اسلام آباد (رپورٹ :،رانا مسعود حسین )عدالت عظمی نے ʼʼبحریہ ٹائون کراچی سے حکومت سندھ کے ذیلی ادارہ ،ملیر ڈیویلپمنٹ اتھارٹی سے لی گئی16ہزار 896ایکڑز اراضی کی قیمت کے چار سو ساٹھ ارب روپے کی ادائیگی سے متعلق سپریم کورٹ کے سابق فیصلے ʼʼپرعدم عملدرآمد سے متعلق مقدمہ کی سماعت کا تحریری فیصلہ جاری کرتے ہوئے واجبات کی عدم ادائیگی پربحریہ ٹائون کو نادہندہ قراردیدیا اور نظر ثانی کی درخواست سمیت تمام متفرق درخواستیں خارج کردی ہیں ،عدالت نے بحریہ ٹائون کی درخواستوں کو فضول قرار دیتے ہوئے جھوٹی مقدمہ بازی کرکے عدالت کا قیمتی وقت ضائع کرنیکی پاداش میں دس لاکھ روپے جرمانہ عائد کردیا ہے جوکہ سندھ انسٹیٹیوٹ اف یوراولوجی اینڈ ٹرانسپلانٹ کو دیا جائے گا جبکہ بحریہ ٹائون کو اراضی کے سروے پر اٹھنے والے اخراجات کی مد میں بھی مبلغ 10لاکھ روپے حکومت سندھ کو ادا کرنے کا حکم دیا ہے،عدالت نے حکم نامہ کی کاپیاں وزارت خزانہ، وزارت ہائو سنگ اینڈ ورکس ،وزارت قانون و انصاف، ایف بی آر ،سی ڈی اے اور تمام صوبائی محکمہ ہائے خزانہ و ہائوسنگ کو بھی بھجوانے کا حکم جاری کیا ہے، عدالت نے حکم نامہ کی کاپی نیشنل کرائم ایجنسی لندن کو بھجوانے کا بھی حکم دیا ہے، عدالت نے حکم نامہ کی کاپیاں وفاقی حکومت اور نیشنل بینک اف پاکستان کو بھی بھجوانے کا حکم جاری کیا ہے،عدالت نے قرار دیا ہے کہ جو رقم مشرق بینک کے ذریعے امریکی ڈالرز اور برطانوی پائونڈز کے ذریعے رجسٹرار سپریم کورٹ کے اکائونٹ میں بھجوائی گئی ،اس کا سراغ نیشنل کرائمز ایجنسی لندن نے لگایا تھا جو کہ ممکنہ طور پر مجرمانہ سرگرمیوں سے متعلق تھی جسے پہلے نیشنل کرائم ایجنسی نے ضبط کیا پھر اسے منجمد کیا گیا اور بعد ازاں اس کو کلیئر کر کے مبشرہ علی ملک کی ہدایت پر سپریم کورٹ کے اکائونٹ میں بھجوایاگیا تھا دوران سماعت جب مشرق بینک کے وکیل سے اس رقم سے متعلق دعوی ٰکے حوالے سے پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ ہمارا اس رقم پر کوئی دعوی نہیں ،ہم نے یہ رقم مبشر ہ ملک کی ہدایت پر سپریم کورٹ کے اکائونٹ میں بھیجی تھی ،تاہم عدالت نے اس رقم کو منافع سمیت حکومت پاکستان کو دینے کا حکم جاری کیا ہے ،عدالت نے قرار دیا ہے کہ بحریہ ٹائون عدم ادائیگی کی بنا پر نا دہندہ ہو چکا ہے اس لیے اب اس مقدمہ کی رقم کو سپریم کورٹ کے اکائونٹ میں رکھنے کی کوئی ضرورت نہیں ،اس لئے اراضی کی قیمت کے حوالے سے جو رقم بحریہ ٹائون نے پاکستان سے جمع کروائی ہے وہ حکومت سندھ کو دی جائے جبکہ بیرون ممالک کے اکائونٹس سے آنے والی رقم حکومت پاکستان کو بمع منافع ادا کی جائے ،عدالت نے قرار دیا ہے کہ تمام تر ادائیگیوں کے بعد نیشنل بینک اف پاکستان رجسٹرار سپریم کورٹ کے نام پر کھولے گئے اس اکائونٹ کو بند کر دے اور برانچ منیجر، اور نیشنل بینک پاکستان کے صدر کے دستخطوں سے عمل درآمد رپورٹ پیش کی جائے ،عدالت نے قرار دیا ہے کہ اس موقع پر عدالت بحریہ ٹائون اور ملک ریاض حسین کو نیب کی جانب سے بھجوائے گئے نوٹسز پر کوئی آبزرویشن نہیں دے رہی ہے تاکہ عدالتی آبزرویشن سے وہ کیس متاثر نہ ہو،عدالت نے قرار دیا ہے کہ دوران سماعت عدالت کے نوٹس میں آیا ہے کہ بحریہ ٹائون اور دیگر ہائوسنگ سوسائٹیوں سمیت بعض مختلف سوسائٹیوں کے ایک سے زائد الاٹیوں کو ڈپلیکیٹ الاٹمنٹ جاری کر دی جاتی ہے، جبکہ وہ سوسائٹی اپنے طور پرالاٹ منٹ کو بھی منسوخ بھی کر دیتی ہے ، عدالت نے قرار دیا کہ یہ ایک قانونی معاملہ ہے جبکہ عدالت کو بتایا گیا کہ اس حوالے سے عوام کو کوئی تحفظ حاصل نہیں ،عدالت نے قرار دیا کہ یہ ایک دردناک بات ہے کہ ایک شخص ساری زندگی کی کمائی سے ایک پلاٹ یا ایک اپارٹمنٹ خریدتا ہے اور ریاست اسے لینڈ ڈیویلپر یا بلڈر کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتی ہے ،دوران سماعت ایڈوکیٹ جنرل سندھ نے آگاہ کیا کہ جب کوئی اراضی رجسٹریشن ایکٹ 1908 کے تحت کسی دوسری پارٹی کو منتقل ہوتی ہے تو ہی حکومت کے پاس اس کا ریکارڈ آتا ہے، اس کے علاوہ نجی ہائوسنگ سوسائٹیوں کی الاٹمنٹ کا کوئی ریکارڈ حکومت کے پاس نہیں ہوتا ہے ،عدالت نے قرار دیا ہے کہ اس صورت میں کوئی مسئلہ اٹھنے پر سزا الاٹی کو بھگتنا پڑتی ہے ،عدالت نے پارلیمنٹ اور حکومت کو عوام کے تحفظ کے لیے یہ سقم /خرابی دور کرنے کوکہا ہے ،عدالت نے قرار دیا ہے کہ ڈیویلپر یا بلڈر کو چاہیے کہ کہ الاٹمنٹ کا سارا ریکارڈ حکومت کو شیئر کریں تاکہ ڈبل بک کیپنگ کا سلسلہ ہی ختم ہو جائے، جہاں اس طریقہ کار سے الاٹی کے حق کا تحفظ یقینی ہو جائے گا وہیں پر بلیک منی کا بھی سد باب ہو جائے گا جبکہ الاٹی معمولی سی رقم سے ہی اپنے پلاٹ کا سٹیٹس بھی دیکھ سکے گا، عدالت نے قرار دیا ہے کہ ریکارڈ نہ رکھنے کی بنا ء پر بے ایمان بلڈرز اور ڈیویلپر الاٹیوں کا استحصال کرتے ہیں جبکہ اس حوالے سے ہونے والی غیر ضروری مقدمہ بازی سے عدالتوں پر مقدمات کا بوجھ بھی بڑھ جاتا ہے ، ریکارڈ سے ایک سے زائد افراد کو پلاٹ الاٹ کرنے کی خرابی کا سدباب ہو سکتا ہے اور سوسائٹی کی جانب سے یک طرفہ طور پر ہی الاٹمنٹ کی منسوخی کا بھی سد باب ہو سکتا ہے، عدالت نے قرار دیا ہے کہ دوران سماعت ایڈوکیٹ جنرل سندھ نے یقین دلایا ہے کہ وہ حکومت سندھ کو الاٹیوں کے حقوق کے تحفظ کے حوالے سے عدالت کی تشویش سے آگاہ کریں گے اور اس حوالے سے مناسب اقدامات کر کے ملک بھر کے تمام صوبوں کے لیے صوبہ سندھ کو مشعل راہ بنایا جائیگا ،عدالت نے قرار دیا ہے کہ بحریہ ٹائون کی جانب سے رجسٹرار سپریم کورٹ کے اکائونٹ میں 10 کمپنیوں اور افراد کے بیرون ملک اکائونٹ سے پائونڈز اور امریکن ڈالرز میں آنے والی رقم پاکستانی روپوں میں 35 ارب روپے بنتی ہے ،بحریہ ٹائون کا عدالت کے ساتھ رضامندی کا معاہدہ اور اس حوالے سے جاری حکم نامہ بیرونی ممالک سے ادائیگی کی اجازت نہیں دیتا ، اس لیے 18 اکتوبر اور اٹھ نومبر 2023 کو عدالت نے ان کمپنیوں اور افراد کو نوٹسز جاری کیے تھے لیکن ما سوائے مشرق بینک کے کوئی فریق پیش نہیں ہواہے ، مشرق بینک کے وکیل رشید انور نے رپورٹ پیش کی کہ ملک ریاض کی بہو مبشرہ علی ملک کے اکائونٹ سے یہ رقم برطانوی پائونڈز کی شکل میں بھجوائی گئی ہے، انہوں نے بتایا ہے کہ مبشر ہ ملک کی ہدایات تھیں کہ اگر نیشنل کرائم ایجنسی کی جانب سے فریز کی جانے والی رقم ڈی فریز ہو جائے تو اسے رجسٹرار سپریم کورٹ کے نیشنل بینک میں موجود اکائونٹ میں بھجوا دیں، فاضل وکیل نے بتایا ہے کہ بینک نے تو اپنی اکائونٹ ہولڈر مبشر ملک کی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے یہ رقم بھجوائی ،انہوں نے عدالت کے استفسار پر بتایا کہ بینک کا اس رقم پر کوئی دعوی نہیں ہے،جس پرعدالت نے قرار دیا ہے کہ ایک ایسی رقم جس کا نیشنل کرائمز ایجنسی برطانیہ نے سراغ لگا کر ضبط کی اور اس کو متعلقہ عدالت سے منجمد کروایا اور بعد ازاں اسے ڈی فریز کروایا ؟اس رقم کو سپریم کورٹ آف پاکستان کے اکائونٹ میں بھیج کر اس ادارے کو بلا وجہ ایک تنازع میں ملوث کیا گیا ،عدالت نے قرار دیا کہ یہ رقم ممکنہ طور پر کسی مجرمانہ سرگرمی سے متعلق تھی جسے نیشنل کرائم ایجنسی نے ضبط کیا تھا ، عدالت نے قرار دیا ہے کہ مشرق بینک کے علاوہ کسی فریق نے اس رقم کے حوالے سے عدالت کی جانب سے بھجوائے گئے نوٹسز پر کوئی جواب نہیں دیا ، عدالت نے قرار دیا ہے کہ اس رقم پر یہ انگریزی محاورہ فٹ آتا ہےʼʼRobbing Peter to pay Paul,ʼʼعدالت نے قرار دیا ہے کہ بحریہ ٹائون کی جانب سے اس درخواست کو دائر کرنے کا مقصد زائد اراضی کی حقیقت کو چھپانا اور عدالت میں طے شدہ ادائیگی سے گریز کرنا تھا، بحریہ ٹان کا یہ عمل عدالت کی توہین کے مترادف ہے ،عدالت نے قرار دیا ہے کہ بحریہ ٹائون کی جانب سے طے شدہ طریقہ کار کے مطابق ادائیگی نہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ نا دہندہ ہو چکا جس کے نتیجے میں اس پر ساری رقم ہی واجب الادا ہو چکی ہے جو ادا ہوناباقی ہے ، عدالت نے بحریہ ٹائو ن کی تجویز کو منظور کرتے ہوئے ہی 21 مارچ 2019 کا حکم جاری کیا تھا، لیکن اب بحریہ ٹائون نے اب اراضی کے سارے سودے اور عدالتی حکم نامہ کا دوبارہ جائزہ لینے کی استدعا کی ہے جبکہ سروے آف پاکستان کی رپورٹ کے مطابق بحریہ ٹائون کی اراضی میں کوئی کمی نہیں ہے،اس لئے بحریہ ٹائون کی درخواستوں کو فضول قرار دیتے ہوئے جھوٹی مقدمہ بازی کرکے عدالت کا قیمتی وقت ضائع کرنیکی پاداش میں دس لاکھ روپے جرمانہ عائد کیا جاتا ہے جوکہ سندھ انسٹیٹیوٹ اف یوراولوجی اینڈ ٹرانسپلانٹ کو دیا جائے گا جبکہ بحریہ ٹائون کو اراضی کے سروے پر اٹھنے والے اخراجات کی مد میں بھی مبلغ 10 لاکھ روپے حکومت سندھ کو ادا کرنے کا حکم دیا جاتاہے۔