اسلام آباد ( مہتاب حیدر)ورلڈ بینک نے کہا ہے کہ پاکستان کا 10 فیصد غریب ترین طبقہ 10 فیصد امیرترین طبقے سے زیادہ ٹیکس دیتا ہے، تعلیم اور صحت کی سہولتیں غریب سب صحارا کے افریقی ممالک کے ہم پلہ ہیں،وہ ملک جو 1990 تک خطے میں فی کس آمدنی کے لحاظ اوپر سے دوسرے نمبر پر ہوا کرتا تھا وہ اب نیچے سے دوسرے نمبر پر ہے ، ایس آئی ایف سی اچھا اقدام مگر سرمایہ کاری کی مجموعی فضا بہتر بنانا ہوگی،وسطی اور بالائی سطح کے ملازموں کی تنخواہیں منجمد کی جائیں۔ٹیکس کی مقدار دگنا کرنے کے لیے اقدامات نافذ کرے اور اخراجات میں 10 فیصد کٹوتی کرتے ہوئے تنخواہوں کو موجودہ سطح پر منجمد کرے۔ ورلڈ بینک نے اکنامک فنانس کمیشن اور اٹھارہویں ترمیم پر نظر ثانی کےلیے بھی کہا ہے ۔ورلڈ بینک نے پاکستان سے کہا ہے کہ وہ تنخواہ دار اور غیر تنخواہ دار کےلیے ٹیکس سلیب کے فرق میں تخفیف کرے۔ ایک قابل اعتراض سفارش میں ورلڈ بینک نے تمام بنیادی گھریلو آئٹمز جیسے کہ خوردنی تیل، دالوں، جانوروں، پھلوں اور دودھ کی مصنوعات پر ٹیکس لگانے کےلیےہے اور کہا ہے کہ اس سے حکومت کو 100 ارب روپے کی آمدن ہوسکتی ہے۔آئندہ انتخابات وقت پر کرانے کی توقعات کے ساتھ اور اقتصادی اصلاحات کا ایجنڈا آنے والی حکومت کے ساتھ شیئر کرے۔ اخراجات میں تخفیف کے حوالے سے ورلڈ بینک کا کہنا تھا کہ عارضی کفایتی اقدامات کیے جائیں تاہم مرمتوں کیلیے اخراجات جاری رکھے جائیں اورانہیں تحفظ دیاجائے۔ عملے اور آپریشنل لاگت کی ضرورتوں پر عارضی طور پر سخت نظرثانی کی جائے جس سے فوری لاگت کی بچت ہوسکے گی۔ حکومت بار بار ہونے والے اخراجات میں 10 فیصد تخفیف کا ہدف رکھے اور نئی بھرتیوں پر پابندی لگائی جائےوسطی سطح اور بالائی سطح کے افسران کی تنخواہیں منجمد کی جائیں اور اگر کبھی تنخواہ بڑھانا ہی ہو تو صرف نچلے درجے کے ملازمین کی تنخواہیں بڑھائی جائیں۔ لیکن ان اقدامات کا فائدہ اسی وقت ہوگا جب دیگر اقدامات کے ذریعے انہیں مکمل کیاجائے جیسا کہ گاڑیوں کی خریداری اور نمائندگی کےلیے الاؤنس محدود کرنے سفر اور پٹرول کے استعمال کی رعایتیں ختم کی جائیں۔ ساتھ ہی ساتھ حکومت سرکاری ترقیاتی پروگرام پر بھی نظر ثانی جاری رکھے تاکہ اخراجات مین کٹوتی جار ی رہے اور ان تمام پروجیکٹس کو منسوخ کیاجاسکے جن کے حوالے سے موزوں تیاری ، انتخاب یا ترجیح میں کمی تھی۔ماضی میں تصدیق شدہ ایسے پراجیکٹس پر بھی نظر ثانی کی جائے جن میں تاخیر ہوئی اور جن سے غریبوں کو اہم فوائد پہنچنے کا امکان نہیں ۔ اس قسم کی ترقیاتی اخراجات کی کٹوتی سے مستقبل قریب میں 20 فیصدتخفیف ہوسکے گی۔