیم کی سیاسی پَس منظر میں تیار کردہ فلم ’’مالک‘‘ ریلیز ہوئی تو فلم کو بے حد پزیرائی ملی، لیکن ابھی اُسے ریلیز ہوئے صرف ایک ہفتہ ہی ہوا تھا کہ سندھ سَینسر بورڈ نے اس پر پابندی لگادی۔ اور اسی سبب عاشر عظیم اس مُلک اور انڈسٹری سے اتنے مایوس ہوئے کہ پاکستان ہی چھوڑگئے۔ ’’مالک‘‘ میں نوجوان اداکار حَسن نیازی کو وزیراعلیٰ کے کردار میں خُوب پسند کیا جا رہا تھا، جب کہ دیگر فن کاروں میں عاشر عظیم، فرحان علی آغا، عرفان شاہ اوراحتشام الدین نے بھی اپنے کرداروں میں حقیقت کے رنگ بَھرے۔

لاہورکے سیریل کِلر جاوید اقبال کی زندگی پر2019ء میں ہدایت کار ابو علیحہ نے فلم ’’جاوید اقبال‘‘ بنائی، جس میں مرکزی کردار اداکاریاسر حسین نے ادا کیا، جب کہ عائشہ عمر خاتون انسپکٹر کے جان دار کردار میں نظر آئیں۔ فلم کا پریمیئر ہوا اور پھر دوسرے ہی رَوز اس فلم کی سینما گھروں میں ریلیز پر پابندی عائد کردی گئی۔ جب کہ سینسر بورڈ کی منظوری کے بعد بھی فلم تین برس تک التوا کا شکار رہی۔ بعدازاں، رَواں برس اس فلم کےکچھ سین سینسر کرکے اسے ’’کُکڑی‘‘ کے نام سے ریلیزکیا گیا۔ باکمال اداکار اور ہدایت کار سرمد کھوسٹ کی زیر ہدایت بننے والی فِلم ’’زِندگی تَماشا‘‘ کو 2019ء میں ریلیز کیا جانا تھا، مگر جیسے ہی فلم کا ٹریلرریلیز ہوا۔ 

مختلف مذہبی جماعتوں نے اس کے خلاف شدید احتجاج شروع کردیا، نیز سوشل میڈیا پر فلم کے خلاف بھر پور مہم چلائی گئی، تو حُکومت نے فلم کو متنازع قرار دے کر پابندی عائد کردی۔ بہر کیف رواں برس اگست میں سرمد کھوسٹ نے اسے یُوٹیوب پر ریلیز کردیا۔ قبل ازیں اس فلم نے بین الاقوامی فلم فیسیٹولز میں کئی ایوارڈز اپنے نام کیے، مگر اپنے ملک کے سینما گھروں کی زینت نہیں بن سکی۔ سرمد سلطان کھوسٹ ہی کی پروڈکشن، ہدایت کار صائم صادق کی فلم ’’جوائے لینڈ‘‘ رواں برس ریلیز ہونی تھی، لیکن وزارتِ اطلاعات نے فلم پر پابندی عائد کرتے ہوئے فلم کو جاری سینسر بورڈ کا سرٹیفکیٹ بھی منسوخ کردیا۔ 

حکومت نے اس حوالے سے موقف اختیار کیا کہ فلم کا مواد سخت قابلِ اعتراض ہے اور پاکستانی معاشرے کی سماجی اقدار، اخلاقی معیارات اس کی نمائش کی اجازت نہیں دیتے۔ جب کہ کانز فلم فیسیٹول میں اس فلم کو ایوارڈ سے نوازا گیا۔ فلم میں ثانیہ سعید، ثَروت گِیلانی اور علی جونیجو نے عُمدہ کردار نگاری کی۔ یاد رہے،9فروری 1979کو جب فلم ’’مولا جٹ‘‘ ریلیز کی گئی، تو اُسے بھی پابندی کا سامنا کرنا پڑا تھا اوربعد ازاں پروڈیوسر نے کورٹ سے رجوع کیا، تو فلم کو نمائش کی اجازت مل گئی۔ اوریہی وہ فلم تھی، جس نے سلطان راہی اورمصطفیٰ قریشی کی زندگیاں بدل ڈالی تھیں۔ بہرحال، یہ تو چند ایک مثالیں ہیں۔ 

ایسی بیسیوں فلمیں ، ڈرامے ہیں،جن پر ریلیز سے پہلے اورریلیز کے بعد میں بھی پابندیاں لگائی گئیں۔ بات یہ کہ ہماری فِلم انڈسٹری پہلے ہی بے شمار مسائل کا شکار ہے،سال میں آٹھ دس فلمیں ہی بنتی ہیں، تو اگر ان کے سر پر بھی پابندی کی تلوار لٹکادیں گے، تو انڈسٹری کس طرح آگے بڑھے گی، اور اگرانڈسٹری آگے نہیں بڑھتی تو جو تھوڑے بہت سنیما گھر باقی رہ گئے ہیں، وہ بھی توڑ دیے جائیں گے۔ مطلب پابندیوں کی تلوار سے حکومت فلم انڈسٹری کا سَر تو قلم کررہی ہے، لیکن اس کی فلاح و بہبود کا فریضہ سرانجام نہیں دے رہی۔ یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ فلم ایک بہت طاقت ور میڈیم ہے،جسے دُنیا بھر میں آرٹ اور کلچر کے فروغ اورمعاشرے کی اصلاح و رہنمائی کے لیے بہت موثر، سود مند انداز سے بروئے کار لایا جاتا ہے۔

ایک زمانہ تھا، جب ہر طرف پاکستانی ڈراموں کی شہرہ تھا۔ درمیان میں کچھ برس بھارتی ڈراموں نے بھی پاکستانی ناظرین کو اپنا گرویدہ کیا۔ بہر کیف، مُلک میں پرائیوٹ چینلز کی بھر مار کے بعد ایک بار پھر پاکستانی ڈراموں کا احیاء ہوا اور ساتھ ہی سُپرہٹ ڈراموں کا نہ تھمنے والا سلسلہ شروع ہوگیا، لیکن شاید یہ کام یابی پاکستانی الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) کو کچھ زیادہ نہیں بھائی۔ تب ہی مختلف حیلوں بہانوں سے ڈراموں پر بندش کا سلسلہ جاری ہے، مگر جو ڈراما مقبولیت کے ریکارڈ قائم کررہا ہو، اُس پر ہی پابندی عائد کرنا افسوس ناک ہے۔ جیسا کہ پچھلے چند برسوں میں کئی ڈراموں کی شہرت اور کام یابی کی رفتار کو روکا گیا، جن میں ’’میرے پاس تم‘‘ ’’عشقیہ‘‘ ’’پیارکے صدقے‘‘ ’’تَیرے بِن ‘‘ ’’جَلن‘‘ اور ’’فِطرت‘‘ وغیرہ شامل ہیں، ان میں سے کچھ کو نوٹسز دیے گئے اور کچھ کو نَشر ہونے ہی سے رَوک دیا گیا۔ اس کی ایک تازہ مثال جیو اسکرین پر پیش کیا جانے والا سُپرہٹ ڈراما ’’حادثہ‘‘ بھی ہے۔ 

ہدایت کار وجاہت رؤف اور ڈراما رائٹر زنجبیل عاصم شاہ کے ڈراما سیریل ’’حادثہ‘‘ نے اپنے آغاز ہی سے ناظرین کی بھرپور توجہ حاصل کرلی تھی۔ لیکن ابھی اس کی10اقساط ہی نشر ہوئی تھیں کہ پیمرا نے اسے آن ایئر کرنے پر پابندی عائد کردی۔ دراصل کچھ لوگوں نے ڈرامے پر اعتراض اٹھایا کہ اس کی کہانی2020ء کے لاہورموٹر وے سانحے کے گرد گُھومتی ہے، جب کہ ڈراما رائٹر زنجبیل عاصم شاہ کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ ’’میری کہانی کا اس واقعے سے کوئی تعلق ہی نہیں، ڈرامے کے سب کردار بھی مختلف ہیں۔‘‘ڈرامے میں مرکزی کردارادا کرنے والی فَن کارہ حدیقہ کیانی کا اس ضمن میں موقف ہے کہ ’’میرے پاس جب ڈرامے کا اسکرپٹ آیا، تو میں نے خاص طور وجاہت رئوف سے پوچھا کہ کہیں اس کہانی کی موٹر وے سانحے سے کوئی مماثلت تو نہیں۔ 

بعد ازاں مَیں نے سارا اسکرپٹ پڑھا اور مجھے بالکل نہیں لگا کہ ’’حادثہ‘‘ کی کہانی اور موٹر وے سانحے میں کوئی مماثلت ہے۔‘‘ وجاہت رئوف کا کہنا تھا کہ’’ فی الوقت ڈرامے کا کیس کورٹ میں ہے۔مگر ہمیں اُمید ہے کہ جیت ہماری ہوگی، کیوں کہ ہم نے یہ اچھی نیت سے بنایا ہے۔ اوراس کا موٹر وے واقعے سے کوئی تعلق نہیں۔ جب کہ ڈرامے کی ابھی18اقساط باقی ہیں۔‘‘(واضح رہے، کاپی پریس جانے سے پہلے ہی ڈرامے سے پابندی اُٹھالی گئی ہے اور ڈرامے کی بقیہ اقساط آن ایئر ہونا شروع ہوگئی ہیں۔)

ہمارا ملک پہلے ہی اَن گنت مسائل و مشکلات کی آماج گاہ ہے، سو حُکومت سے استدعا ہے کہ خدارا تھیٹر، ٹی وی ڈراموں اور فلموں پرغیر ضروری پابندیوں سے گریز کیا جائے۔ روزی روٹی کے مزید ذرائع پیدا نہیں کیے جارہے،تو کم از کم دَست یاب وسائل ہی کی راہ میں روڑے نہ اٹکائے جائیں۔