دنیا میں بڑھتی آلودگی، کاربن کے اخراج اور ماحولیاتی تبدیلیوں پر قابو پانے کیلئے گزشتہ 30سال سے عالمی سطح پر مذاکرات جاری ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق گلوبل وارمنگ کی وجہ سے کرہ ارض کا درجہ حرارت تیزی سے بڑھ رہا ہے اور 2023 دنیا کا گرم ترین سال رہا جس کی وجہ سے حالیہ کانفرنس میں اضافی کاربن کے اخراج کے جرمانے ’’کاربن کریڈٹ‘‘ پر عملدرآمد پر زور دیا گیا ۔ 2015 میں پیرس کی ماحولیاتی کانفرنس میں اس بات پر اتفاق کیا گیا تھا کہ گلوبل درجہ حرارت 1.5 ڈگری سینٹی گریڈ سے زیادہ بڑھنے نہیں دیا جائے گا لیکن ڈیزل اور فرنس آئل (فوسل فیول) کے استعمال سے گلوبل درجہ حرارت 2.4 سے 2.7 ڈگری سینٹی گریڈ بڑھ رہا ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گو تریس نے 2030 تک فوسل فیول جلانے پر پابندی، گرین ہائوس گیسز کے اخراج میں کمی اور Loss & Damage فنڈز میں 250 ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری پر زور دیا۔ گزشتہ سال مصر کے شہر شرم الشیخ میں کوپ 27 میں پاکستان میں 2022 میں آنے والے سیلاب کی تباہیوں اور گلیشیر پگھلنے سے 30 ارب ڈالرز کے مالی نقصانات کو اس وقت کی وزیر ماحولیات شیری رحمن نے دنیا کے سامنے پیش کیا تھا۔ کوپ 27 میں ترقی پذیر اور غریب ممالک کو گلوبل وارمنگ کی تباہیوں سے نمٹنے اور تعمیر نو کیلئے Loss & Damage فنڈز کا اعلان بھی کیا گیا تھا لیکن کئی ممالک سے مالی امداد کے اعلان کے باوجود مطلوبہ فنڈز حاصل نہیں ہوسکے۔ اس سال بھی کانفرنس کے پہلے دن یورپی یونین نے 245.39 ملین ڈالرز، میزبان ملک یو اے ای نے 100 ملین ڈالرز، جرمنی نے 100 ملین ڈالرز، برطانیہ نے 51 ملین ڈالرز اور جاپان نے 10 ملین ڈالرز دینے کا اعلان کیا ہے جبکہ امریکہ کی نائب صدر کمیلا ہیرس نے ماحولیاتی کانفرنس کے دوسرے دن ترقی پذیر ممالک کیلئے ’’گرین کلائمنٹ فنڈز‘‘ میں 3 ارب ڈالر دینے کا اعلان کیا ہے جو 2014 کے بعد واشنگٹن کی جانب سے پہلی امداد ہے۔
قارئین !کوپ 28 ماحولیاتی کانفرنس کی عالمی اہمیت کی وجہ ڈیزل، فرنس آئل، ایل این جی (فوسل فیول) کے استعمال پر مستقبل میں پابندی عائد کرنا ہے کیونکہ یہ دنیا میں کاربن کےاخراج، آلودگی اور گلوبل وارمنگ کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ ماحولیاتی ماہرین کے مطابق ہمیں گرین گیس کے اخراج پر جلد از جلد قابو پانا ہوگا نہیں تو کرہ ارض کا درجہ حرارت ناقابل برداشت ہوکر تباہ کن ثابت ہوسکتا ہے۔ یہ بیان دنیا کی بڑی بڑی آئل کمپنیوں آرامکو، ایڈناک، شیل اور دیگر تیل سپلائی کرنے والی کمپنیوں کیلئے خطرے کی گھنٹی ہے اور یہی وجہ ہے کہ کانفرنس میں دنیا کو ماحولیاتی آلودگی سے بچانے والے ممالک کے بجائے آئل بزنس کو بچانے والے نمائندے زیادہ متحرک نظر آئے اور اوپیک کے 13 ممالک اپنے آئل بزنس کو بچانے کیلئے دنیا کے ساتھ مل کر گلوبل وارمنگ میں کمی کیلئے اقدامات کرنا چاہتے ہیں۔ نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے کانفرنس میں کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کی حوصلہ شکنی کرتے ہوئے متبادل توانائی یعنی ہوا، سورج اور پانی (ہائیڈرو) سے بجلی پیدا کرنے اور 100 ارب ڈالر کے ’’کلائمنٹ فنانس فنڈز‘‘ کے اجراء پر زور دیا ہے۔ کانفرنس میں امریکہ کے سابق وزیر خارجہ اور امریکی صدر جوبائیڈن کے نمائندہ خصوصی برائے موسمیاتی تبدیلی جان کیری نے کہا کہ سول نیوکلیئر انرجی کی پیداوار کے بغیر ہم 2050 تک کاربن کا اخراج صفر نہیں کرسکتے۔ انہوں نے امریکہ کے 20اتحادی ممالک کو 2050 تک اپنی نیوکلیئر انرجی کی پیداوار 3 گنا بڑھانے کی تجویز دی جس میں برطانیہ، جاپان اور یورپی ممالک شامل ہیں لیکن نیوکلیئر انرجی کی پیداوار حفاظتی اعتبار سے ہمیشہ سے باعث تشویش رہی ہے۔ ماحولیاتی کانفرنس میں 120 ممالک نے 2030 تک متبادل توانائی کو 300 فیصد بڑھانے پر دستخط کئے ہیں جبکہ 50 آئل کمپنیوں نے 2050 تک کاربن فری ہونے کا اعلان کیا ہے جس میں سعودی عرب کی آرامکو اور یو اے ای کی ایڈناک سمیت 29 ممالک کی سرکاری آئل کمپنیاں شامل ہیں۔ کوپ 28 اقوام متحدہ کی 28 ویں سالانہ عالمی ماحولیاتی کانفرنس ہے جس کا مقصد مستقبل میں کرہ ارض کا درجہ حرارت بڑھنے، بارش، سیلاب اور گلیشیر پگھلنے جیسی موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کیلئے حکمت عملی اور ترقی پذیر اور متاثرہ غریب ممالک کیلئے امداد فراہم کرنا ہے۔ گلوبل وارمنگ اس وقت دنیا کا اہم ترین مسئلہ ہے اور اوپیک ممالک اور تیل سپلائی کرنے والی کمپنیوں پر بے انتہا دبائو ہے کہ وہ فوسل فیول،جو کاربن اخراج کا اہم سبب ہے ، کو جلد از جلد بند کریں اور توانائی کے حصول کیلئے دنیا متبادل توانائی کے ذرائع ہوا، پانی، سورج اور نیوکلیئر انرجی پر منتقل ہو جو تیل سپلائی کرنے والی کمپنیوں کے بزنس کیلئے موت ثابت ہوگا ۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس
ایپ رائےدیں00923004647998)