• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بحریہ ٹاؤن کی اراضی کی قیمت کے دوبارہ تعین سے متعلق درخواست خارج

اسلام آباد (رپورٹ :رانا مسعود حسین) عدالت عظمیٰ نے بحریہ ٹاؤن کراچی سے حکومت سندھ کے ذیلی ادارہ، ملیر ڈویلپمنٹ اتھارٹی سے لی گئی اراضی کی قیمت کے چار سو ساٹھ ارب روپے کی ادائیگی سے متعلق سپریم کورٹ کے سابق فیصلے پر عدم عملدرآمد سے متعلق متفرق درخواستوں کی مجموعی طور پر آٹھ گھنٹے تک سماعت کے بعد جاری کئے گئے فیصلے میں بحریہ ٹاؤن کی جانب سے طے شدہ اراضی سے 5349 ایکڑز کم اراضی ملنے کی بناء پر مزید قسطیں جمع نہ کروانے اور ملنے والی 11547ایکڑز اراضی کی قیمت کا دوبارہ تعین کرنے سے متعلق درخواست خارج کردی ہے اور عدالت کا 21مارچ 2019کا فیصلہ برقرار رکھتے ہوئے قرار دیا کہ فیصلے پر عدم عملدرآمد کی صورت میں اس فیصلے کے مطابق کارروائی کی جائے گی، جبکہ اسی مقدمہ کے حوالے سے رجسٹرار سپریم کورٹ کے نام پر کھلوائے گئے بینک اکاؤنٹ میں جمع کرائی گئی کل رقم 65 ارب روپے میں سے بیرون ملک سے آنے والی رقم وفاقی حکومت جبکہ براہ راست بحریہ ٹاؤن انتظامیہ کی جانب سے جمع کروائی گئی رقم سندھ حکومت کو دینے کا حکم جاری کیا ہے۔ ، دوران سماعت مجھے درخواست گزار بحریہ ٹاؤن کے وکیل نے کہا کہ 40فیصد کم اراضی ملی ہے، میرے موکل کے ساتھ امتیازی سلوک ہو رہا ہے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کو کوئی اعتراض ہے تو متعلقہ فورم سے رجوع کریں، عدالت نے قرار دیا ہے کہ بحریہ ٹاؤن نے نہ صرف ادائیگیاں نہیں کیں بلکہ سرکار کی مزیداراضی پر بھی قبضہ کیا ہے جوکہ متعلقہ حکومتی افسران/عملہ کی پشت پناہی کے بغیر ممکن نہیں تھا، عدالت کو توقع ہے کہ ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے اس حوالے سے ذمہ داروں کے خلاف قانونی کارروائی کی جو یقین دہانی کروائی ہے، اس پر عمل بھی ہوگا۔ حکم نامہ میں قرار دیا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کا 21مارچ 2019 کا فیصلہ بحریہ ٹاؤن اور حکومت سندھ کی باہمی رضامندی سے جاری کیا گیا تھا، عدالتی حکم کے مطابق بحریہ ٹاؤن نے اپنی رضا مندی سے سات سال کے اندر 460ارب روپے ادا کرنا تھے، تاہم بحریہ ٹاؤن کے وکیل سلمان اسلم بٹ کے مطابق حکومت سندھ کے ذیلی ادارہ، ملیر ڈویلپمنٹ اتھارٹی کی جانب سے مکمل اراضی نہ ملنے کی بناء پر یہ ادائیگیاں روک دی گئی ہیں۔ حکم نامہ کے مطابق بحریہ ٹاؤن کے وکیل نے بحریہ ٹاؤن سے متعلق اراضی کی نشاندھی کے حوالے سے سروے آف پاکستان کی رپورٹ پر اعتراضات اٹھائے ہیں جبکہ ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے بتایا ہے کہ سروے کے دوران بحریہ ٹاؤن کی اپنی سروے ٹیم بھی حکومتی ٹیم کے ہمراہ موجود تھی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کیا باہمی رضامندی سے کیا گیا ایسا معاہدہ، جو عدالتی حکم بھی بن چکا اس پر کوئی فریق اپنے طور پر عملدرآمد روک سکتا ہے؟ عدالتی حکم نامہ کے مطابق اس سوال کا جواب منفی میں ہی ہے، حکم نامہ میں قراردیا گیا ہے کہ کئی سال تک سپریم کورٹ میں مقدمہ کی جلد سماعت کے لئے درخواست دائر نہ کرنا فیصلے پر عملدرآمد نہ کرنے کیلئے محض جواز گھڑنے کے مترادف تھا، سروے آف پاکستان کی رپورٹ کے مطابق بحریہ ٹاؤن اپنی اراضی سے بھی زیادہ 30356ایکڑز اراضی پر قابض ہے، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے ہیں کہ لوگ زمین کا ایک ٹکڑا خریدنے کیلئے عمر بھر کی جمع پونجی لگانے کے بعد لینڈ ڈیویلپر کے رحم کرم پر ہوتے ہیں، توقع ہے کہ تمام حکومت سندھ سمیت تمام حکومتیں الاٹیوں کے تحفظ کیلئے اقدامات کریں گی، حکومتی سطح پر الاٹیوں کا ریکارڈ نہ رکھنے کی سزا الاٹیوں کو بھگتنا پڑتی ہے۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے اس دور میں نجی ہاؤسنگ سکیموں کا ریکارڈ بھی سرکاری طور پر محفوظ کرنے کا انتظام کیا جاسکتا ہے، جس سے لوگ الاٹمنٹ سے متعلق خود ہی معلومات لے سکتے ہوں، ایسے اقدامات سے غیر ضروری قانونی چارہ جوئی کا خاتمہ ہونے کے ساتھ ساتھ عدالتوں سے بھی غیر ضروری مقدمہ بازی کا خاتمہ ہوگا جبکہ حکومتی سطح پر ریکارڈ رکھنے سے ایک ہی پلاٹ کئی لوگوں کو الاٹ کرنے کا فراڈ بھی ختم ہوجائے گا۔ عدالت نے بحریہ ٹاؤن کے چیف ایگزیکٹیو آفیسر، ملک ریاض حسین کی جانب سے دائر ایک متفرق درخواست کو نمٹاتے ہوئے قرار دیا کہ 190ملین پاؤنڈز کی رقم سے متعلق معاملہ کی نیب بھی تحقیقات کر رہا ہے، اس لئے عدالت کے لئے مناسب نہیں ہوگا کہ نیب کے پاس زیر التواء معاملہ پر کوئی آبزرویشن دے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس امین الدین خان اور جسٹس اطہر من اللہ پر مشتمل تین رکنی بینچ نے جمعرات کے روز کیس کی سماعت کی تو ایڈووکیٹ جنرل سندھ، درخواست گزار بحریہ ٹاؤن کے وکیل سلمان اسلم بٹ اور دیگر فریقین کے وکلاء پیش ہوئے۔ مشرق بینک کے وکیل راشد انور نے رپورٹ پیش کی کہ ملک ریاض کی بہو مبشرہ علی ملک کی ہدایت پر ان کے بینک نے ان کے منجمد اکاؤنٹ ڈی فریز ہونے کے بعد 19,999,984.27پونڈز کی یہ رقم بحریہ ٹاؤن کی اقساط جمع کروانے کے لئے رجسٹرار سپریم کورٹ کے نیشنل بینک میں کھلوائے گئے اکاؤنٹ میں بھیجی تھی۔ عدالت نے ان سے استفسارکیا کہ کیا اس رقم پر آپ کے بینک کا کوئی حق دعویٰ ہے تو انہوں نے نفی میں جواب دیا، دوران سماعت پراسیکیوٹر نیب پیش ہوئے اور بتایا کہ 190ملین پاؤنڈز کے حوالے سے نیب تحقیقات کررہا ہے۔ انہوں نے استدعا کی کہ یہ رقم نیب کے حوالے کی جائے تاہم عدالت نے ان کی استدعا مسترد کرتے ہوئے کہا کہ آپ اپنا کام خود کریں اور ہمیں اپنا کام کرنے دیں جبکہ ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے استدعا کی کہ یہ رقم حکومت سندھ کے حوالے کی جائے۔ تاہم عدالت نے ان کی استدعا بھی مسترد کرتے ہوئے بیرون ملک سے اس اکاؤنٹ میں آنے والی مجموعی رقم 35 ارب وفاقی حکومت کے حوالے کرنے کا حکم جاری کیا۔ دوران سماعت ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے رپورٹ پیش کی کہ عدالت کے حکم پر کمشنر کراچی کی سربراہی میں قائم نو رکنی کمیٹی کے اشتراک سے سروے آف پاکستان نے گلوبل نیوی گیشن سیٹلائٹ سسٹم ریسیور کے ذریعے بحریہ ٹاؤن کراچی اور اس کے گردو نواح کی اراضی کا سروے کیا ہے اور معلوم ہوا ہے کہ بحریہ ٹاؤن کے پاس نہ صرف11547ایکڑز اراضی موجود ہے بلکہ اس نے سرکار کی اور اراضی پر بھی قبضہ کر رکھا ہے۔
اہم خبریں سے مزید