اسلام آباد (این این آئی)سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے کابینہ سیکریٹریٹ نے وزارت خارجہ اور اٹارنی جنرل کو طلب کیا ہے تاکہ وہ ایران پاکستان گیس پائپ لائن منصوبے پر امریکا کی جانب سے مبینہ طور پر اٹھائے گئے اعتراضات پر پینل کو بریفنگ دے سکیں۔پیٹرولیم کے ایڈیشنل سیکریٹری حسن یوسفزئی نے کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ ایران کی جانب سے گیس پائپ لائن کی تکمیل کے حوالے سے 2024 کی ڈیڈ لائن دی گئی تھی اور اس پر عمل نہ کرنے کی صورت میں جرمانہ عائد کیا جائے گا۔انہوں نے کہا کہ ہم ایران سے اس معاملے پر دوبارہ بات چیت کی کوشش کر رہے ہیں جبکہ گیس کے حصول کے دیگر طریقے تلاش کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔سیکریٹری نے مزید خدشات کا اظہار کیا کہ پاکستان کو 20 ارب ڈالر کے واجبات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے اور اس معاملے کو امریکا کے ساتھ بھی اٹھایا گیا ہے،میڈیارپورٹ مطابق ایران دعویٰ کرتا رہا ہے کہ اس نے ساڑھے 7ارب ڈالر مالیت کے منصوبے میں ایک ہزار150 کلو میٹر طویل پائپ لائن کا اپنا حصہ مکمل کر لیا ہے جہاں مارچ 2013 میں اس وقت کے صدور آصف علی زرداری اور ڈاکٹر محمود احمدی نژاد نے چاہ بہار کے قریب ایرانی سائٹ گبد پر منصوبے کا سنگ بنیاد رکھا تھا۔پاکستان نے جنوری 2015 تک اس منصوبے کو مکمل کرنے کا عہد کیا تھا تاہم فروری 2014 میں اس وقت کے وزیر پیٹرولیم شاہد خاقان عباسی نے پارلیمنٹ کو بتایا تھا کہ ایران پاکستان منصوبہ بین الاقوامی پابندیوں کی وجہ سے زیر التوا ہے۔رواں سال کے اوائل میں سابق وفاقی ویزر برائے پیٹرولیم مصدق ملک نے وضاحت کی تھی کہ گیس کی فروخت اور خریداری کے معاہدے کے تحت پاکستان معاہدے کے تحت اپنی ذمہ داریوں پر پوری طرح پابند ہونے کے باوجود حکومت ایران پر امریکی پابندیوں کی وجہ سے پائپ لائن کی تعمیر شروع کرنے میں ناکام رہا ہے۔حکام نے بتایا کہ پاکستان نے رواں سال کے اوائل میں امریکا سے مسئلے کے حل کے لیے درخواست کی تھی تاکہ توانائی کی کمی پر قابو پانے میں مدد مل سکے لیکن ابھی تک اس سلسلے میں کوئی جواب نہیں ملا۔اگست میں پاکستان نے ایران کو گیس پائپ لائن کی تکمیل کے حوالے سے معاہدے کی ذمہ داریوں کو معطل کرنے کے لیے ʼفورس میجر اینڈ ایکسکیوزنگ ایونٹʼ کا نوٹس جاری کیا تھا، سادہ الفاظ میں پاکستان نے ایران پر امریکی پابندیوں یا اس حوالے سے امریکا کی منظوری ملنے تک منصوبے کو تکمیل تک پہنچانے سے معذوری ظاہر کی تھی۔