شہباز سینئر کے بعد آج پاکستان ہاکی ٹیم مکمل طور پر یتیم ہوچکی ہے،ہر بڑا ٹائٹل چھن چکا ہے، ہاکی کے میدان سنسان ہیں، کوئی سپانسر ہی نہیں ملتا، ہاکی کی تعمیر نو کیلئے نہ کوئی تیار ہے اور نہ ہی دستیاب،افسوس ہاکی کے بعد کرکٹ میں بھی یہی چلن شروع ہوچکا ہے، کون نہیں جانتا وقار یونس، شاہد آفریدی اور سرفراز احمد کو کپتانی کے عہدہ سےبرطرف کروایا گیا جبکہ مصباح الحق کو طعنے مار مار کر مستعفی ہونے پر مجبور کیا گیا،کون نہیں جانتا کہ جاوید میانداد کیلئے بھی ایسا ماحول بنایا گیاکہ ایک مخصوص کھلاڑی نہیں ہوگا تو ہی وہ کپتان بنیں گے اگر وہ کھلاڑی آجائیگا تو میانداد کو کپتانی چھوڑنا پڑیگی،حالیہ کرکٹ ورلڈ کپ میں ناکامی کے بعد کرکٹ مافیا نے ساری توپیں بابر اعظم کی جانب موڑ دیں،ورلڈ کپ سے پہلے یہ مافیا شور مچاتا رہا کہ بابر کو اوپن نہیں کرنی چاہیے ون ڈائو ن آنا چاہیے ، جب بات نہ بنی تو بابر پر اتنی تنقید کی گئی کہ جیسے وہ دشمن ملک کا کھلاڑی ہو ، کرکٹ مافیا نے ٹی وی پریک نکاتی پروپیگنڈہ کیا کہ بابر بہت اچھا کھلاڑی ہے لیکن اچھا کپتان نہیں ہے اس لئے کپتانی سے مستعفی ہوجائے،وہ صرف ٹیسٹ کی کپتانی کرے،آپ ماضی قریب کے بائولر محمد آصف کے کیس پر غور کریں ، جب کراچی ٹیسٹ میں اس نے انڈیا کی بیٹنگ کے پرخچے اڑا دیئے تو اپنے پرائے دوست دشمن سب بول اٹھے آصف جادوگر بائولر ہے، گیند آصف کے اشارے پر سوئنگ نہیں بلکہ باقاعدہ ٹرن لیتا ہے، آصف اپنے فن میں اتنا ماہر تھا کہ ایک ہی ایکشن سے وہ جدھر اشارہ کرتا ہے گیند ادھر ہی ٹرن کرتا ، پی سی بی نے نیشنل کرکٹ اکیڈمی نامی ایک ادارہ بنایا ہوا ہے لیکن نہ اکیڈمی والے آصف کو تراش سکے اور نہ سیکورٹی والے بیرون دوروں پراسکی نگرانی کا فرض ادا سکے، اگر کرکٹ اکیڈمی نئے کھلاڑیوں میں کرکٹ اور انگریزی کی تعلیم، تکنیک ، اعتماد، پختہ رویہ، اخلاقیات، رازداری ، ایمانداری، محنت ، خود کی حفاظت،ملک وقوم سے وفاداری جیسی خصوصیات پیدا اور برقرار نہیں رکھ سکتی تو بند کردیں اس اکیڈمی کو، فارغ کردیں اس فوج ظفر موج کو، جو لاکھوں کروڑوں روپے معاوضہ لیتی ہے،جہاں تک ٹیم کے سیکورٹی سیٹ اپ کا معاملہ ہے وہ بھی کوئی قابل فخر نہیں، جب میچ فکسنگ، منشیات اور جوئے کی بات آتی ہے تو بھارتی کرکٹ بورڈ اپنے کھلاڑیوں کیلئے چھتری بن جاتا ہےجبکہ پاکستان کرکٹ بورڈ احمقوں کی طرح ہاتھ کھڑے کردیتا ہے،اگر کوئی بھارتی کھلاڑی انگریزی سے پیدل ہوتا ہے تو چند سال میں ہی اسے انگریزی سکھا دی جاتی ہے،اس دوران اسے انٹرویو کیلئے مادری زبان میں کیا بولنا ہے سکھادیا جاتا ہے،سیمی فائنل میں ریکارڈ سات وکٹیں لینے والے33 سالہ محمد شامی نے انٹرویو ہندی میں دیا، شامی کا کرکٹ تکنیک اورکھیل بارے متاثر کن طریقے سے بولنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ تربیت حاصل کرچکا ہے،جبکہ ہمارے کئی کپتان کئی سال تک بسم اللہ سے آگے بڑھ نہیں پاتے ، وہ روایتی جملہ کہتے پھرتے ہیں کہ اگلے میچ میں غلطیوں سے سیکھیں گے، محمد آصف اورمحمد عامرجیسا ٹیلنٹ پاکستان کی تاریخ میں نہیں آیا لیکن کرکٹ اکیڈمی نہ ان دونوں کی تربیت کر سکی نہ حفاظت ،محمد آصف جیسے ہیرے کی چمک سے ابھی قوم پوری طرح لطف اندوز ہی نہیں ہوئی تھی کہ وہ ہم سے چھن گیا،محمد عامر کو تو ایک موقع مزید مل گیا لیکن اس کے بعد بھی اسکے ٹیلنٹ سے فائدہ نہ اٹھایا جاسکا،ذاتی انا کو بنیاد بنا کر31 سالہ عامر کو ٹیم سے باہر نکال دیا گیا جبکہ بھارت نے اس ورلڈ کپ میں 33 سالہ شامی کی خدمات سے فائدہ اٹھایا جو فائنل سے پہلے تک ریکارڈ 23 وکٹیں لیکر سر فہرست ہے، ورلڈ کپ میں شاہین نے تسلسل سے ابتدائی وکٹیں نہیں لیں، نازک مواقع پر چوکے چھکے کھائے، حارث رئوف نے ریکارڈ رنز کھائے؟سپنرز گیند سپن کرنا اورفیلڈر کیچ پکڑنا بھول گئے کیا بابر اعظم ان سب کا ذمہ دار ہے؟ بھارت سے ہی کچھ سیکھ لیں جس نے آئوٹ آف فارم ویرات کوہلی کو ٹیم سے نکالنے کی بجائے اسے ایک سے زیادہ مواقع د ئیے اوراس نے 35 سال کی عمر میں 50 ویں سنچری بنا کر ٹنڈولکر کا ریکارڈ توڑ دیا،اگر کوہلی یہاں ہوتا تو اسےبھی ہم نے طعنے مار مار ریٹائر کردینا تھا،فخرزمان کیساتھ بھی ہم ایسا ہی کررہے ہیں، پانچ دہائیوں کے بعد بابر اعظم کی شکل ہمیں ایسا بیٹر نصیب ہوا جس کیلئے کہا گیا ہم خوش قسمت ہیں کہ بابر اعظم کے دور میں جی رہے ہیں، وہ بابر جس نے کرکٹ کے ریکارڈز تہہ و بالا کردیئے اسے ورلڈ کپ کے 9میں سے 5میچ ہارنے کےبعد مافیا کے پروپیگنڈہ کے بعد کپتانی سے ہٹا دیا گیا، کئی ماہ پہلے تک سابق کپتان شاہد آفریدی کہا کرتے تھے کہ محمد رضوان کو ایک روزہ اورٹی 20 کا کپتان بنا دیا جائے جبکہ بابر اعظم کو ٹیسٹ کپتان بنا دیا جائے لیکن جیسے ہی موقع ملا کہ انھوں نے اپنے داماد شاہین آفریدی کے سر پرکپتانی کا تاج رکھوادیا، یہ ہے ہماری پوری پاکستانی کرکٹ کی ادھوری کہانی ۔