روز آشنائی … تنویر زمان خان، لندن برطانیہ کی حکمران کلاس میں اس بات کا احساس شدید ہوتا جارہا ہے کہ انہوں نے ملک کو دراصل جس اقتصادی بحران میں دھکیل دیا ہے اس کا اصل سبب بریگزٹ ہے۔ یعنی یورپی یونین سے برطانیہ کی علیحدگی جوکہ بہت کم مارجن پر2016ء میں ایک ریفرنڈم کے ذریعے وقوع پذیر ہوئی تھی۔ جس کے بعد یونین سے نکلنے کے حامی سیاستدان ایک طرف تو منظرعام سے غائب ہوگئے، دوسرا اس موضوع پر بات کرنا بند کردی۔ میڈیا نے بھی چپ سادھ لی۔ یوں محسوس ہوتا تھا گویا کوئی وارداتیے سیاسی میدان میں اترے۔ واردات کی اورغائب ہوگئے۔ بڑی ہوشیاری کے ساتھ عوام کے ذہنوں میں یہ بات بٹھا دی کہ ہم ای یو سے علیحدہ ہوکے بڑا طاقتور اور خوشحال ملک بننے جارہے ہیں لیکن ای یو چھوڑنے کے فوراً بعد ہی جو نتائج نظر آنے شروع ہوئے کہ ابھی تک ملک کی معیشت سنبھل نہیں پائی۔ سیاحت کو فوری طور پر بڑھا جھٹکا لگا۔ یورپی لیبر برطانیہ سے غائب ہوگئی۔ اس کے علاوہ کووڈ اور یوکرین کی جنگ کے بہانے بنانے کے باوجود یہ بات چھپی نہ رہ سکی کہ اقتصادی بدحالی کا اصل محرک بریگزٹ ہے۔ اس لیے اب پھر سے برطانوی وزیراعظم رشی سوناک نے ای یو ہورائزن اسکیم EU Horizaon Scheme کو جوائن کرلیا ہے۔ اب عوام کو یہ تاثر دینے کی کوشش کی جارہی ہے کہ ہم آنے والے چند ہی سال میں دوبارہ سے ای یو کا حصہ بن جائیں گے۔ ای یو ہورائزن اسکیم بنیادی طور پر یو این کے متعین کردہ ہدف کے مطابق ماحولیاتی تبدیلی اور باہمی مقابلہ بازی اور ترقی کے ساتھ ساتھ اس اسکیم یا پروگرام میں سائنسی ترقی کے زندگی پر اثرات اور خود کو جدید بنانے کی پالیسیوں میں شامل ہونا ہے۔ اب برطانیہ کی آرگنائزیشنز اس پروگرام میں تجاویز بھی دے سکیں گی اور حصہ دار بھی بن جائیں گی۔ حتیٰ کہ اس فنڈنگ میں بھی حصہ داری ہوجائے گی۔ مجموعی طور پر اس وقت اس اسکیم میں95ارب یورو کا فنڈ ہے۔ جبکہ2023-24میں ریسرچ، ماحولیاتی کو درست کرنے کے ٹھوس عملی حل اور انرجی چیلنجز پر13.5 ارب یورو خرچ کیے جائیں گے۔ اس کے مقاصد میں صنعتی ترقی یافتہ ممالک میں دنیا پر صنعتی کنٹرول اور بالادستی کو برقرار رکھنا بھی شامل ہے۔ برطانیہ اس میں 2.6ارب یورو سالانہ کا حصہ ڈالا کرے گا۔ اس کے علاوہ کوپرنیکس خلائی پروگرام میں بھی برطانیہ اپنا حصہ ڈالا کرے گا۔ جس کا بنیادی مقصد آج کی خلائی سائنس اور ترقی کے یورپ کی جانب کی جانے والی کوششوں میں اپنا حصہ ڈالنا ہے، جس میں برطانیہ علیحدہ ہونے کی وجہ سے تنہائی کا شکار بھی ہوگیا تھا۔ اس ہورائزن پروگرام میں بنیادی طور پر صرف ای یو کے ممبر ممالک ہی فنڈنگ کرسکتے ہیں۔ اب برطانیہ کی اس فنڈنگ میں قبولیت کا مطلب یہ ہے کہ برطانیہ اس راہ پر چل نکلا ہے کہ جہاں اسے بالآخر ای یو میں قبول کرلیا جائے گا۔ اس کی ایک شکل اس کے علاوہ یہ بھی نکل سکتی ہے کہ کسی اور ای یو طرز کے بڑے اتحاد میں برطانیہ کو شامل کرکے پھر ای یو کے اتحادی کے طور پر وہ تمام مراعات مل جائیں، جو ای یو کا حصہ ہونے پر حاصل تھیں اور بہت سے ٹیکسوں اور ڈیوٹیز سے استثنیٰ حاصل ہوجائے گا جو پہلے ای یو کا حصہ ہوئے حاصل تھا۔ اس وقت برطانیہ اور یورپ دونوں میں روزمرہ کی استعمال کی اشیاء کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگی ہیں اور ایک دوسرے کے بغیر دونوں حصوں کی اقتصادی صورت حال انتہائی دگرگوں ہوگئی ہے۔ ہر شے ڈبل سے زائد قیمتوں پر جا پہنچی ہے۔ برطانیہ اور یورپ دونوں کی ورکنگ کلاس کی زندگی پہلے سے کافی نچلے لیول پر آن گری ہے۔ حکومت کے حالیہ اقدامات سے ان چیزوں پر بہتری کی جانب کنٹرول بڑھنے لگے گا۔ برطانیہ سے ہزاروں چھوٹی بزنس آرگنائزیشنز پھر سے یورپ کے ساتھ اسی طرح کاروبار کرنے لگیں گی، جس طرح پہلے ہوا کرتا تھا اور یورپی بزنس برطانیہ میں کام کرنے لگا گا۔ یورپی لیبر کو بھی برطانیہ میں مواقع ملنے شروع ہوجائیں گے۔ برطانیہ میں براستہ یورپ آنے والے غیر قانونی پناہ گزینوں کی تعداد کو کنٹرول کرنے کے اقدامات پر یورپ کے ساتھ بہتر بات چیت کے مواقع ملیں گے۔ جب تک برطانیہ ای یو کاحصہ تھا۔ برطانیہ میں سیاحت عروج پر تھی جو گزشتہ چار برسوں میں بہت کم رہ گئی ہے۔ یورپی ممالک برطانیہ کے ای یو سے نکلنے پر خوش نہیں تھے۔ ابھی تک برطانیہ کے ساتھ فرانس اور جرمنی کے تعلقات میں غصہ اور کچھائو برقرار ہے۔ یہ تمام ممالک دراصل تاریخی طور پر اپنے اپنے وقت میں بڑے سامراجی خدا رہے ہیں۔ اس لیے ان کے اندر نیشنل برتری کا جو احساس ہے اس نے برطانیہ کو بریگزٹ کی جانب دھکیلا تھا۔ اب اگر آہستہ آہستہ یہ دھند چھٹ جاتی ہے تو اس میں برطانیہ اور یورپ کے عام آدمی کو فائدہ ہے اس لیے ایسے اقدامات کو ہمیشہ خوش آئند ہے سمجھنا چاہیے۔