آج کل ہم کسی بھی شاعر یا ادیب کو منفرد کہہ دیتے ہیں، جو وہ نہیں ہوتا لیکن جون ایلیاء پر یہ لفظ ہررخ سے پورا اترتا ہے بے شک وہ ایک منفرد وجود تھے۔ اپنے نام میں، حلیے میں، انداز گفتگو میں، شعر خوانی میں، حرز نگاری میں، خیالات میں، عقائد میں، شخصیت میں اور زندگی بسر کرنے میں، ان کی گہری تخلیقی انفرادیت پوری آب و تاب کے ساتھ نظر آتی ہے۔ وہ اپنے متعلق اطراف کو بار بار چونکانے اور حیرت زدہ کرنے کا فن جانتے تھے۔
ان کی شاعری میں گفتگو کا اسلوب اور تکرار ا کا جادو ہے۔ وہ بیک وقت ملال، طنز اور تلخی کی کیفیات کو اپنی غزل میں یکجا کر لیتے ہیں۔ یہ کوئی معمولی کام نہیں ہے۔ اس کے لئے گزرے ہوئے صدمات کو پھر سے زندہ کرنا پڑتا ہے۔ جو زخم بھر گئے انہیں یاد کے ناخن سے کھرچنا پڑتا ہے۔
یہ وہی تخلیقی کرب کا احساس ہے جسے علامہ اقبال نے اپنے ایک خط میں شاعر کے مصلوب ہونے سے تشبیہ دی ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ جون ایلیاء کی شاعری سادہ بیانی کے باوجود آتش احساس کی چمک سے معمور ہے۔ یہ ایک نئے شاعرانہ لہجے کی جمالیات ہے ، جس کی کوئی دوسری مثال اردو ادب میں مشکل سے ملے گی۔ چھوٹی بحروں میں تو جون ایلیاء کی غزلوں کے مصرعے اتنے دھاردار ہیں کہ ان کی تاثیر سے ڈر لگنے لگتا ہے۔ مثلاً:
یہ جو تکتا ہے آسمان کو تُو
کوئی رہتا ہے آسمان میں کیا
یہ مجھے چین کیوں نہیں پڑتا
ایک ہی شخص تھا جہاں میں کیا
مجھ کو تو کوئی ٹوکتا بھی نہیں
یہی ہوتا ہے خاندان میں کیا
کون اس گھر کی دیکھ بھال کرے
روز اک چیز ٹوٹ جاتی ہے
اپنے سب یار کام کر رہے ہیں
اور ہم ہیں کہ نام کر رہے ہیں
تنع بازی کا شوق اپنی جگہ
آپ تو قتل عام کر رہے ہیں
داد و تحسین کا یہ شور ہے کیوں
ہم تو خود سے کلام کر رہے ہیں
جون ایلیاء کا اصل نام سید حسین جون اصغر تھا۔ ان کے والد سید شفیق حسن ایلیاء عبرانی، عربی اورفارسی کے عالم تھے۔ وہ شاعر اور ذاکر بھی تھے۔ جون ایلیاء پاکستان کے مشہور و معروف فلسفی سید محمد تقی اور شہرہ آفاق قطعہ نگار، شاعر اور ماہر نفسیات رئیس امروہوی کے سگےکے بھائی تھے۔ ان کے ایک بھائی محمد عباسی بھی تھے جو کم جانے جاتے ہیں۔ وہ اپنے بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے۔
ان کی ولادت 14دسمبر1931ء کو امروہہ میں ہوئی۔ انہوں نے امروہہ کے مشہور دینی مدرسے ’’سید المدارس‘‘ میں کچھ عرصہ طالب علم کی حیثیت سے گزارا۔ انہیں زبانیں سیکھنے کا بہت شوق تھا۔ اوائل عمری میں عبرانی، عربی ، سنسکرت اور فارسی میں اچھی دستگاہ پیدا کرلی تھی۔ بعد میں انہوں نے اپنی محبت اور مطالعے سے ان زبانوں میں مہارت حاصل کر لی۔ آٹھ برس کی عمر میں اپنا پہلا شعر کہا۔
چاہ میں اس کی طمانچے کھائے ہیں
دیکھ لو سرخی مرے رخسار کی
ابتدائی دور میں اشتراکیت سے متاثر تھے۔ وہ ’’مارکسزم‘‘ کو انسانی دکھوں کا مداوا سمجھتے تھے۔ انگریزی سامراج کے خلاف اور تحریک آزادی کے ہمنوا تھے۔ 1957ء میں چھبیس برس کی عمر میں، امروہہ بھارت سے ہجرت کر کے پاکستان آ گئے۔ اور بہت جلد انہوں نے کراچی کے ادبی حلقوں میں اپنی جگہ بنالی۔ کراچی میں ماہنامہ ’’انشاء‘‘ کے ادارت سے وابستہ ہو گئے۔
یہ ایک علمی و ادبی جریدہ تھا بعد میں اس کا نام عالمی ڈائجسٹ رکھ دیا گیا۔ بہت برسوں تک یہ ڈائجسٹ جون ایلیاء کی مدیری میں نکلتا رہا بالآخر 1988ء میں بند ہو گیا۔ وہ اردو لغت بورڈ سے بھی وابستہ رہے، جہاں انہوں نے ’’لغت کبیر‘‘ کی تیاری میں اپنا علمی حصہ ڈالا۔
جون ایلیاء قدیم یونانی فلسفے اور اسکندریہ کے فلسفیوں کے افکار پر بڑی عمیق نگاہ رکھتے تھے۔ انہیں منطق اور فلکیات سے بھی گہری دلچسپی تھی۔ تاریخ اسلام اور صوفیانہ تحریکوں کے وہ بہترین اسکالر تھے۔ انہیں قرآن حکیم اور احایث مبارکہ کے بڑے بڑے طویل حصے عربی میں زبانی یاد تھے۔ وہ قرآن کی بیشتر سورتیں روانی سے سنا دیا کرتے تھے۔
وہ تاریخ کے فاطمی عہد اور مصر کی باطینہ تحریک خصوصاً اخوان الصفاء کے (52) باون خفیہ رسائل کے بارے میں بہت تفصیلی علم رکھتے تھے۔ انہوں نے کئی عربی کتابوں کے رواں اردو ترجمے کئے ۔ 1979میں پروفیسر کرار حسین کی فرمائش پر نصیر الدین محقق طوسی کی کتاب ’’الجرید‘‘ کا اردو میں رواں اور بامحاورہ ترجمہ کیا، اس کے علاوہ پینتیس سے زائد قدیم عربی کتابوں کی تدوین کی۔
تراجم کے علاوہ طبع زاد نثر میں بھی وہ اپنا علیحدہ اسلوب رکھتے تھے۔ جرمن فلسفی، نطشے کی طرح وہ خشک فلسفیانہ موضوعات کو بھی شاعرانہ نثر میں لکھنے پر قادر تھے، جس کی سب سے بڑی مثال ان کی انشائیوں کی کتاب ’’فرنود‘‘ ہے۔ کتاب کے آغاز میں جون ایلیاء کے بے تکلف دوست، اور معروف علمی اور ادبی شخصیت شکیل عادل زادہ نے ایک معنی خیز، دلچسپ اور معلومات افزا مضمون لکھا، جس سے جون کی شخصیت ہم پر اور روشن ہوجاتی ہے۔
کتاب میں پس ورق جون ایلیاء کا ایک تلخ لیکن سچا فقرہ یہ لکھا ہوا ہے ’’ہم ایک ہزار برس سے تاریخ کے دسترخوان پر حرام خوری کے سوا کچھ نہیں کر رہے‘‘۔انہیں سن دو ہزار میں حکومت پاکستان کی جانب سے ’’صدارتی تحفہ برائے حسن کارکردگی عطا کیا گیا۔ جون ایلیاء اپنا کلام چھپوانے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتے تھے۔
بلکہ ساری زندگی اپنی شاعری کی اشاعت سے گریزاں ہی رہے۔بڑی دقت سے دوستوں کے دبائو پر وہ ’’شاید‘‘ کی اشاعت پر طوعاً وکرہاً آمادہ ہوئے۔ اس طرح ان کی پہلی شعری کتاب منظرعام پر آئی۔ اس وقت ان کی عمر ساٹھ برس تھی۔ ان کی نثر نگاری کا ایک واضح نمونہ ’’شاید‘‘ کا پیش لفظ بھی ہے جس کو پڑھ کر ان کی فلسفیانہ مباحث پر گرفت کا پتہ چلتا ہے۔
جون ایلیاء اپنے آپ کو کبھی کبھی جون ایلیاء ’’فوضوی‘‘ بھی لکھتے تھے۔ فوضوی کے عربی میں معنی Anarchist یعنی انتشار پسند کے ہیں سیاسی اصطلاح میں اس کے معنی ہیں۔ ہر اتھارٹی کے خلاف بغاوت کرنے والا ریاستی قوانین کو توڑنے اور نہ ماننے والا۔ واقعی وہ ’’انارکسٹ‘‘ ہی تھے۔
مذہب ان کے خمیر میں گندھا ہوا تھا۔ وہ رسول اکرمؐ کے بڑے عاشق تھے اور انہیں انسانیت کا نجات دہندہ سمجھتے تھے۔جون ایلیاء نے اردو کی مروجہ بحروں ہی کو انپی غزلوں کے لئے منتخب کیا۔ لیکن ایک مخصوص بحر سے ان کے مزاج کو خاص نسبت تھی۔ اس بحر میں انہوں نے کافی غزلیں لکھیں۔ یہ بحر ہے ’’بحر رجزثمن مطوی مجنون‘‘۔ ان کا مشہور شعر جو ان کی قبر کے کتبے پر لکھا ہے اسی بحر میں ہے۔ وہ شعر یہ ہے:؎
میں بھی بہت عجیب ہوں اتنا عجیب ہوں کہ بس
خود کو تباہ کرلیا اور ملال بھی نہیں
انہوں نے خود بتایا کہ اس بحر سے ان کا تعارف لڑکپن میں ایران کی معتوب بہائی شاعرہ قرۃ العین طاہرہ کی اس غزل کے توسط سے ہوا۔
گرب تو اختلام نظر چہرہ بہ چہرہ روبہ رو
شرح دہم غم ترا، نکتہ بہ نکتہ موبہ مو
اس بحریک نغمگی اور ٹھہرائو کے جون ایلیاء قتیل تھے۔ اسی بحر کی ان کی ایک بہت مشہور غزل ملاحظہ کریں:
شوق کا رنگ بجھ گیا یاد کے زخم بھر گئے
کیا مری فصل ہو چکی، کیا مرے دن گزر گئے
میں تو صفوں کے درمیاں کب سے پڑا ہوں نیم جاں
میرے تمام جاں نثار، میرے لئے تو مر گئے
کیا وہ بساط الٹ گئی، ہاںوہ بساط الٹ گئی
کیا وہ جواں گزر گئے، ہاں وہ جواں گزر گئے
ان کی شاعری میں میر کی سادگی، غالب کی انائے شکستہ، سوداکی استعارہ سازی، داغ کی لسانی شفافیت، یگانہ کی سرکش نرگیست اور حافظ شیراز کی شدت عشق پائی جاتی ہے۔ ان سب عناصر نے مل کر ان کی غزل کو ایک ایسا لہجہ دے دیا جو شاعری کی دنیا میں کسی معجزے سے کم نہیں۔
اس پر مستزاد ان کا باغیانہ اور مزاجی طرز حیات، جس کی چھوٹ ان کی لفظیات اور اسلوب سخن پر پڑتی دکھائی دیتی ہے۔ 8؍نومبر 2002کو یہ عجوبہ روزگار، نادر زمانہ سچا اور کھرا شاعر دنیا کی منافقتوں کے زندان کو توڑ کر راہی ملک عدم ہوا ۔ بلاشبہ وہ ایک ایسا یکتا اور بے مثال شاعر تھا جس نے اپنی شخصی کمزوریووں کو اپنی شاعری کی تخلیقی قوت میں تبدیل کر دیا۔ اس کی تمام زندگی اس شعر کی تفسیر تھی۔
نہیں دنیا کو جب پروا ہماری
تو پھر دنیا کی پروا کیوں کریں ہم