اسلام آباد (نیوز ڈیسک/نمائندہ جنگ)اسلام آباد ہائیکورٹ نے العزیزیہ ریفرنس کو میرٹ پر سننے کا فیصلہ سناتے ہوئے نیب کی جانب سے کیس احتساب عدالت ریمانڈ بیک کرنے اور ریفرنس کا فیصلہ کالعدم قرار دینے کی استدعا مسترد کردی۔ چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ عامر فاروق نے ریمارکس دیئے کہ ہمارے پاس دو آپشنز ہیں، شواہد منگواکر میرٹ پر فیصلہ کریں یا ریفرنس کو دوبارہ احتساب عدالت بھیج دیں، جسٹس میاں گل حسن نے کہا کہ کیس ریمانڈ بیک کردیتے ہیں تو نواز شریف ملزم تصور ہونگے، سزا یافتہ نہیں، یہاں ویڈیو چلادیں تو یہ دھاری تلوار بھی ثابت ہوسکتی ہے۔عدالت نے کہا کہ جج کا کنڈکٹ اس کیس کے فیصلے کے وقت ٹھیک نہیں تھا، بد دیانت تھا تو اس کے اثرات ہوں گے، ہمیں بتائیں انہیں بطور جج کیوں برطرف کیا گیا تھا؟ چارج کیا تھا؟، العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس میں نواز شریف کی اپیل کی سماعت 12دسمبر تک ملتوی کر دی گئی۔ نمائندہ جنگ کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامرفاروق اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب پر مشتمل ڈویژن بنچ نے العزیزیہ ریفرنس میں سزا کیخلاف سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کی اپیل میں کیس ریمانڈ بیک کرنے کی نیب کی استدعا مسترد کرتے ہوئے ہائی کورٹ میں ہی میرٹ پر دلائل سن کر فیصلہ کرنے کا حکم دیدیا۔ نواز شریف کے وکیل کے دلائل مکمل ہونے پر عدالت نے نیب سے آئندہ سماعت 12 دسمبر کو دلائل طلب کرلئے۔ جمعرات کو سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف اپنی لیگل ٹیم کے ہمراہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیش ہوئے۔ اس موقع پر مریم اورنگزیب، اسحاق ڈار اور دیگر رہنما بھی کمرہ عدالت موجود تھے۔ سماعت شروع ہوئی تو نوازشریف کے وکیل امجد پرویز نے کہا کہ نیب نے سپریم کورٹ کے احکامات پر ریفرنسز دائر کئے جن میں ایک جیسا الزام تھا۔ فلیگ شپ ریفرنس میں احتساب عدالت نے نواز شریف کو بری کر دیا تھا۔ ایک ہی الزام پر الگ الگ ریفرنس دائر کئے گئے۔ ہم نے درخواست دی تھی کہ ایک الزام پر صرف ایک ہی ریفرنس دائر ہونا چاہئے تھا۔ نواز شریف کو دسمبر 2018 میں العزیزیہ ریفرنس میں سزا سنائی گئی۔ فلیگ شپ ریفرنس میں احتساب عدالت کی طرف سے نواز شریف کو بری کیا گیا جبکہ نیب فلیگ شپ ریفرنس میں بریت کیخلاف اپیل بھی واپس لے چکا ہے۔ ایون فیلڈ ریفرنس میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کو اس معزز عدالت نے بری کیا ہے۔ چیف جسٹس عامرفاروق نے استفسار کیا کہ کیا یہ پاناما کیس سے متعلق ہے؟ امجد پرویز ایڈووکیٹ نے کہا جی۔ عدالت نے استفسار کیا کہ اس میں الزام کیا تھا؟ امجد پرویز ایڈووکیٹ نے بتایا کہ آمدن سے زائد اثاثہ جات کا کیس تھا۔ اس موقع پرنیب پراسیکیوٹر نے احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کی ویڈیو کا معاملہ عدالت کے سامنے اٹھاتے ہوئے کہا کہ نواز شریف کے وکلا میرٹ پر دلائل دے رہے ہیں، یہ میرٹس پر بحث کر رہے ہیں، انکی کچھ متفرق درخواستیں بھی ہیں، یا تو یہ اپنی وہ درخواستیں واپس لیں۔ امجد پرویز ایڈووکیٹ نے کہا کہ جی، جج کی ویڈیو کے حوالے سے درخواستیں ہیں۔ اس سے پہلے ان کی سزا سنانے والے احتساب عدالت کے جج سے متعلق ایک درخواست موجود ہے۔ اس کو پہلے دیکھ لیں۔اس موقع پر نواز شریف کے وکیل نے عدالت کو آگاہ کیا کہ جج ویڈیواسیکنڈل سے متعلق اپنی درخواست کی پیروی نہیں کریں گے۔ جج ارشد ملک فوت ہو چکے ہیں ہم اس درخواست کی پیروی نہیں کر رہے۔ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ اگر جج کا کنڈکٹ اس کیس کے فیصلے کے وقت ٹھیک نہیں تھا، بد دیانت تھا تو اس کے اثرات ہوں گے، ہمیں بتائیں ان کو بطور جج کیوں برطرف کیا گیا تھا؟ چارج کیا تھا؟ بیرسٹر اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ میرٹ پر ہمارا کیس پہلے سے بہتر ہے۔ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ کیا آپ اس درخواست کی پیروی کریں گے تو ہم اسے دیکھیں گے۔