• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

فنانشل فراڈز کی جڑ غیر قانونی اور غیر رجسٹرڈ کال سینٹرز

پاکستان میں آن لائن فنانشل فراڈ کے واقعات آئے روز بڑھتے جا رہے ہیں۔مختلف طریقوں سے شہریوں کی جمع پونجی ہتھیا لی جاتی ہے اور اس کے بعد شہری دھکے کھانے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ دوسری جانب جو شہری آن لائن لون ایپس کے ذریعے سود پر قرض لیتے ہیں ان کی زندگی بھی اجیرن کر دی جاتی ہے۔ اس طرح کی دھوکہ دہی ،فراڈ اور شہریوں کو ڈرانے سے لےکر انھیں دھمکانے کے پیچھے غیر قانونی کال سینٹرز ہیں جو فنانشل جرائم میں ملوث ملزمان کے مقاصد کے لیے استعمال ہو رہے ہیں۔

ایڈیشنل ڈائریکٹر ایف آئی اے سائبر کرائم سرکل شہزاد حیدر کا کہنا ہے کہ غیر قانونی اور غیر رجسٹرڈ کال سینٹرز ہی ان جرائم کی اصل جڑ ہیں، اس وقت کراچی میں 400 سے زائد غیر قانونی اور غیر رجسٹرڈ کال سینٹرز چل رہے ہیں ،جہاں سے نہ صرف ملکی بلکہ بیرون ملک مقیم افراد سے بھی فراڈ کئیے جا رہے ہیں اور مالی طور پر انھیں نقصان پہنچایا جا رہا ہے۔شہزاد حیدر کے مطابق آن لائن لون ایپس بھی اپنے پیسوں کی ریکوری کرنے کے لئے ان کال سینٹرز کی خدمات حاصل کرتی ہیں۔

ان کال سینٹرز سے قرض لینے والے شہریوں کو تنگ کیا جاتا ہے،انھیں ڈرایا اور دھمکایا جاتا ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ راوالپنڈی میں رواں برس آن لائن لون ایپ سے قرضہ لینے والے شخص کی خودکشی کے پیچھے بھی کال سینٹرہی تھا ،جہاں سے فون کر کے اسے حراساں کیا جاتا تھا۔آن لائن لون ایپس پیسوں کی ریکوری اور سود کی ادائیگی کے لیے ان کال سینٹرز سے کنٹریکٹ کرتی ہیں،ان کے پاس ہر طرح کی آواز میں بات کرنے والے لڑکے اور لڑکیاں موجود ہوتے ہیں۔

جنھیں ڈرامہ کرنے اور ڈائیلاگ ڈیلوری کی باقاعدہ تربیت دی جاتی ہے ،انھیں حراسمنٹ کی ٹونز سکھائی جاتی ہیں،انکا confidence level دیکھا جاتا ہے، جب یہ کال سینٹرز ریکوری کروا لیتے ہیں تو اپنا بل لون ایپس کی انتظامیہ کو بھیج دیتے ہیں اور اسی طرح یہ دھندہ چل رہا ہے۔

دوسری جانب ان غیر قانونی کال سینٹرز کے ذریعے پاکستانی اور بیرون ملک شہریوں کو لوٹا جا رہا ہے۔ملزمان "اسپوف کالز" کے ذریعے غیر ملکی شہریوں کے کریڈٹ اور ڈیبٹ کارڈز کا قیمتی ڈیٹا چوری کرتے ہیں اور چرائے گئے ڈیٹا کو اپنے غلط مقاصد کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ ملزمان وائس اوور انٹرنیٹ پروٹوکول (voip ) کے ذریعے اسپوف کال کر کے خود کو بینک کا نمائندہ ظاہر کر کے پاکستانی اور غیر ملکیوں سے فراڈ کرتے ہیں اور ان کی مالی انفارمیشن چوری کرتے ہیں۔

ملزمان بیرون ممالک میں رہنے والے افراد کا ڈیٹا مختلف سوشل میڈیا کے مختلف گروپس سے خریدتے ہیں، جن میں ان افراد کے نام،رابطہ نمبر اور ایڈریس شامل ہیں اور پھر انھیں کال کرکےان کی قیمتی مالی انفارمیشن چرا لیتے ہیں۔ان کریڈٹ کارڈ کی رقم کو ویب سائٹس، مرچنٹنس اور پوائنٹ آف سیل مشین (پی او ایس مشین) کے ذریعے مطلوبہ بینک اکائونٹ میں منتقل کیا جاتا ہے۔

اسی طرح بینک کا نمائندہ بن کر،کریڈٹ کارڈ کی تنسیخ ،فوج کی جانب سے مردم شماریکا کہہ کر،،قریبی عزیزوں کے اغواہ یا ایکسیڈنٹ کا بتا کر،قرعہ اندازی میں نام نکلنے کے نام پر،پلاٹ نکلنے پر،بے نظیر انکم سپورٹ، احساس پروگرام اور نجی ٹی وی چینلز کے گیم شو کا نمائندہ بن کر اور انعامی لاٹری اسکیم کا لالچ دے کرجعل سازی کر کے کروڑوں روپے شہریوں کی جیبوں سے نکالے جا رہے ہیں۔

گزشتہ دنوں ایف آئی اے سائبر کرائم سرکل نے انعامی لاٹری اسکیم کا لالچ دےکر پاکستانی اور بیرون ملک شہریوں کے بینک اکاؤنٹس کا ڈیٹا چوری کر کے رقم ہتھیانے والے گروہ کے 4 کارندوں کو گرفتار کیا ہے۔ایف آئی اے حکام کے مطابق ملزمان آن لائن فنانشل فراڈ لاٹری اسکیم میں ملوث ہیں۔ملزمان غیر قانونی کال سینٹر چلا رہے تھے ،جہاں سے وہ ملکی اور بیرون ملک شہریوں کو ہزاروں یوروز،درہم اور پاکستانی روپے میں لاٹری نکلنے کا لالچ دیتے تھے۔حکام کے مطابق ملزمان اوڈھ قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں جو گلشن معمار اور کنیز فاطمہ سوسائٹی گلزار ہجری سے غیر قانونی کال سینٹر جنھیں ان کی زبان میں "سرکہ" کہا جاتا ہے چلا رہے تھے۔

ملزمان کال سینٹر سے "اسپوف کالز" کے ذریعے ملکی اور غیر ملکی شہریوں کے بینک اکاؤنٹس کا قیمتی ڈیٹا چوری کرتے تھے اور چرائے گئے ڈیٹا کو اپنے غلط مقاصد کے لئے استعمال کرتے تھے۔ملزمان پاکستانی، سعودی،کویتی اور متحدہ عرب امارات سے تعلق رکھنے والے شہریوں کے optp (او پی ٹی پی ) حاصل کر کے فراڈ کے ذریعے حاصل کی گئی رقم انٹرنیٹ بینکنگ کے ذریعے منتقل کرتے تھے۔

ملزمان آن لائن ایپلیکیشن " فرینڈز سرچ فار واٹس ایپ" کے ذریعے واٹس ایپ پر ملکی اور غیر ملکی افراد کی کنٹیکٹ لسٹ تلاش کرتے تھے اور غیر قانونی کال سینٹر کے ذریعے کال کر کے انھیں بتاتے تھے کہ ان کا لاٹری اسکیم میں ہزاروں یوروز، درہم اور پاکستانی روپوں کا انعام نکلا ہے، جسکے بعد وائس اوور سافٹ وئیر کے ذریعے اسپوف کالز کر کے ان کے کریڈٹ کارڈز کے ڈیٹا سمیت قیمتی مالی انفارمیشن چوری کر لیتے تھے۔ایف آئی اے حکام کے مطابق ملزمان کا 9 رکنی گروہ اب تک متعدد ملکی اور غیر ملکیوں سے فراڈ کر چکا ہے۔

ایف آئی اے نے گلشن معمار میں واقع غیر قانونی کال سینٹر پر چھاپہ مار کر 4 ملزمان ذیشان ولد عثمان، بہار علی ولد عبدالغنی،سلمان ولد جمعہ خان اور ادریس ولد علی شیر کو گرفتار کر کے انکے قبضے سے موبائل فونز،لیپ ٹاپ اور دیگر سامان اور ڈیوائسز برآمد کی ہیں۔

ایف آئی اے سائبر کرائم سرکل کو تفتیشی افسران کی اہلیت،ٹریننگ اور افرادی قوت کی کمی جیسے مسائل کا سامنا ہے۔ہر روز نت نئے طریقوں سے سائبر کرائم کے واقعات ہو رہے ہیں۔ نئے سافت وئیر اور ٹول آ رہے ہیں جس سے تفتیشی افسران کی آگاہی ضروری ہے اور اسکے لئیے انھیں مناسب تربیت کی ضرورت ہے جو نہیں دی جا رہی۔تفتیشی افسران آج بھی پرانے سافٹ وئیر پر کام کر رہےہیں۔

سائبر کرائم میں تعینات فرانزک ایکسپرٹس کو ہی ریڈ پر بھیج دیا جاتا ہے جبکہ وہ صرف فرانزک کے ماہر ہیں ،انفارمیشن ٹیکنالوجی سے متعلق جتنے بھی جرائم ہیں وہ اسی وقت ختم ہو سکیں گے جب فرانزک پر پیسے خرچ کئیے جائیں گے کیونکہ ہیکرز اور سائبر کرائم میں ملوث ملزمان ان جدید سافٹ وئیرز اور ٹول کو استعمال کر کے بہت آگے نکل گئے ہیں جبکہ تفتیشی افسران آج بھی وہیں کھڑے ہیں جنکی تربیت انھیں اس وقت دی گئی تھی۔ایک تفتیشی افسر کے پاس اس وقت 400 سے 500 انکوائریاں ہیں جسکی وجہ سے وہ کسی ایک کیس میں توجہ نہیں دے پاتا۔کراچی میں اس وقت روزانہ 100 سے زائد شکایتیں آتی ہیں، جن میں زیادہ تر انٹرنیٹ فراڈز کی ہیں۔

آن لائن شاپنگ فراڈ اور مالی طور پر متاثرہ شہری اس وقت ایف آئی اے سے بڑی تعداد میں رجوع کر رہے ہیں۔دوسری جانب پی ٹی اے جو ریگولیٹری اتھارٹی ہے ان تمام معاملات پر اسکی کارکردگی بھی سوالیہ نشان ہے۔غیر قانونی کال سینٹرز کو روکنے کا کام بھی پی ٹی اے کی زمہ داری ہے۔بہت سی ایپلیکیشنز جنکے ذریعے غیر قانونی دھندے چل رہے ہیں انھیں روکنا بھی پی ٹی اے کی زمہ داری ہے۔ پی ٹی اے کے ویجلنس اینڈ مانیٹرنگ ونگ میں جہاں وائٹ لسٹنگ اور بلیک کاسٹنگ کی تمام معلومات موجود ہوتی ہیں وہ ان ایپلیکیشنز کو بلاک کرنے کا ذمہ دار ہے ۔اس وقت 1XBat نامی ایپ بھی چل رہی ہے جبکہ اسکے اشتہار بھی ٹی وی پر چل رہے ہیں لیکن پی ٹی اے اسے روکنے سے قاصر ہے۔ ایف آئی اے حکام کا کہنا ہے کہ کئی بار پی ٹی اے کو اس حوالے سے رابطہ کیا گیا ہے تاہم ان ایپس کو بلاک نہیں کیا گیا۔

ان جرائم کو روکنے کے لئیے ایس ای سی پی ،ایف آئی اے اور پی ٹی اے کو اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔ صرف انہی آن لائن لون ایپس کو کام کرنے کی اجازت ہونی چاہئیے جو اسٹیٹ بینک کے ایس او پی کے مطابق کام کریں۔ ایس ای سی پی کا بھی اس میں کردار ہے۔ ان آن لائن لون ایپس کو جو سود پر لون دے رہی ہیں اسٹیٹ بینک کے این او سی کے بغیر ایس ای سی پی انھیں کیسے رجسٹرڈ کر رہا ہے؟۔اسی طرح سافٹ وئیر کمپنیوں سے بھی پوچھا جانا چاہئیے کہ انکے پاس یہ پیسے کہاں سے آئے۔؟

آن لائن فنانشل فراڈز سے نمٹنے کے لئیے تمام متعلقہ اداروں کو ایک پیج پر آنے اور مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ شہریوں کو ان فراڈز اور مالی نقصانات سے بچایا جا سکے۔

جرم و سزا سے مزید
جرم و سزا سے مزید