• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کوڈنگ سیکھنا عالمی تعلیمی نظام کا مرکزی ہدف کیوں ہونا چاہیے؟

اپنے ’’کورس اِن جنرل لینگویسٹک‘‘ میں، سوئٹزرلینڈ سے تعلق رکھنے والے مفکر فرڈی نینڈ ڈی ساسور نے ایک زبان اور اس سے اُبھرنے والی ثقافت کے درمیان متحرک اور علامتی تعلق کے بارے میں بات کی ہے۔ لسانی تعلق کے اس نظریے کو Sapir-Whorf مفروضے میں مزید بیان کیا گیا، جس میں دعویٰ کیا گیا کہ ایک شخص کے نقطہ نظر اور عالمی نظریہ کو اس کے لسانی تعلق کے تناظر میں دیکھا جاسکتا ہے۔

آج ہم میں ایک ایسی دنیا میں کام کررہے ہیں، جہاں اکثر ایسا ہوتا ہے کہ وہ زبانیں جن میں ٹیم کے ارکان سب سے زیادہ روانی سے گفتگو کرتے ہیں اور سب سے زیادہ باقاعدگی سے بات چیت کرتے ہیں وہ بولی نہیں جاتی بلکہ ’کوڈڈ‘ ہوتی ہیں۔ ماہرین کو اب اس خیال سے زیادہ دلچسپی ہے کہ ’سیپیر وھورف‘ مفروضہ پروگرامنگ لینگویجز پر لاگو کیا جا سکتا ہے۔ چاہے یہ Python ہو یا Java، C# یا CSS، پروگرامنگ لینگویجز کی اپنی ثقافتیں، اپنے رویے اور پیش رفت ہوتی ہے، اور اس طرح، یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ ان لوگوں کے ذہنوں کو تشکیل دیتی ہیں جو انہیں استعمال کرتے ہیں۔

ٹیکنالوجی کا کردار

پروگرامنگ لینگویجز آج کے کئی اداروں کی ثقافت کا ایک لازمی حصہ بن چکی ہیں کہ کس طرح کام کرتے ہیں اور وہ کیا پہچان رکھتے ہیں۔ پروگرام لینگویجز مختلف ٹیموں اور فنکشنز میں مختلف ممالک اور پس منظر کے لوگوں کے درمیان ایک پُل فراہم کرتی ہیں، اور ایسے ملازمین کو ایک دوسرے سے جوڑتی ہیں، جن میں بصورتِ دیگر شاید بہت کم مشترکات ہوتے ہیں۔

یہ خیال ایک کارآمد ماڈل فراہم کرتا ہے جس کے بارے میں مالیاتی شعبہ سے آگے وسیع تر ایپلی کیشنز ہو سکتی ہیں۔ ٹیکنالوجی اس کے بنیادی حصے میں دنیا بھر کے لوگوں کو تعاون کرنے اور ترقی کو فروغ دینے کا موقع فراہم کرتے ہوئے، سرحدوں اور ثقافتوں کے درمیان پل بن سکتی ہے۔

اگرچہ بہت سی پروگرامنگ لینگویجز کے لیے انگریزی کی بنیادی سمجھ کی ضرورت ہوتی ہے، لیکن یہ اب بدل رہا ہے۔ 40یا 50 الفاظ کا علم جو کوڈنگ (Coding)کے بنیادی تدریسی لغت کی نمائندگی کرتا ہے، ’’IF‘‘، ’’TRUE‘‘، ’’FALSE‘‘، ’’static‘‘، ’’default‘‘، وغیرہ

‘‘I, “TRUE”, “FALSE”, “static”, “default”، وغیرہ جیسے کوڈنگ میں استعمال ہونے والے بنیادی الفاظ کہیں زیادہ آسانی سے سیکھے جاسکتے ہیں۔ ورلڈ کوانٹ کے چیرمین اور سی ای او Igor Tulchinskyکا اس حوالے سے کہنا ہے، ’’میں جن تکنیکی ماہرین کے ساتھ کام کرتا ہوں ان سے بات کرتے ہوئے، مجھے اندازہ ہوتا ہے کہ ان میں سے بہت سے لوگ ان افعال کو الفاظ کے طور پر بھی نہیں بلکہ ان کی اپنی متعلقہ پروگرامنگ زبانوں میں ایک علامتی عنصر کے طور پر دیکھتے ہیں۔ وہ ایک سسٹم کے اندر کام کرتے ہیں، جن کے اپنے اصول اور اپنی ایک داخلی منطق ہے‘‘۔

مزید برآں،پروگرامنگ لینگویجز میں اب بتدریج دیگر زبانوں کے الفاط بھی شامل ہورہے ہیں، جہاں پہلے صرف انگریزی زبان کے الفاظ استعمال ہوتے تھے۔چینی میں BASIC، عربی میں Qalb، فارسی میں Farsinet، جاپانی میں Dolittle اور چیک میں Karel ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ کوڈنگ تیزی سے گلوبلائز ہو رہی ہے، جو کوڈنگ ٹیلنٹ کی اگلی نسل کی زندگیوں اور ثقافتوں کا عکس ہے۔

’’ڈیویلپر نیشن‘‘ کے ایک سروے کے مطابق، دنیا میں تقریباً 30 ملین پروفیشنل سافٹ ویئر ڈیویلپرز ہیں، جو کہ2013کے بعد سے تقریباً دوگنا ہو چکے ہیں۔ تاہم، یہ اعدادوشمار صرف سطح کے عکاس ہیں۔ الفا سافٹ ویئر کی ایک رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ ہر پیشہ ور سافٹ ویئر ڈیویلپر کے لیے، ایسے شہری ڈیویلپرز کی تعداد چار گنا زیادہ ہے جو شام کو اس وقت کوڈ لکھتے ہیں، جب روزمرہ کی دنیا اپنا اس دن کا کاروبار بند کرچکی ہوتی ہے، یہ وہ لوگ ہیں جو اس طرح روزمرہ کی دنیا سے ایک خوبصورت فرار تلاش کرتے ہیں۔ 

ورلڈ کوائنٹ کے سربراہ مزید بتاتے ہیں، ’’مجھے یاد ہے جب میں پہلی بار 16 سال کی عمر میں کوڈنگ سے متعارف ہوا تھا، ایسا لگتا تھا جیسے میں نے ایک نیا گھر تلاش کرلیا ہو۔ میری پہلی نوکری ایک ویڈیو گیم ڈیزائنر کے طور پر تھی اور میں اس احساس سے محبت کرتا تھا کہ میں ایک ایسے شعبے میں کام کر رہا ہوں جہاں مجھے مکمل خود مختاری اور آزادی حاصل ہے، لیکن جہاں میں ماہرین کی کمیونٹی کا بھی حصہ تھا‘‘۔

پروگرامنگ لینگویجز کا بہاؤ

جس طرح بولی جانے والی زبانیں اپنے ارد گرد کی دنیا کے ارتقاء کی عکاسی کرنے کے لیے تیار ہوتی ہیں، اسی طرح پروگرامنگ زبانیں مسلسل تبدیلی کے تابع رہتی ہیں، جو ٹیکنالوجی میں ہونے والی ترقی کی تیز رفتاری کی عکاسی کرنے کے لیے خود کو اپ ڈیٹ کرتی رہتی ہیں۔ کوڈنگ آج کے جدید دور کی نئی عام زبان ہے۔ 

حالیہ برسوں میں، ٹیک انڈسٹری ہر ایک کو روزانہ ایک گھنٹہ کوڈنگ سیکھنے کے لیے کہہ رہی ہے، جس میں سابق امریکی صدر براک اوباما جیسی اعلیٰ شخصیات بھی شامل ہیں، جنھوں نے ایک بار کہا تھا کہ، ’’اپنے فون پر صرف کھیلیں مت، اسے پروگرام بھی کریں‘‘۔ برطانیہ نے اسکول میں کوڈنگ کی تعلیم کو لازمی قرار دیا ہوا ہے، جب کہ دیگر ممالک بشمول ایسٹونیا، فن لینڈ، اٹلی اور سنگاپور پہلے ہی کلاس روم کی ہدایات میں کوڈنگ کو شامل کر رہے ہیں۔