• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دی رائٹ ٹو ایکسس ٹو انفارمیشن ایکٹ 2017 کی سماعت مکمل، فیصلہ محفوظ

اسلام آباد (رپورٹ :رانا مسعود حسین ) عدالت عظمیٰ نے عام شہریوں کی سرکاری اداروں سے متعلق معلومات تک رسائی کے قانون،دی رائٹ ٹو ایکسس ٹو انفارمیشن ایکٹ 2017کے سپریم کورٹ کے انتظامی عملہ پر لاگو ہونے یا نہ ہونے سے متعلق مقدمہ کی سماعت مکمل ہونے کے بعد فیصلہ محفوظ کرلیا ہے۔دوران سماعت جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ کیاافواج سے متعلق معلومات تک رسائی کا نہ ہونا آئین کے آرٹیکل 19 اے کی خلاف ورزی نہیں ہے؟ عدالت نے اٹارنی جنرل اور درخواست گزارمختار احمد علی کو دو ہفتوں کے اندر اندر عدالت کی جانب سے سماعت کے دوران اٹھائے گئے سوالات کا تحریری جواب جمع کرنے کی ہدایت کی ہے۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس امین الدین خان اور جسٹس اطہر من اللہ پر مشتمل تین رکنی بنچ نے بدھ کے روزمختار احمد علی کی اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف دائر اپیل کی سماعت کی تو درخواست گزار ذاتی حیثیت میں پیش ہوئے، جنہیں چیف جسٹس نے مخاطب کرتے ہوئے استفسار کیا کہ آپ نے رجسٹرارسپریم کورٹ سے کونسی تفصیلات مانگی تھیں؟تو انہوںنے بتایا کہ میں نے سپریم کورٹ کے ر جسٹرار آفس سے گریڈ 01 سے 22تک کے عدالتی عملہ کی تفصیلات مانگی تھیں؟جوتاحال فراہم نہیں کی گئیں،انہوںنے مزید بتایا کہ میں نے ر جسٹرار آفس سے سپریم کورٹ کے معذور، خواتین اور مستقل و عارضی ملازمین کی تعداد بھی مانگی تھی،جس پر چیف جسٹس نے ان سے استفسار کیا کہ آپ نے ان معلومات کا کرنا کیا ہے؟ تو درخواست گزار نے بتایا کہ معلومات تک رسائی کے قانون کے تحت میں آپ کو یہ بتانے کا پابند تو نہیں ہوں،لیکن پھر بھی بتادیتا ہوں،جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اگرچہ آپ قانونی طور پر اس کے پابند نہیں ہیں لیکن میں صرف اپنی معلومات کیلئے پوچھ رہا ہوں،جس پر درخواست گزار نے کہا کہ میں اپنے ملکی اداروں میں شفافیت کیلئے کام کر رہا ہوں اس لئے یہ معلومات درکار ہیں،ان کا کہنا تھا کہ ہر ادارہ مطلوبہ معلومات فراہم کرنے کا پابند ہے اور اس ضمن میں کسی آئینی ادارے کوبھی قانون اور آئین کے تحت معلومات فراہمی سے کسی قسم کا بھی کوئی استثنیٰ حاصل نہیں ہے۔چیف جسٹس نے ان سے استفسار کیا کہ انفارمیشن کمیشن میں رجسٹرار آفس نے کیا جواب جمع کرایا تھا؟یا رجسٹرار آفس نے آپ کو اس حوالے سے بھی معلومات دی تھیں؟ تو درخواست گزار نے بتایا کہ رجسٹرار آفس نے پی اے سی کو اپنا حکمنامہ واپس لینے کا کہا تھا ،رجسٹرار کا موقف تھا کہ کمیشن سپریم کورٹ سے متعلق آرڈر نہیں دے سکتا۔ دوران سماعت اٹارنی جنرل بیرسٹر منصور اعوان نے عدالت کو بتایا کہ رجسٹرار آفس نے پی اے سی کے فیصلے کے خلاف اسلام آباد ہائیکورٹ میں رٹ پٹیشن دائر کی تھی اور اس حوالے سے ہائی کورٹ کے سنگل بینچ کا فیصلہ آچکا ہے ،جس کیخلاف درخواست گزار نے یہ اپیل دائر کی ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ یہ بات ناقابل تصور ہے کہ سپریم کورٹ خود درخواست گزار بن کر کسی عدالت میں جائے۔ اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ سپریم کورٹ کے رولز بھی رجسٹرار کو سپریم کورٹ کی جانب سے درخواست گزار بننے کا اختیار نہیں دیتے ہیں ،چیف جسٹس نے سوال اٹھایا کہ کل کلاں اگرپی اے سی سپریم کورٹ کے ججوں کی پرائیویٹ فیملی معلومات پبلک کرنے کا کہہ دے تو کیا ہو گا؟کیا پھر وہ آرڈر بس نظرانداز کر دینگے یا چیلنج ہو گا؟ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اس سوال کا جواب بھی دیا جائے کہ اگر اس طرح کی صورتحال ہو تو پھر وہ آرڈر فیملی چیلنج کرے گی؟ یا سپریم کورٹ؟عدالت کے استفسار پر درخواست گزار نے بتایا کہ ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان کے ذریعے رجسٹرار سپریم کورٹ نے ہائیکورٹ میں انفارمیشن کمیشن کا فیصلہ چیلنج کیاتھا ،جس پراٹارنی جنرل نے عدالت کے استفسار پر بتایا کہ عامر رحمان کو رجسٹرار سپریم کورٹ نے سرکاری حیثیت میں وکیل مقرر نہیں کیاتھا،انہوںنے کہاکہ اٹارنی جنرل آفس کا کام عدالتوں مین وفاق کی نمائندگی کرنا ہے،سپریم کورٹ کی نہیں؟جبکہ ایڈیشنل اٹارنی جنرل، رجسٹرار کی جانب سے پرائیویٹ وکیل کے طور پر بھی پیش نہیں ہوسکتے ہیں، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا رجسٹرار اپنے طور پر ایسا اختیار استعمال کر سکتا ہے؟ عدالت کے استفسار پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 19 اے کے تحت معلومات تک رسائی کے قانون، دی رائٹ ٹو ایکسس ٹو انفارمیشن ایکٹ 2017میں سپریم کورٹ کیلئے استثنیٰ نہیں دیا جاسکتا ہے۔

اہم خبریں سے مزید