• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قومِ یہود میں نسلی امتیاز، مذہبی تعصب اور انتہا پسندی کا تصور

(گزشتہ سے پیوستہ)

برطانیہ کی کروائی گئی ۱۹۲۲ء کی مردم شماری کے مطابق یہودی وہاں کی آبادی کا محض دس فی صد تھے اور اسرائیل کے قیام سے صرف ایک سال قبل کی مردم شماری کے مطابق بعد میں اسرائیل کا نام دیے جانے والے علاقے میں یہودیوں کی تعداد تقریباً نصف تھی اور فلسطینیوں کی ۹۳ فی صد زمین عرب فلسطینیوں کے پاس تھی، مگر بعد میں صہیونیوں کی کثیر نقل مکانی کے نتیجے میں ہتھیاروں کے بل بوتے پر دہشت اور دھونس دھمکی کے ذریعے فلسطینیوں کو نکال کر ان کی جائیداد پر ناجائز قبضے کا عمل شروع ہوا۔

ایک رپورٹ کے مطابق ۱۹۴۸ء سے پہلے اسرائیل کی مقبوضہ سرزمین پر آٹھ لاکھ عرب مسلمان آباد تھے، جن میں سے بعد ازاں اسرائیلی ظلم و ستم اور جارحیت کے نتیجے میں بچ رہنے والوں کی تعداد ایک لاکھ ستّر ہزار رہ گئی اور چھ لاکھ تیس ہزار فلسطینی دیگر عرب ممالک میں ہجرت پر مجبور ہوئے۔ انہیں اپنے گھروں سے جبری بے دخل کیا گیا، جہاں فلسطینیوں کے آباء و اجداد ہزارہا برس سے مقیم تھے، اسرائیل نے ۱۹۵۶ء، ۱۹۶۷ء، ۱۹۷۳ء کی جنگوں اور بعد ازاں ۱۹۸۲ء میں لبنان پر چڑھائی کرکے اپنی سرحدوں کو وسیع تر کیا۔

یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ یہودی اپنی مذہبی روایات، نسلی تفاخر، مذہبی تعصب، انتہا پسندی، بدترین جارحیت اور فلسطین پر غاصبانہ قبضے اور اپنے مذموم عزائم کی بدولت فلسطینی مسلمانوں پر بدترین مظالم ڈھا رہے ہیں، وہ عہد نامۂ قدیم اور ’’تالمود‘‘ میں موجود بدترین نسلی اور مذہبی تعصب پر مبنی روایات اور تعلیمات کو عالمی مذاہب میں صرف اور صرف اسلام اور مسلمانوں کے خلاف استعمال کر رہے ہیں۔

عرب مصنف ڈاکٹر محسن محمد صالح نےاپنی کتاب ’’تاریخ فلسطین‘‘ میں یہودیوں کی ارض فلسطین پر غاصبانہ قبضے کی تاریخ۔ صہیونیوں کے فلسطینی مسلمانوں پر بدترین مظالم، خطے میں یہودیوں کے جارحانہ اور توسیع پسندانہ عزائم کا جائزہ لے کر ۱۸۸۱ء سے ۲۰۰۲ء تک عہد بعہد تاریخ کے مختلف ادوار میں متعلقہ موضوع پر انتہائی مفید معلومات فراہم کی ہیں۔ (دیکھیے: محسن محمد صالح، ڈاکٹر/تاریخ فلسطین، لاہور، مترجم، فیض احمد شہابی، لاہور، ادارہ معارفِ اسلامی، ۲۰۰۸ء، ص ۳۱۴۔۳۲۸)

اسرائیل، قوم یہود کی جارحیت، نسلی تعصب، مذہبی جنون اور غارت گری کا شکار نصف صدی سے زیادہ عرصے سے صرف اور صرف مسلمان ہیں، طرفہ تماشا یہ کہ تہذیبی اقدار، احترامِ انسانیت، بنیادی ا نسانی حقوق، عالمی امن، انسان دوستی اور عالمی ضمیر کے نام نہاد ترجمان اور اخلاقی اور قانونی قدروں کے نام نہاد امین اس پر نہ صرف خاموش بلکہ اسر ائیلی جارحیت کے معاون، مددگار اور اس کے وکیل کے طور پر سامنے آتے ہیں، آج خود ساختہ دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ کی توپوں کا رخ بھی صرف اور صرف مظلوم فلسطینی مسلمانوں کی طرف ہے۔ مسلمان اپنے ہی ملک میں عالمی اور صہیونی جارحیت کا شکار نظر آتے ہیں۔ ایسے میں امن کا خواب کبھی شرمندۂ تعبیر نہیں ہوسکتا۔

مسلمانوں پر بدترین اسرائیلی مظالم، جارحیت، سفاکی و درندگی، شدید تعصب و تنگ نظری، بہیمانہ سلوک کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے یہ تاریخی حقیقت پیشِ نظر رہنی چاہیے کہ اسلام اور مسلم حکمرانوں نے تاریخ کے ہر دور میں عدل، مساوات، رواداری، انسان دوستی، اعلیٰ اخلاقی اقدار اور مذہبی رواداری پر مبنی اسلامی روایات اور تعلیمات کو ہمیشہ پیشِ نظر رکھا۔ تاریخی حقائق اس پر گواہ ہیں۔

اسلام کی چودہ سو سالہ تاریخ میںبالخصوص عہدِ نبویؐ، عہدِ خلافتِ راشدہ، دور اموی، عہدِ عباسی اور بعد کے ادوار میں ’’یہودیوں‘‘ کو جو مذہبی آزادی حاصل رہی، مسلم حکمرانوں نے ان کے ساتھ جو مثالی سلوک روا رکھا، انہیں جس طرح مذہبی، معاشرتی اور قانونی تحفظ فراہم کیا گیا، جس طرح رواداری برتی گئی، وہ ایک روشن مثال ہے۔چناں چہ عالمی شہرت یافتہ برطانوی مورخ کیرن آرمسٹرانگ (Karren Armstrong) اپنی کتاب "The Battle for God" میں اعترافِ حقیقت کے طور پرر قم طراز ہے:’’اسلامی دنیا میں یہودیوں کو محدود نہیں رکھا گیا، بلکہ انہیں عیسائیوں کی طرح ’’ذمیوں‘‘ کا درجہ حاصل تھا، جس سے انہیں شہری اور عسکری تحفظ مل گیا تھا، مسلمانوں نے یہودیوں پر ظلم و ستم نہیں ڈھائے‘‘ اسلامی دنیا میں سامیت دشمنی کی کوئی روایت نہیں ملتی، اگرچہ ذمی دوسرے درجے کے شہری تھے، تاہم انہیں مکمل آزادی حاصل تھی۔ وہ اپنے معاملات اپنے قوانین کے مطابق طے کرسکتے تھے اور مرکزی دھارے کے کلچر اور تجارت میں شمولیت کے لیے یورپ کے یہودیوں سے کہیں زیادہ آزاد تھے۔‘‘Karren/ Armstrong/ The Battle for God) ترجمہ: خدا کے لیے جنگ، مترجم، محمد احسن بٹ، لاہور، نگارشات، ۲۰۰۶ء، ص ۵۶)

مغربی مصنف وکٹر ای مارسڈن (Victor E- Marsden) "World Conquest Through World Government the Protocols of the Learned Elders of Zion" میں لکھتا ہے: ’’(عہدِ نبویؐ اور بعد ازاں خلافتِ راشدہ میں) یہود کو ان کی بد اعمالیوں کے سبب سرزمین عرب سے خارج کرنا تو ناگزیر ہوچکا تھا، تاہم مسلمان ان سے اہل کتاب ہونے اور ذمی ہونے کی بناء پر حسنِ سلوک ہی کا مظاہرہ کرتے رہے، چناں چہ جہاں تک اسلامی سلطنت پھیلتی گئی، وہ بھی آگے بڑھتے رہے۔ 

عربوں نے انہیں مصر، فلسطین، شام اور ایران کہیں سے بھی بے دخل نہ کیا، وہ بے خوف ہوکر کھیتی باڑی اور تجارت کرتے رہے، ان کے اسقف اعظم بابل، آرمینیا، ترکستان، ایران اور یمن میں اپنے اپنے علاقوں کے یہود کے لیے شہزادوں کی حیثیت رکھتے تھے۔ ہسپانیہ میں مسلمانوں کا زریں دور یہود کا بھی زریں دور تھا، ان کی مذہبی، سماجی اور اقتصادی سرگرمیوں پر کسی قسم کی کوئی پابندی نہ تھی، ظہورِ اسلام سے قبل کے ہسپانوی حکمرانوں نے ان کی شرارتوں اور مفسدہ پردازیوں کے باعث انہیں اس قدر کچل دیا تھا کہ انہیں ایک صدی تک سر اٹھانے کی جرأت نہ ہوسکی، لیکن مسلمانوں نے ایک بار پھر انہیں با عزت زندگی گزارنے کا موقع فراہم کیا۔‘‘(بحوالہ وکٹر ای مارسڈن/ یہودی پروٹوکولز، ترجمہ کتاب مذکور، مترجم، محمد یحییٰ خان، لاہور، نگارشات پبلی کیشنز، ۲۰۰۷ء، ص ۶۰۔۶۱)

مغربی مصنف رون ڈیوڈ اپنی کتاب ’’قومیں جو دھوکہ دیتی ہیں‘‘ میں لکھتے ہیں: ’’عربوں کے سنہری دور کی خصوصیات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اس نے پرورش کی،ایک یہودی سنہرے دور کی۔‘‘یعنی اسلامی تاریخ کے مختلف ادوار میں مسلم حکمرانوں نے یہودیوں کو مذہبی آزادی فراہم کی، عربوں کے روادارانہ رویے کی بناء پر یہ بجا طور پر کہا جاسکتا ہے کہ یہ یہودیوں کے لیے ایک سنہری دور تھا، جس میں بلا تفریق مذہب انہیں مکمل مذہبی اور معاشرتی آزادی حاصل تھی۔ (بحوالہ: رون ڈیوڈ/ قومیں جو دھوکہ دیتی ہیں، مترجم: رضی الدین سید، کراچی، راحیل پبلی کیشنز، ۲۰۰۸ء، ص ۳۶)

رون ڈیوڈ مزید لکھتا ہے: ’’عثمانی خلافت میں عیسائیوں اور یہودیوں کو مذہبی آزادی دی گئی، مسلمانوں کی ’’جیو اور جینے دو‘‘ کی یہ خوب صورت پالیسی اس دور کی متعصب عیسائی حکومتوں کی پالیسی کے بالکل برعکس تھی۔‘‘ (ایضاً ص ۴۸)

رون ڈیوڈ مزید لکھتے ہیں: ’’کسی بھی عیسائی ملک کی نسبت مسلم ممالک میں یہودیوں کے ساتھ عمدہ سلوک کیا جاتا تھا۔‘‘ (ایضاً ص ۵۵)

تاریخ کے جائزے سے معلوم ہوتا ہے کہ پندرہویں صدی عیسوی سے قبل دنیا کے اکثر یہودی، مسلم دنیا خاص طور پر اندلس میں رہتے تھے، انہیں مشرقی یہودی (Estern Jews) یا سفاروم (Sephardim) کہا جاتا تھا، سولہویں صدی عیسوی تک مسلم دنیا میں آباد یہودیوں کی تعداد دنیا بھر میں آباد یہودیوں کے مقابلے میں ایک غالب یہودی اکثریت تھی۔‘‘ (اس سے یہودیوں کے ساتھ مسلمانوں کی فراخ دلی اور مذہبی رواداری کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔‘‘ (بحوالہ، ڈاکٹر محسن محمد صالح/ تاریخ فلسطین، ص ۱۵۰)

ٹی ڈبلیو آرنلڈ (T.W.Arnold) اپنی شہرۂ آفاق کتاب "The Preaching of Islam" میں اعترافِ حقیقت کے طور پر لکھتے ہیں: ’’عیسائی پادری اپنے اقتدار سے فائدہ اٹھا کر یہودیوں پر ظلم و ستم کرتے تھے، جو لوگ اصطباع لینے سے انکار کرتے ، ان کے خلاف وحشیانہ قسم کے سخت مظالم کے احکام جاری کرتے تھے، ان سختیوں (اور امتیازی رویے) کا نتیجہ یہ نکلا کہ جب عربوں نے اندلس پر چڑھائی کی تو یہودیوں نے حملہ آوروں کو نجات دہندہ جان کر ان کا خیر مقدم کیا، جن شہروں کو عرب فتح کرچکے تھے، ان کی حفاظت کے لیے سپاہ کا کام دیا اور جن شہروں کا مسلمان محاصرہ کیے ہوئے تھے، ان کے دروازے کھول دیے۔‘‘(ٹی ڈبلیو آرنلڈ/ دعوت اسلام، مترجم: ڈاکٹر شیخ عنایت اللہ، مطبوعہ محکمہ مذہبی امور و اوقاف پنجاب۔The Preaching of Islam)

ٹی ڈبلیو آرنلڈ کے اس بیان سے مسلمانوں کی یہودیوں سے فراخ دلی اور رواداری کا بخوبی پتا چلتا ہے۔ موصوف نے اپنی معرکۃ الآراء کتاب میں جو اسلام کی دعوتی اور تبلیغی تحریک کی ایک مکمل تاریخ ہے، ایسی بے شمار شہادتیں پیش کی ہیں۔

ڈاکٹر مبارک علی لکھتے ہیں:’’یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ یہودی غزوۂ خیبر میں بدترین ہزیمت، اپنی ریاست کے خاتمے اور جزیرۂ عرب سے اخراج کے بعد مشرق و مغرب کے مختلف خطوں پر اقلیت کی حالت میں رہے، بعد ازاں مسلم حکمرانوں نے یہودی علماء کی قدر کی۔ ان کے ساتھ مذہبی رواداری کا سلوک کیا، یہی وجہ ہے کہ جب اندلس پر عیسائیوں نے قبضہ کیا تو انہوں نے مسلمانوں کے ساتھ یہودیوں کو بھی وہاں سے بے دخل کردیا، عیسائی دنیا میں ہمیشہ یہودیوں کے ساتھ امتیازی برتائو کیا گیا۔ انہیں معاشرے سے کاٹ کر علیحدہ کردیا گیا۔ ان کے رہنے کے لیے شہروں سے باہر علیحدہ محلے (Ghetoes) مقرر کردیے گئے، جہاں وہ زندگی گزارنے پر مجبور تھے۔ (ڈاکٹر مبارک علی/ تاریخ اور مذہبی تحریکیں، لاہور فکشن ہائوس، ص ۸۹)

جب کہ اس کے برخلاف مسلم معاشرے میں وہ مکمل مذہبی آزادی کے ساتھ زندگی گزارنے میں پوری طرح آزاد تھے۔آج اسرائیل فلسطینی مسلمانوں پر بدترین جارحیت کا مرتکب ہے۔ معصوم بچے، بوڑھے، خواتین بھی اس کی سفاکی، درندگی اور بدترین مظالم سے محفوظ نہیں، عرب خطے میں اس کے توسیع پسندانہ عزائم کسی سے ڈھکے چُھپے نہیں، ان تمام حقائق کے باوجود عالمی طاقتیں اسرائیل کے غاصبانہ قبضے، اس کے جارحانہ عزائم ظلم، سفاکی، درندگی پر خاموش ہیں۔ ایسے میں عالمی امن کا خواب کبھی شرمندۂ تعبیر نہیں ہوسکتا۔

حقیقت یہ ہے کہ ارض فلسطین اور عرب علاقوں میں اسرائیل کا وجود خطے میں جنگ اور بدامنی کا بنیادی سبب ہے۔ اسرائلی مظالم کی ایک طویل تاریخ ہے، بدقسمتی سے آج فلسطین کے مسلمان بدترین صہیونی مظالم کا شکار ہیں، جس کا تدارک اور سدِّباب صرف اور صرف مسلم امہ کے اتحاد میں مضمر ہے۔ (جاری ہے)