کراچی (ٹی وی رپورٹ) جیو کے پروگرام ’’آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ‘‘میں گفتگو کرتے ہوئے ترجمان تحریک انصاف شعیب شاہین نے کہا ہے کہ پی ٹی آئی حکومت میں سوفیصد فیصلے درست نہیں ہوئے ہوں گے، ہم سے کچھ غلطیاں ہوئی ہوں گی انہی کا خمیازہ آج ہم بھگت رہے ہیں، بنگلہ دیش میں جب تک ایک سابق چیف جسٹس اور سابق چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کو سزا نہیں ہوئی اس وقت تک انہوں نے ترقی نہیں کی، ہمیں بھی اس مثال پر عملدرآمد کرنا پڑے گا، عدالتوں کو آئین کی بالادستی کیلئے اپنا کردار ادا کرنا پڑے گا عمران خان میں اپنی غلطی ماننے کی جرأت ہے، عمران خان نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیخلاف ریفرنس دائر کرنے کا فیصلہ غلط تسلیم کیا ہے، عمران خان نے جنرل باجوہ کو ایکسٹینشن دینا اپنی سب سے بڑی غلطی قرار دیا ہے،میزبان شاہزیب خانزادہ نے پروگرام میں تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ فیض آباد دھرنا کیس فیصلے پر نظرثانی کیلئے جانے والی پی ٹی آئی اب بڑا یوٹرن لے کر فیصلے پر عملدرآمد کا مطالبہ کررہی ہے۔ ترجمان تحریک انصاف شعیب شاہین نے کہا کہ فیض آباد دھرنا کیس میں بیرسٹر علی ظفر ہمارے وکیل ہیں، میں نے بیرسٹر علی ظفر سے پوچھا کہ فیض آباد دھرنا فیصلہ قانون کی حکمرانی اور آئین پر عملدرآمد کیلئے ہے، علی ظفر نے مجھے بتایا ہے کہ ہم فیض آباد دھرنا کیس کے فیصلے کیخلاف نہیں آئی ایس آئی کی جمع کرائی گئی رپورٹ کے خلاف تھے، انہوں نے بتایا ہے آئی ایس آئی کی رپورٹ میں پی ٹی آئی کے علماء ونگ کیخلاف پیش کیے گئے تحفظات کو ختم کروانے کیلئے عدالت گئے تھے، بطور صدر اسلام آباد ہائیکورٹ پچھلے سال کنٹینرز اور راستوں میں رکاوٹوں پر چوبیس مئی کی پٹیشن میں فیض آباد دھرنا کیس کے فیصلے کو ہی مثال بنایا تھا۔ شعیب شاہین کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ نے آج پوچھا ہے کہ پیمرا اور الیکشن کمیشن بتائیں کس کے کہنے پر انہوں نے فیض آباد دھرنا کیس فیصلے کیخلاف پٹیشن کی اور آج کس کے کہنے پر واپس لے رہے ہیں۔ شعیب شاہین نے کہا کہ حکومت میں فیصلے فرد واحد نہیں کرتا پوری کابینہ کرتی ہے، پی ٹی آئی سے غلطیاں ہوئی ہیں تو ہمیں ماضی سے سبق سیکھ کر آگے چلنا چاہئے، آج جس طرح بنیادی انسانی حقوق اور آئین کی پامالی ہورہی ہے اس کی مثال جنرل پرویز مشرف کے زمانے میں بھی نہیں ملتی ہے، پی ٹی آئی کے بہت سے لیڈرز اٹھائے گئے ہیں یا انڈر گراؤنڈ ہیں۔ شعیب شاہین کا کہنا تھا کہ فیض آباد دھرنا کیس فیصلہ درست ہے اس پر عملدرآمد ہونا چاہئے، اسٹیبلشمنٹ کو سیاست سے باہر ہونا چاہئے، اسٹیبلشمنٹ آئین میں دیئے گئے کردار کے مطابق اپنے فرائض انجام دے، سیاست سیاستدانوں کا کام ہے، مقبولیت کو قبولیت کی شرط پر سامنے نہیں رکھنا چاہئے، اگر اب بھی یہ سلسلہ جاری رہتا ہے تو خوفناک خمیازہ بھگتنا پڑے گا، ہمیں اور مقتدر حلقوں کو اپنے آپ کو آئین کے مطابق ڈھالنا چاہئے۔ شعیب شاہین نے بتایا کہ ذاتی طور پر ہم حامد خان گروپ کی حیثیت سے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیخلاف ریفرنس کے خلاف تھے، ہم نے اس وقت جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے حق میں تحریک بھی چلائی تھی، فیض آباد دھرنا کیس میں کوئی بڑا آدمی ہو، چھوٹا آدمی ہو، اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ ہو یا آج کی اسٹیبلشمنٹ ہو سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد ہونا چاہئے۔ شعیب شاہین کا کہنا تھا کہ بنگلہ دیش میں جب تک ایک سابق چیف جسٹس اور سابق چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کو سزا نہیں ہوئی اس وقت تک انہوں نے ترقی نہیں کی، ہمیں بھی اس مثال پر عملدرآمد کرنا پڑے گا، عدالتوں کو آئین کی بالادستی کیلئے اپنا کردار ادا کرنا پڑے گا، میزبان شاہزیب خانزادہ نے پروگرام میں تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ فیض آباد دھرنا کیس فیصلے پر نظرثانی کیلئے جانے والی پی ٹی آئی اب بڑا یوٹرن لے کر فیصلے پر عملدرآمد کا مطالبہ کررہی ہے، اپنی حکومت بچانے کیلئے بطور ڈی جی آئی ایس آئی جنرل فیض حمید کو عہدے پر برقرار رکھنے کی ضد کرنے والے عمران خان کی تحریک انصاف آج جنرل فیض حمید اور دیگر کے دفاع سے بھی پیچھے ہٹ گئی ہے، تحریک انصاف نے نہ صرف فیض آبا د دھرنا کیس میں ریویو کی درخواست واپس لے لی ہے بلکہ ایک بڑا یوٹرن لیتے ہوئے فیصلے پر عملدرآمد کی استدعا کردی ہے، اس کے جنرل فیض حمید اور دیگر پر منفی اثرات ہوسکتے ہیں کیونکہ تحریک لبیک سے معاہدے پر بطور ضامن ان کے دستخط موجود ہیں، فیض آباد دھرنے میں جنرل فیض حمید کے کردار پر سیاسی جماعتیں بھی مسلسل تنقید کررہی ہیں، آج ریاستی اداروں اور سیاسی جماعتوں سمیت جس جس نے فیض آباد دھرنا کیس فیصلے کیخلاف نظرثانی کی اپیل کی تھی ان میں سے زیادہ تر نے اپنی اپیلیں واپس لے لی ہیں، وفاقی حکومت، وزارت دفاع، انٹیلی جنس بیورو، پیمرا، الیکشن کمیشن اور تحریک انصاف نے اپنی نظرثانی کی درخواستیں واپس لے لی ہیں، صرف ایم کیوا یم اور اعجاز الحق نے اب تک اپیلیں واپس نہیں لی ہیں جبکہ شیخ رشید کے وکیل نے التواء کی استدعا کر رکھی ہے۔ شاہزیب خانزادہ نے تجزیے میں مزید کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے فیض آباد دھرنا کیس کے فیصلے میں لکھا کہ عدالت حکومت پاکستان کو وزارت دفاع کے ذریعہ اور آرمی چیف، نیول چیف ، ایئرفورس چیف کو ہدایت کرتی ہے کہ وہ اپنے ماتحت ان افسران کے خلاف کارروائی کریں جنہوں نے اپنے حلف کی خلاف ورزی کی ہے، مگر تحریک انصاف کی حکومت نے فیصلے پر عملدرآمد کرنے کے بجائے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیخلاف صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کو ریفرنس بھجوادیا جسے انہوں نے سپریم جوڈیشل کونسل کو بھجوادیا، خود جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے عدالت کے سامنے پیش ہو کر کہا تھا کہ فیض آباد دھرنا کیس فیصلے کے بعد مجھ پر قیامت برپا کی گئی، مجھے عہدے سے ہٹانے کی خواہش کی وجہ یہ ہے کہ میں نے فیض آباد دھرنا کیس کا فیصلہ دیا تھا، 19 جون 2020ء کو سپریم کورٹ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیخلاف صدارتی ریفرنس کالعدم قرار دیدیا جبکہ 10میں سے 7ججوں نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ اور ان کے بچوں کا معاملہ ایف بی آر میں بھیجنے کا حکم دیدیا، تین ججز جن میں جسٹس مقبول باقر، جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس یحییٰ آفریدی شامل تھے انہوں نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے اہل خانہ کے اثاثوں کی ایف بی آر سے تحقیقات کروانے سے اختلاف کرتے ہوئے لکھا کہ سپریم جوڈیشل کونسل میں دائر ریفرنسز قابل سماعت نہیں ہیں لہٰذا انہیں خارج کردیا جائے، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور ان کی اہلیہ سرینا عیسیٰ کے علاوہ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن، سندھ بار کونسل اور فیڈرل یونین آف جرنلسٹس نے بھی اس فیصلے کیخلاف نظرثانی کی اپیلیں دائر کیں، اس دوران جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور ان کی اہلیہ کے خلاف پراپیگنڈہ کیا جاتا رہا، تحریک انصاف کے رہنما جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور ان کی اہلیہ سرینا عیسیٰ کی تضحیک کرتے رہے، میڈیا میں انہیں بدنام کیا جاتا رہا، وہ اپنے دفاع میں آواز اٹھاتے تو تحریک انصاف کے وزراء مزید تضحیک کرتے، اس وقت کے وزیراعظم عمران خان کی کابینہ اور ان کے دوستوں کے اثاثوں پر سوال اٹھا تو وزیراعظم کے معاون خصوصی اور قریبی دوست زلفی بخاری نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیخلاف ریفرنس کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ اس کا موازنہ کسی اور سے نہیں کیا جاسکتا، اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ اور تحریک انصاف نے اپنے حامی میڈیا ، سوشل میڈیا اور یوٹیوبرز کا جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیخلاف بھرپور استعمال کیا۔