فیض آباد دھرنا کیس میں سپریم کورٹ آف پاکستان میں دائر نظرِ ثانی درخواست کی سماعت کے دوران چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ فیض آباد دھرنا کیس اہم معاملہ ہے، دیکھا جائے گا اسے براہِ راست نشر کیا جائے یا نہیں۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے سماعت کی، جسٹس اطہر من اللّٰہ اور جسٹس امین الدین خان بینچ کا حصہ تھے۔
اٹارنی جنرل نے کمرۂ عدالت میں فیض آباد دھرنا کیس کا فیصلہ پڑھ کر سنایا۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ اس دھرنے کے بعد کئی اور ایسے ہی واقعات سامنے آئے، اگر اُس وقت اس فیصلہ پر عمل ہوتا تو بعد میں سنگین واقعات نہ ہوتے، ہم فیصلے میں دی گئی 17 ہدایات پر عمل سے صحیح سمت میں چلیں گے، اللّٰہ نے سورۂ توبہ کی آیت 19 میں سچے لوگوں کا ساتھ دینے کا کہا، آپ لوگوں نے فیصلے کو آج سچ مان لیا، اب آپ کا امتحان ہے کہ آپ ساتھ دیتے ہیں یا نہیں، ایک جج جسٹس مشیر عالم ریٹائر ہو گئے ہیں۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ وفاق اس کیس میں دفاع نہیں کرنا چاہتا۔
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ اب کیوں کیس واپس لینا چاہتے ہیں؟ پہلے کہا گیا فیصلے میں غلطیاں ہیں، اب واپس لینے کی وجوہات تو بتائیں۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ نظرِ ثانی اپیل جب دائر کی گئی اس وقت حکومت اور تھی۔
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے سوال کیا کہ آپ نے تحریری درخواست کیوں دائر نہیں کی؟
اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے جواب دیا کہ میں اپنا بیان دے رہا ہوں۔
پیمرا کے وکیل حافظ احسان نے کہا کہ میں بھی اپنی نظرِ ثانی اپیل واپس لے رہا ہوں۔
چیف جسٹس پاکستان نے سوال کیا کہ کس کی ہدایات پر واپس لے رہے ہیں؟ یوٹیوب چینلز پر تبصرے کیے جاتے ہیں، شیچ رشید کے وکیل وزیر بن گئے ہیں تو اپنا متبادل مقرر کر کے آ جائیں، پہلے کچھ باتوں کی وضاحت کرنا چاہتا ہوں، یہ ریگولر بینچ ہے، خصوصی بینچ نہیں، نظرِ ثانی درخواستیں فوری مقرر ہوتی ہیں، مگر یہ 4 سال مقرر نہ ہوئیں، فیصلہ دینے والے 1 جج ریٹائرڈ ہو چکے اس لیے اُس بینچ کے سامنے کیس نہیں لگا۔
پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) نے بھی درخواست واپس لینے کی استدعا کر دی۔
پی ٹی آئی کے وکیل علی ظفر نے کہا کہ ہم پی ٹی آئی کی درخواست کی پیروی نہیں کرنا چاہتے۔
چیف جسٹس پاکستان نے علی ظفر سے سوال کیا کہ کیا آپ کو درخواست واپس لینے کا اختیار ہے؟ اگر آپ فریق بننا چاہتے ہیں تو عدالت آپ کو اجازت دے گی۔
بیرسٹر علی ظفر نے جواب دیا کہ نہیں ہم اس کیس میں فریق نہیں بننا چاہتے۔
چیف جسٹس پاکستان نے سوالات اٹھاتے ہوئے کہا کہ پہلے کہا گیا تھا فیصلہ غلطیوں سے بھرا پڑا ہے، اب کیا فیصلے میں غلطیاں ختم ہو گئیں؟ کیا نظرِ ثانی درخواستیں واپس لینے کی کوئی وجہ ہے؟ جو اتھارٹی میں رہ چکے وہ ٹی وی اور یو ٹیوب پر تقاریر کرتے ہیں، کہا جاتا ہے کہ ہمیں سنا نہیں گیا، اب ہم سننے کے لیے بیٹھے ہیں، آ کر بتائیں، ہم یہ درخواستیں زیرِ التواء رکھ لیتے ہیں، کسی نے کچھ کہنا ہے تو تحریری طور پر کہے، آپ طویل پروگرام کر لیں مگر ہر ادارے کو تباہ نہ کریں، یہاں آپ خاموش ہیں اور ٹی وی پر کہیں گے کہ ہمیں سنا نہیں گیا، ہم پیمرا کی درخواست زیرِ التواء رکھیں گے، کل کوئی یہ نہ کہے کہ ہمیں سنا نہیں گیا، سوال تو اٹھتا ہے کہ فیض آباد دھرنا کیس کے فیصلے پر عمل کیوں نہیں ہوا؟ آخر سب اتنے ڈرے ہوئے کیوں ہیں؟
اٹارنی جنرل نے کہا کہ فیض آباد دھرنا کیس کے فیصلے پر عمل ہونا چاہیے۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ فیض آباد دھرنا کیس لینڈ مارک ججمنٹ ہے، کیس کے فیصلے پر عمل ہونا چاہیے۔
شیخ رشید کی جانب سے ایڈووکیٹ آن ریکارڈ کی درخواست کی پیروی جاری رکھنے کی استدعا کی گئی۔
وکیل اعجازالحق نے کہا کہ فیصلے میں مجھے غیر ذمے دار سیاستداں کہا گیا، میں نے دھرنے کی حمایت نہیں کی تھی۔
چیف جسٹس نے وکیل سے سوال کیا کہ آپ نے نیا وکیل کرنا ہے یا دلائل دینے ہیں؟ ہم نے تو صرف آئی ایس آئی کی رپورٹ پر کہا تھا، کچھ سیاستدانوں نے غیر ذمے دارانہ بیان دیے، ہم نے کسی کا نام نہیں لیا، آپ نے خود سے اخذ کر لیا کہ آپ کا ذکر ہے، اداروں کو تباہ نہ کریں، عوامی اداروں کے بارے میں ایسا نہ کریں، یہ حکم نہیں بلکہ درخواست ہے، اگر کسی نے کوئی بات کرنی ہے تو تحریری صورت میں کرے، 2017ء کا معاملہ ہے، جہاں سے نظرِ ثانی آنے کی امید تھی وہاں سے تو نہیں آئی، خادم رضوی قابل تعریف ہیں کہ انہوں نے غلطی تسلیم کی تھی، جس کے بارے میں فیصلہ تھا اس نے پورے دل سے تسلیم کیا، غلطیاں سب سے ہوتی ہیں، بڑا پن غلطی تسلیم کرنے میں ہے۔
چیف جسٹس نے پی ٹی آئی کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ میں تیسری مرتبہ شرعی اصول کے تحت پوچھ رہا ہوں، کیا آپ واقعی درخواست واپس لینا چاہتے ہیں؟
وکیل علی ظفر نے کہا کہ میں ہدایات کی روشنی میں کہہ رہا ہوں، ہم دفاع نہیں کرنا چاہتے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ اچھی شہرت کے وکیل ہیں، ہمیں آپ پر یقین ہے، عرفان قادر صاحب کو نوٹس کر دیے ہیں۔
’’اٹارنی جنرل آپ سمیت سب پر جرمانہ کیوں نہ کیا جائے؟‘‘
چیف جسٹس نے اعجاز الحق کے وکیل سے سوال کیا کہ آپ کہنا چاہ رہے ہیں آپ نے دھرنے کی حمایت نہیں کی؟ کیا آپ کہہ رہے ہیں کہ آئی ایس آئی کی رپورٹ درست نہیں تھی؟ کوئی بیانِ حلفی دے دیں کہ آپ کا مؤقف درست ہے، اٹارنی جنرل صاحب آپ سمیت سب پر جرمانہ کیوں نہ کیا جائے؟ عدالتی وقت ضائع کیا گیا، ملک کو بھی پریشان کیے رکھا، اب آپ سب آ کر کہہ رہے ہیں کہ درخواستیں واپس لینی ہیں۔
الیکشن کمیشن کے وکیل قمر افضل نے کہا کہ الیکشن کمیشن نظرِ ثانی واپس لے رہی ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ان فضول قسم کی درخواستوں پر اٹارنی جنرل پر جرمانہ عائد کرنا چاہیے۔
چیف جسٹس پاکستان نے سوال کیا کہ الیکشن کمیشن تب ٹھیک تھا یا اب ہے؟ کیا کوئی کنڈکٹر تھا جو یہ سب کرا رہا تھا؟ الیکشن کمیشن نے تب کس کے کہنے پر نظرِ ثانی دائر کی؟ آرکیسٹرا میں سب میوزک بجاتے ہیں اور سامنے ایک ڈنڈا لیے کمانڈ دے رہا ہوتا ہے، کیا الیکشن کمیشن تب کنٹرول ہو رہا تھا؟ اب ہورہا ہے یا ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے؟ پاکستان میں وہ چلتا ہے جو پوری دنیا میں نہیں ہوتا، پاکستان میں کہا جاتا ہے کہ ’حکم اوپر سے آیا ہے‘، الیکشن کمیشن بتائے کہ کس نے کہا تھا کہ نظرِ ثانی دائر کر دو؟ نعوذ باللّٰہ اوپر سے حکم اللّٰہ کا نہیں یہاں کسی اور کا ہوتا ہے، عدالتوں کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے، نبیٔ کریم ﷺ نے بھی جھوٹ سے منع کیا ہے، جو ہوا اس کا اعتراف تو کر لیں، جزا سزا بعد میں ہو گی، اعترافِ جرم تو کریں، مان لیں کہ الیکشن کمیشن کو اس وقت فردِ واحد کے حوالے کیا گیا تھا، آج الیکشن کمیشن آزاد ہو گیا ہے، ہمت ہے تو کہیں تب کون سب کچھ کنٹرول کر رہا تھا، پورے پاکستان کو منجمد کیا گیا، خادم رضوی مرحوم نے تو تسلیم کیا، آپ لوگ تو وہاں تک پہنچ بھی نہیں سکتے، کس کا ڈر ہے؟ اوپر والے کا تو نہیں ہے آخر کس سے ڈرتے ہیں؟ ٹی وی پر جا کر بھی تقریریں کریں گے تو عدالت کو ہی سچ بتا دیں۔
الیکشن کمیشن کے وکیل قمر افضل نے کہا کہ الیکشن کمیشن 2020ء میں بدل چکا ہے، وہ اب اس درخواست کی پیروی کرنا نہیں چاہتا، اب تو فیصلہ آئے بہت وقت گزر چکا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ ہم پر انگلی تو اٹھائیں کہ کیوں اتنا عرصے کیس مقرر نہیں ہوا؟ کیا یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ مجھ سے پہلے والے کنٹرول کر رہے تھے کہ کیا مقرر ہو کیا نہ ہو؟
وکیل قمر افضل نے کہا کہ میں یہ نہیں کہوں گا۔
چیف جسٹس نے الیکشن کمیشن کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ سچ بولیں، سچ ہی آپ کو آزاد کرے گا، الیکشن کمیشن ملک کا اعلیٰ آئینی ادارہ ہے، وہ بھلے اپنی وقعت بھول جائے ہم یاد دلاتے رہیں گے۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ پاکستان کو آئین و قانون کے مطابق چلنا چاہیے۔
الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے نظرِ ثانی درخواست دائر کرنے کی اجازت لی تھی۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ اجازت ہے، اجازت ہے۔
اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے کہا کہ آپ کا فیصلہ تمام حقائق بیان کر رہا ہے۔
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ جب فیصلہ درست ہے تو نظرِ ثانی میں کیوں آئے؟ کون سا نقص تھا جو تب فیصلے میں تھا اور اب نہیں ہے؟ کراچی میں 55 لوگ مر گئے، کوئی ایکشن نہیں ہوا، یہاں جو بھی ہو کہا جاتا ہے ’مٹی پاؤ‘، لوگ مر جائیں مٹی پاؤ، حضرت عمر نے کہا کہ دریا کے کنارے کتا بھی بھوکا مر جائے تو میں جوابدہ ہوں، جتھے کی طاقت کی نفی نہیں کی گئی، وہ آج بھی غالب ہے، سبق نہیں سیکھا ہم نے، جن صاحب کو بہت جمہوریت چاہیے تھی وہ کینیڈا سے واپس کیوں نہیں آتے؟ پارلیمنٹ میں بحث نہیں ہو رہی، جرمنی میں فاشزم تھی انہوں نے تسلیم کیا، اسلامی جمہوریہ پاکستان تو غلطیاں بھی تسلیم نہیں کرتا، مجھ سمیت احتساب سب کا ہونا چاہیے، احتساب سے کسی کو انکار نہیں ہونا چاہیے، اٹارنی جنرل صاحب یہ سوال کیوں نہیں اٹھایا کہ نظرِ ثانی درخواستیں پہلے کیوں نہ لگیں؟ یہ کہنا ٹھیک نہیں ہوتا نئی حکومت یا پرانی حکومت، حکومت حکومت ہی رہتی ہے پارٹی جو بھی ہو، سپریم کورٹ بھی وہی رہتی ہے جج چاہے کوئی بھی ہو۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ سنا ہے کہ پبلک نے سپریم کورٹ کی براہِ راست نشریات کو پاک بھارت میچ سے زیادہ انجوائے کیا۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ انصاف تو ہوتا ہوا دکھنا چاہیے، فیض آباد دھرنا کیس کا معاہدہ ریکارڈ کا حصہ بنایا جائے۔
اٹارنی جنرل نے سماعت 2 ماہ کے لیے ملتوی کرنے کی استدعا کر دی۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ 2 ماہ بہت زیادہ ہیں۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ 1 ماہ تو دے دیں تاکہ آپ کو کوئی پیش رفت بتا سکیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ممکن ہے اٹارنی جنرل آئی ایس آئی کی رپورٹ کا دفاع کریں۔
چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا کہ اٹارنی جنرل صاحب آپ کچھ کہنا چاہتے ہیں؟
اٹارنی جنرل نے کہا کہ فیض آباد دھرنا کیس کا فیصلہ سب کی ذمے داریوں سے متعلق تھا، فیض آباد دھرنا نظرِ ثانی کیس کو پہلے مقرر ہونا چاہیے تھا۔
اٹارنی جنرل نے سپریم کورٹ کو فیض آباد دھرنا کیس فیصلے پر عمل درآمد کی یقین دہانی کراتے ہوئے کہا کہ فیض آباد دھرنا کیس کے فیصلے پر عمل درآمد کریں گے لیکن عدالت وقت دے دے۔
پی ٹی آئی کی لیگل ٹیم کے رکن شعیب شاہین نے عدالت سے فیض آباد دھرنا کیس پر عمل درآمد کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ چاہتے ہیں کہ فیض آباد دھرنا کیس پر عمل درآمد ہو۔
چیف جسٹس نے شعیب شاہین سے سوال کیا کہ آپ کیس میں فریق ہیں؟
وکیل شعیب شاہین نے چیف جسٹس کو جواب دیا کہ میں فریقن نہیں میری جماعت فریق ہے۔
سپریم کورٹ نے ہدایت کی کہ جوابات 27 اکتوبر تک جمع کرائے جائیں۔
سماعت کے اختتام پر چیف جسٹس پاکستان نے سورۂ توبہ کا ذکر کیا۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ اے ایمان والو اللّٰہ سے ڈرو اور سچے لوگوں کا ساتھ دو۔
انہوں نے کہا کہ یہ سب نے تسلیم کیا کہ عدالتی فیصلہ سچ تھا، ہمارا امتحان پاس ہو گیا، اب آپ کی باری ہے۔
سپریم کورٹ نے فیض آباد دھرنا کیس میں نظرِ ثانی درخواستوں پر سماعت یکم نومبر تک ملتوی کر دی۔
سماعت مکمل کرنے کے بعد فیض آباد دھرنا کیس میں چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے آرڈر لکھوا دیا۔
سپریم کورٹ نے کہا کہ وزارتِ دفاع نے بذریعہ اٹارنی جنرل درخواست کی مزید پیروی نہ کرنے کی استدعا کی، انٹیلی جنس بیورو، پیمرا نے بھی درخواست کی پیروی نہ کرنے کی استدعا کی، پی ٹی آئی، الیکشن کمیشن نے بھی درخواست کی پیروی نہ کرنے کی استدعا کی، ابھی درخواستیں واپس لینے کی درخواستوں پر فیصلہ نہیں کیا جا رہا، پاکستان تحریکِ انصاف سمجھتی ہے کہ فیض آباد دھرنا کیس کا فیصلہ درست تھا، فریقین کی درخوستیں واپس لینے کی استدعا پر حیرانگی ہے، فریقین کو آئندہ سماعت پر پیش ہونے کا موقع دے رہے ہیں۔
واضح رہے کہ انٹیلی جنس بیورو اور پیمرا کے بعد وفاق نے بھی فیض آباد دھرنا کیس میں سپریم کورٹ میں دائر نظرِ ثانی درخواست واپس لینے کا فیصلہ کر لیا ہے۔
اٹارنی جنرل منصور عثمان نے کہا ہے کہ فیض آباد دھرنا نظرِ ثانی درخواست واپس لے رہے ہیں۔
وفاق نے بذریعہ وزارتِ دفاع سپریم کورٹ میں فیض آباد دھرنے سے متعلق نظرِ ثانی کی درخواست دائر کی تھی۔
دوسری جانب سابق وفاقی وزیر شیخ رشید کے وکیل نے مقدمے میں التواء کی درخواست دائر کر رکھی ہے۔
پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی)، الیکشن کمیشن، اعجاز الحق اور متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان نے فیض آباد دھرنا کیس کے فیصلے کے خلاف نظرِ ثانی درخواستیں دائر کر رکھی ہیں۔