• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بھارتی فاسٹ بالر محمد سراج نے زیرو سے ہیرو بننے کا سفر کیسے طے کیا؟




بھارتی کرکٹ ٹیم کے فاسٹ بولر محمد سراج نے انکشاف کیا ہے کہ انہوں نے اپنے کرکٹ کیریئر کا آغاز بطور بیٹر کیا اور  لاک ڈاؤن کے دوران ایک وقت ایسا بھی آیا جب کرکٹ چھوڑنے کا ارادہ کر لیا تھا۔

خیال رہے کہ یہ محمد سراج کی دھواں دار بولنگ ہی تھی جس کی بدولت بھارت نے باآسانی ایشا کپ 2023ء کا ٹائٹل جیتا، جس کے بعد پڑوسی ملک میں اس نوجوان بولر کی دھوم مچی گئی، لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ انہوں نے زیرو سے ہیرو بننے کا سفر کیسے طے کیا۔

بھارتی میڈیا رپورٹس کے مطابق ایک وقت ایسا بھی تھا جب بھارتی کھلاڑی نے مشکل حالات کا سامنا کیا یہاں تک کہ رکشہ ڈرائیور کے بیٹے سراج کے پاس اتنے پیسے بھی نہیں تھے کہ وہ اپنے لیے شوز خرید سکتے، وہ چپل پہن کر کرکٹ کھیلتے تھے۔

اس کے علاوہ انہوں نے اپنے ایک انٹرویو میں انکشاف کیا کہ بہت سے لوگ یہ نہیں جانتے کہ میں نے کرکٹ کا آغاز بطور بیٹر کیا تھا، فاسٹ بولنگ تو بہت سال بعد شروع کی تھی۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق دورانِ انٹرویو محمد سراج سے سوال کیا گیا کہ اس مقام تک پہنچنے میں کتنی مشکلات کا سامنا رہا، جس پر فاسٹ بولر نے اپنی کہانی سناتے ہوئے بتایا کہ ماں تو یہ کہتی تھی کہ بڑا بھائی انجنیئر ہے تو کہاں آوارہ گردی کر رہا ہے، کیونکہ میں کالج جانے کے بجائے سیدھا کرکٹ کھیلنے چلا جاتا تھا، جس پر کالج سے میری والدہ کو فون کال پر شکایت کی جاتی تھی۔

محمد سراج کے مطابق وہ اپنی والدہ سے بہت ڈرتے تھے اور جب بھی کوئی شکایت گھر آتی تھی تو وہ تبھی گھر میں قدم رکھتے تھے جب ان کے والد گھر پہنچ جاتے تھے، کیونکہ وہی والدہ سے پٹنے سے بچاتے تھے، وہ انہیں غلطیوں پر بہت مارتی تھیں۔

دورانِ انٹرویو بھارتی کرکٹر نے اپنے خاندان کے مالی حالات سے متعلق بات کرتے ہوئے بتایا کہ والد آٹو رکشہ چلاتے تھے، میرے بھائی کو روزانہ ایک سو روپے دیتے تھے کیونکہ وہ انجیئرنگ کالج پڑھنے جاتے تھے جبکہ مجھے 70 روپے جیب خرچی ملتی تھی جس میں سے 40 روپے کا پیٹرول لگ جاتا تھا۔

سراج نے بتایا کہ جس جگہ میں پریکٹس کے لیے جاتا تھا وہاں دیگر کھلاڑی مرسڈیز اور دیگر گاڑیوں میں آتے تھے لیکن صرف میں ہی ایک ایسا تھا جو اپنی بائیک کو دھکا مارتے ہوئے گراؤنڈ تک پہنچتا تھا۔

بھارتی فاسٹ بولر کے مطابق امیر لڑکے مجھے عجیب نظر سے دیکھتے تھے۔

دورانِ انٹرویو میزبان نے محمد سراج سے پوچھا کہ میرے خیال میں آپ نے 2015ء تک بولنگ کا آغاز بھی نہیں کیا تھا، تو آپ نے فاسٹ بالنگ کس عمر میں شروع کی؟ اس کا جواب دیتے ہوئے بھارتی کرکٹر نے بتایا کہ میں نے لگ بھگ 16 سال کی عمر میں فاسٹ بولنگ شروع کی تھی، گلی میں ٹینس بال سے کھیلتے ہوئے تیز بولنگ کرتا تھا۔

محمد سراج نے یہ بھی انکشاف کیا کہ اس وقت چپل پہن کر کرکٹ کھیلتا تھا، کیونکہ جوتے خریدنے کے لیے بھی پیسے چاہیے ہوتے ہیں اور مجھے محض 70 روپے جیب خرچی ملتی تھی، اس میں جوتے کیسے آتے؟

انہوں نے ہنستے ہوئے بتایا کہ اگر جوتے خریدنے کی بات کرتا تھا تو گھر پر جوتے پڑتے اور گھر والے کہتے ایک تو آوارہ گردی کر رہا ہے اوپر سے جوتوں کی فرمائش کر رہا ہے۔

فاسٹ بولر نے اپنی بولنگ پرفارمنس کا ایک قصہ سناتے ہوئے بتایا کہ 19 برس کی عمر میں ٹینس بال کے ایک ٹورنامنٹ میں پہلی بار فاسٹ بولنگ کی، اِن سوئنگ اور آؤٹ سوئنگ کا کچھ پتہ نہیں تھا، ٹورنامنٹ کے پہلے میچ میں 5 وکٹ حاصل کیں۔

محمد سراج کے مطابق اس میچ سے ملنے والی انعامی رقم سے انہوں نے پہلی بار اپنے لیے جوتے خریدے۔

بھارتی فاسٹ بولر نے مزید بتایا کہ جب آئی پی ایل میں سلیکٹ ہوا تو میں نے فیصلہ کیا کہ سب سے پہلے گھر خریدوں گا، کیونکہ گاڑی وغیرہ کا کوئی شوق نہیں تھا، مقصد یہی تھا کہ گھر لیکر گھر والوں کو سکون سے بیٹھا دوں اور جب گھر لیا تو اتنا سکون محسوس ہوا اور سوچا کہ میں نے زندگی میں کچھ کر لیا ہے۔

محمد سراج کے مطابق لاک ڈاؤن کے دوران میرے مالی حالات اس حد تک خراب ہو گئے تھے کہ فیصلہ کر لیا تھا کہ اب ایک سال تک کرکٹ کھیلوں گا، اگر اچھا ہوا تو ٹھیک، ورنہ کرکٹ چھوڑ کر کہیں بھی کوئی بھی ملازمت کر لیں گے، لاک ڈاؤن کے دوران اتنی محنت کی کہ پرفارمنس اچھی ہوگئی۔

شہرت حاصل کرنے سے متعلق بھارتی فاسٹ بولر نے بتایا کہ کافی مرتبہ میچ کے آغاز میں قومی ترانہ پڑھتے ہوئے احساس ہوتا ہے کہ ہم کہاں تھے اور کہاں سے کہاں آ گئے ہیں، یعنی گلی کی کرکٹ سے سیدھا قومی کرکٹ ٹیم میں پہنچنے پر خود پر بے حد فخر محسوس کرتا ہوں۔

کھیلوں کی خبریں سے مزید