کراچی (ٹی وی رپورٹ)جیو کے پروگرام ’’رپورٹ کارڈ‘‘میں میزبان علینہ فاروق کے سوال پارلیمنٹ کی قانون سازی یا عدالتی فیصلوں میں سے کس کو فوقیت دینی چاہئے؟ کا جواب دیتے ہوئے تجزیہ کاروں نے کہا کہ عدلیہ میں کسی ایک شخص کو تمام اختیارات نہیں دینے چاہئیں، 58ٹو بی کے خاتمے کے بعد ہماری عدلیہ وزرائے اعظم کو گھر بھیجنے کا کام کرتی رہی۔
ریما عمر نے کہا کہ عدلیہ میں کسی ایک شخص کو تمام اختیارات نہیں دینے چاہئیں، عدلیہ میں کون سا بنچ کون سا کیس کب سنے گا یہ اختیارات چیف جسٹس کی ذات میں مرتکز نہیں ہونے چاہئیں، کچھ ججز آج بھی اس سوچ میں پھنسے ہوئے ہیں کہ پارلیمان کی عدلیہ سے متعلق قانون سازی عدلیہ پر حملہ ہے.
پارلیمان کا کوئی قانون چیف جسٹس کے اختیارات کو باقی ججوں میں تقسیم کرتا ہے اس سے عدلیہ کی آزادی بڑھے گی، مجھے نہیں سمجھ آتا ایسی قانون سازی کو عدلیہ کی آزادی پر حملہ کیوں قرار دیا جارہا ہے، انصاف کا بنیادی اصول ہے کہ سزا ملنے کے بعد اپیل کا حق ہونا چاہئے لیکن 184/3 سپریم کورٹ ٹرائل کورٹ بنادیتا ہے جو ایک پارلیمنٹرین کو نااہل کرسکتی ہے۔
فخر درانی کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ سے پارلیمنٹ کا اعلیٰ عدلیہ پر اجارہ داری قائم کرنے کا تاثر درست نہیں ہے، پارلیمان کی قانون سازی میں سپریم کورٹ کے اختیارات کم کیے جارہے ہوں تو اعتراض بنتا ہے۔