• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ غیر قانونی قرار دینے کا لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار

-----فائل فوٹو
-----فائل فوٹو

سپریم کورٹ آف پاکستان نے فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ غیر قانونی قرار دینے کا لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا۔

سپریم کورٹ میں چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے سماعت کرتے ہوئے فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کے خلاف کمپنیوں کا معاملہ نیپرا اپیلیٹ ٹریبونل کو بھیج دیا۔

سپریم کورٹ نے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ کا فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ غیر قانونی قرار دینے کا فیصلہ آئینی و قانونی طور پر قابلِ عمل نہیں۔

سپریم کورٹ نے آج سے بجلی کی ترسیلی کمپنیوں کو فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ وصول کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ کمپنیوں اور صنعتوں سے واجب الادا رقم نیپرا ایپلیٹ ٹریبونل کے فیصلے سے مشروط ہوگی۔

عدالت نے کہا کہ نیپرا اپیلیٹ ٹریبونل میں صارف کمپنیاں 15 دن میں فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کے خلاف اپیلیں دائر کریں، نیپرا اپیلیٹ ٹریبونل 10 دن میں اپیلیں مقرر کرے، ٹریبونل جلد از جلد قانونی میعاد کے اندر اپیلوں پر فیصلہ کرے۔

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کیس کی سماعت کے دوران ڈسٹری بیوشن کمپنیز کے وکیل کی سرزنش کی۔

دورانِ سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس میں کہا کہ ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف 1 ہزار سے زائد اپیلیں دائر ہوئیں، آپ اپنے دلائل میں 1 ہزار 90 نمبر کی درخواست کا حوالہ دے رہے ہیں، آپ کو چاہیے تھا کورٹ اسٹاف کو دلائل سے پہلے بتا دیتے، دورانِ کیس ایک ہزار سے زائد درخواستوں میں سے اس نمبر کی درخواست نکالنا آسان کام نہیں، پروفیشنل ازم تو جیسے ختم ہی ہو گیا ہے، روسٹرم پر آ کر تقریریں کریں گے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا کسی اپیل کے قابلِ سماعت ہونے پر اعتراض ہے؟ کسی کو اعتراض نہیں تو میرٹ پر دلائل دیں، اپیلوں میں ایک استدعا بھی نہیں، مختلف استدعا کی گئی ہیں۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ ڈسٹری بیوشن کمپنیز کی طرف سے وکیل منور سلام دلائل دیں گے، نیپرا کی وکالت ایڈووکیٹ عمر اسلم کر رہے ہیں، عدالت کی معاونت اور فیڈریشن کی نمائندگی اٹارنی جنرل آفس کرے گا۔

کمپنیز کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ مئی 2022ء میں جب ایف پی اے لگایا گیا تب نیپرا کی تشکیل غیر آئینی تھی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اگر نیپرا کی تشکیل غیرآئینی ہے تو جج کو اس پر فیصلہ دینا چاہیے تھا، لاہور ہائی کورٹ سنگل بینچ نے اپنے اختیار سے باہر فیصلہ دیا جسے برقرار رکھنا ممکن نہیں، ہائی کورٹ کے ججز آرٹیکل 199 پڑھنا بھول جاتے ہیں، کیا ہائی کورٹ کا جج یہ کہہ سکتا ہے کہ 500 یونٹ بجلی استعمال پر بل یہ ہو گا؟

جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ سپریم کورٹ سمیت کوئی بھی عدالت نیپرا کے تکنیکی معاملات نہیں دیکھ سکتی۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ نے وہ فیصلہ دیا جس کی درخواستوں میں استدعا ہی نہیں کی گئی تھی، بہتر ہو گا تکنیکی معاملات نیپرا کے سامنے ہی اٹھائے جائیں۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ نیپرا اور ڈسکوز کو ٹریبونل میں معاملہ چیلنج کرنے پر کوئی اعتراض نہیں۔

واضح رہے کہ لاہور ہائی کورٹ کے سنگل بینچ نے فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کو غیر قانونی قرار دیا تھا۔

قومی خبریں سے مزید