روبینہ قریشی
لڑکی کا رشتہ آیا۔ دادی نے کہا گھر بھی ہے، آمدنی بھی ہے ،اپنے بھی ہیں ہاں کردو۔ شادی ہو گئی۔ زندگی نشیب و فراز کے ساتھ گزر گئی۔چند دہائیاں مزید گزر گئیں، پھر لڑکی کا رشتہ آیا۔دادی نے کہا کہ گھر بھی ہے، تعلیم بھی ہے، آمدن بھی ہے ہاں کردیتے ہیں۔لیکن لڑکی نے اپنی ماں سےکہا ان کا اور ہمارا ماحول بہت مختلف ہے، ہاں مت کیجیے گا۔
ماں سمجھ دار خاتون تھی اس کی سمجھ میں بات آگئی۔ رشتےسے معذرت کر لی۔کچھ عرصہ مزید گزر گیا۔ اب وقت کچھ اور بھی بدل گیا۔یہ حقیقت ہے کہ ہر زمانے کی ترجیحات اور ضروریات الگ ہوتی ہیں۔ ایک محنتی شریف لیکن غریب بچے کا رشتہ آیا۔ ماں نے سوچا کہ جب میری شادی ہوئی تب میرےشوہر بھی زیادہ امیر نہیں تھے، مگر محنتی تھے تو میں نے کچھ عرصہ مشکل لیکن مجموعی طور پر ایک اچھی زندگی گزاری۔اس رشتے پر غور کرتے ہیں۔
لیکن بیٹی نے کہا ’’ماں مجھےامیر لڑکے سے شادی کرنی ہے۔ میں اپنی آدھی زندگی آپ کی طرح ترس ترس کر نہیں گزار سکتی۔چاہے بوڑھا ہو، دوسری شادی والا ہو لیکن امیر ہو‘‘،پھر بعد میں رونا بھی تم نے ہی ہے۔
’’جی رونا تو ہے ہی…محل میں بیٹھ کر رونا جھونپڑی میں بیٹھ کر رونے سے کہیں بہتر ہے۔‘‘ماں بیٹی کو سمجھانے لگی کہ پیسہ آنے جانے والی چیزہے، امیر ہونے سے زیادہ اچھا انسان ہونا اہمیت رکھتا ہے۔
اب لڑکیوں کی سوچ تبدیل ہو چکی ہے۔ اگرچہ ابھی بھی کچھ گھرانے ایسے ہیں جہاں بچیوں کی تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت پر بھی توجہ دی جارہی ہے لیکن اس کے باوجود آج کل زیادہ تر دوقسم کی لڑکیاں نظر آرہی ہیں۔ایک وہ جو اپنے پاؤں پر کھڑی ہیں ،خود کمارہی ہیں،خود اعتماد ہیںاور آرام دہ زندگی گزار رہی ہیں تو وہ اپنی آرام دہ اورپُر سکون زندگی میں کسی کو شامل نہیں کرنا چاہتی اور نہ کسی سے دب کرنا رہنا چاہتی ہیں ۔ دوسری قسم وہ ہے جن کی نظر میں شادی کا مقصد روپیہ ، پیسہ ، آزادی اور بہترین طرز ِزندگی ہے۔
یہ دونوں نظرئیے درست نہیں ہیں۔اللہ کے لئے کیا مشکل تھا کہ اگر وہ بچوں کو دنیا پر لانے کا کوئی اور طریقہ بنا دیتا اور شادی صرف دو بندوں کی خواہشات و ضروریات کے لئے بنا دیتا۔اللہ نے شادی اور اس کی ذمہ داریوں کو آنے والی نسل کی بقا کے لئے بنایا۔ان بچوں کے لئے گھر بنایا۔ ماں باپ بنائے، ماؤں کے دلوں میں اولاد کی اتنی محبت ڈالی کہ جب اپنی محبت کا ذکر کیا تو ماں کی محبت کی مثال دی۔
اس لئے ہم والدین کا فرض ہے کہ اپنی بچوں پر نظررکھیں، ان کی تربیت پر نظر رکھیں۔یہی بچے کل کے والدین ہیں۔ انہیں شادیوں سے پہلے ذہنی طور پر آنے والی ذمہ داریوں کے لئے تیار کریں۔ یہ درست ہے کہ آج کے دور میں جب انٹر نیٹ نے ساری دنیا بچّوں کے لئے کھول کر رکھ دی ہے۔ شادیوں میں زیادہ دیر نہیں کرنی چاہیے لیکن انہیں ذہنی طور پر آئندہ ذمہ داریوں کے لئے تیار کرنا بہت ضروری ہے۔
آج خاص طور پر میں لڑکوں کی بھی تربیت بہت ضروری ہوگئی ہے ۔آج کی لڑکی پہلے جیسی دبو یا گھر بنانے والی نہیں ہے، وہ پڑھی لکھی خود مختار ہے۔اور ہمیں یہ ماننا پڑے گا کہ عورت میں صبر تو ہے لیکن برداشت نہیں ہے۔ صبر کسی بات پر مجبوری میں خاموش ہونا ہے جب کہ برداشت کسی غلط بات پر جواب دینے کی پوزیشن ہوتے ہوئے درگزر کرجانا ہے۔ مرد میں عورت کی نسبت برداشت کا مادّہ زیادہ ہوتا ہے ۔ اس لئے مرد کو چاہیے کہ برداشت اور درگزر سے کام لے، عورت کو وہاں تک مت لے کر جائے جہاں اس کا صبراور ہمت ختم ہو جائے۔
اس سال میرے ملنے والوں میں چھ شادیاں ہوئیں جن میں سے چار ٹوٹ گئیں اور چاروں شادیوں میں خلع لیا گیا۔ یعنی وہ طلاق جس کا نام لینا بھی معیوب سمجھا جاتا تھا۔ آج کی لڑکیاں یہ فیصلہ خود اپنی مرضی سے کررہی ہے۔ اس لئے اب ہمیں اپنے گھروں کے نظام بدلنا ہوں گے، اپنی سوچ اور لڑکوں کی تربیت کے خدوخال بدلنے ہوں گے۔
انہیں یہ بتانا ہوگا کہ ہمارے نبی ﷺ ازدواج مطہرات کی موجودگی میں اپنے کپڑے خود دھو لیا کرتے تھے، اپنے جوتے خود مرمت کرلیتے تھے ۔یہاں تک کہ اپنے کپڑوں پر پیوند تک خود لگا لیتے تھے اور گھریلو کام میں گھر والیوں کے ساتھ مدد بھی کروا تے تھے۔