• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یقین کیوں نہیں آتا کہ، خوابِ سفر رُکا ہوا ہے

پاکستان کا خواب دیکھنے والے اقبال کتنے پیار سے کہتے تھے۔

محبت مجھے ان جوانوں سے ہے

ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند

ستارے اور اونچے ہوگئے ہیں۔ وہ اشرافیہ کو کمند ڈالے بغیر بھی مل جاتے ہیں۔ عام نوجوانوں کو نہ تو کمند ملتی ہے اور نہ ہی کوئی کمند پھینکنے کی تربیت دیتا ہے۔

ہم خوش نصیب ہیں کہ ایک ایسے ملک میں پیدا ہوئے ہیں جہاں 24کروڑ کی آبادی میں سے 16ء59فی صد ہم وطن 15سے 64 سال کی عمر کے درمیان ہیں۔ بھرپور توانائی۔ ذہن بھی تازہ دل بھی۔ جسم ہر بوجھ اٹھانے کا اہل۔ دست و بازو محنت مشقت کے لیے بے تاب ۔ اعداد و شُمار نوجوان آبادی کے لیے 62فی صد تک کی شرح دے رہے ہیں۔ بین الاقوامی اداروں کی بھی مستند رائے یہی ہے کہ پاکستان ایک جوان ملک ہے۔ 

مگر ہماری قیادتوں نے چاہے وہ سیاسی ہوں، فوجی ہوں، میڈیا مالکان ہوں، سرمایہ دار، بینک مالکان، جاگیردار، زمیندار، سردار، بیورو کریٹ وغیرہ ۔وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بخشی گئی اس سعادت کی پذیرائی اور اس سے استفادے کے لیے آمادہ ہی نہیں ہیں۔ ملک کی جغرافیائی حیثیت اور نوجوان اکثریت ہمارے انتہائی گرانقدر قدرتی اثاثے ہیں، مگر ہم ناشکروں نے۔ اچھی نیتیں نہیں رکھنے والوں نے، صرف اپنے ذاتی مفادات کا تحفظ کرنے ولوں نے ان اثاثوں کو اپنی کمزوری بنالیا ہے۔ غیر معمولی جغرافیائی حیثیت بھی ہمارے لیے مصیبت بن گئی ہے۔ 

ہماری سرحدوں پر واقع ممالک کے افغانستان، ایران، بھارت سے ہمیشہ ہمیں خطرات لاحق رہتے ہیں۔ بھارت تو ہمارا ازلی دشمن 1947 سے تھا ہی۔ مشرقی سرحد سے ہمیشہ نفرتیں حملہ آور ہوتی رہی ہیں۔ افغانستان سے بھی بلائیں سرحد پار کرکے خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں خصوصاً دوسرے علاقوں میں عموماً آگ لگاتی رہی ہیں۔ نوجوان اکثریت ہے اگر ہم درست منصوبہ بندی کرتے، ان کی تعلیم اورتربیت کا معیاری اہتمام کرتے تو آپ غور کریں کہ 24 کروڑ میں سے کم از کم دس کروڑ ہمارے توانا دست و بازو ہوتے۔ کتنی بڑی پیداواری طاقت۔ کتنے روشن تروتازہ ذہن۔ 

کتنی چمکتی صلاحیتیں۔ آپ کئی قوموں کی رہ گزر پر بیٹھے ہیں، پھر آپ کی اکثریت جوان ہے، توانا ہے، تعلیم یافتہ ہے، مختلف شعبوں کے لیے تربیت یافتہ، کتنے کروڑ ہُنر مند بعض رپورٹیں کہتی ہیں کہ پاکستان میں ہر سال 40 لاکھ مزید نوجوان کام کرنے کی عمر کے ہوجاتے ہیں۔ یعنی آپ کے ہاں ہر سال 80لاکھ مزید بازو بوجھ اٹھانے کے لیے عطا ہوجاتے ہیں۔ کیا ہم اس عمر تک پہنچنے کے دوران ان کی ضروری تعلیم، مطلوبہ تربیت کا اہتمام کرتے ہیں؟ نہیں ناں۔

ہمارے حکمراں، ہماری فوجی ،سیاسی جماعتیں، ہماری ریاست اگر اپنے اس قدرتی اثاثے کی تراش خراش اپنے ملک کی ضروریات اور اکیسویں صدی کے عالمی تقاضوں کے مطابق کررہے ہوں ۔انہیں اپنی دس ہزار سالہ، آٹھ ہزار سالہ قابل فخر ثقافتی تاریخ سے با خبر کیا گیا ہو، انہیں تدبر دیا گیا ہو کہ وہ کس گردوں کا ٹوٹا ہوا تارا ہیں، کبھی انہیں باور کروایا ہو کہ تمیں اس قوم نے آغوش محبت میں پالا تھا، جس نے دارا، قیصر و کسریٰ کے تاج پائوں میں کچل ڈالے تھے، جس نے کسی آئی ایم ایف کے دروازے پر دستک دی نہ عالمی بینک کے آگے کشکول بڑھایا۔ 

ہمارے پرکھے۔ جہاں گیر و جہاں دار و جہاں بانی۔ جہاں آرا تھے۔ ہمیں تاریخ سے بھی دور کردیا گیا۔ جغرافیہ بھی ہم پر تنگ کردیا گیا۔ پیداواری وسائل پر چند خاندان قابض ہوکر بیٹھ گئے ہیں۔ دولت کی تقسیم مساوی نہیں ہورہی ہے۔ 7 کرڑ سے کچھ زیادہ غربت کی لائن کے نیچے چلے گئے ہیں۔ یعنی یہ تعداد وہ ہے جن کی آمدنی تین ہزار روپے مہینے بھی نہیں ہے۔ گویا ہمیں اوج ثریا سے زمین پر دے مارا ہے۔

کیا آپ تصور کرسکتے ہیں کہ انتہائی زرخیز اراضی رکھنے والے ملک میں کئی دریائوں کے میٹھے پانیوں کے باوجود ہر قسم کا موسم ہر وقت حاصل ہوتے ہوئے۔ کئی کروڑ توانا بازوئوں کے ہوتے ہوئے 7کروڑ کی ماہانہ آمدنی 3ہزار روپے سے کیسے کم ہوسکتی ہے۔ یہ صرف اور صرف ذاتی مفادات کے قومی مفادات پر غلبے کے باعث ہے۔ یہ صرف اور صرف ترجیحات کے غلط تعین کا نتیجہ ہے۔ یہ صرف اور صرف ریاست کی صحیح منصوبہ بندی نہ کرنے کا شاخسانہ ہے۔ یہ صرف اور صرف میرٹ کی ہلاکت کا حاصل ہے، اس لیے اثاثے بوجھ بن رہے ہیں۔

2023 ۔ ہر نوجوان کے لیے پُر آشوب تھا۔ جوان عمر پاکستانیوں کی آرزوئیں دم توڑتی رہیں تمنّائیں کھلے سربازاروں میں پھرتی رہیں۔ مائوں کی منتیں، باپ دادا کی مرادیں موٹر سائیکلوں پر حادثات کا نشانہ بنتی رہیں۔ ہم بڑے شہروں میں نوجوانوں کو محفوظ پبلک ٹرانسپورٹ فراہم نہ کرسکے۔ کراچی سب سے بڑی تجارتی، صنعتی اور سب سے زیادہ آبادی والے شہر میں ’’ماس ٹرانزٹ پروگرام‘ نہ دے سکے۔ 

نوجوان کو مجبوراً موٹر سائیکل جیسی غیر محفوظ سواری کا سہارا لینا پڑا اور وہ شہروں میں بے ہنگم ٹریفک کے باعث اپنی جان سے گزر گئے۔ بڑے شہروں خاص طور پر کراچی میں گلی کوچوں کے جرائم کے منظر نامے میں 2023میں مرنے والے بھی زیادہ تر نوجوان تھے اور مارنے والے بھی۔ کیا ارباب اختیار میں سے کوئی غور کرتا ہے کہ نوجوان جو ہمارا اثاثہ ہیں یہ اپنا پیٹ پالنے کے لیے ڈکیتیوں پر کیوں مجبور ہوتے ہیں؟ کون سی طاقتیں انہیں اپنے اس جال میں پھنسا لیتی ہیں؟ یہ نوجوان قاتل کیوں بن رہے ہیں؟ ان کی صلاحیتوں سے گینگ کیوں فائدہ اٹھارہے ہیں؟ حکومتیں ان کی صلاحیتوں کو کسی قابل کیوں نہیں سمجھتیں ۔اس طرح مائوں کی گودیں تو اجڑتی ہی ہیں۔ بہنیں اپنے بھائیوں سے محروم ہوتی ہی ہیں، مگر ریاست بھی ہر مہینے اپنے کئی درجن کڑیل بازو کھوکرکمزور ہوجاتی ہے۔

ریاست، حکمران طبقوں کی بے حسی اپنی جگہ، مگر ایک جمہوری نظام میں سب سے زیادہ ذمہ داری تو قومی سیاسی جماعتوں کی ہوتی ہے۔ ہر جماعت نے نام نہاد یوتھ ونگ بنائے ہوئے ہیں۔ لیکن اپنے طور پر کوئی بھی کسی تربیت کا اہتمام نہیں کرتی، انہیں اپنے نعرے لگانے والے چاہئیں۔ لیڈروں کی گاڑیوں پر پھول پھینکنے والے درکار ہیں۔ یہ جماعتیں نوجوانوں کو اپنے لیے اثاثہ نہیں سمجھتی ہیں۔ میں تو یہ بھی زور دیتا رہا ہوں کہ قومی سیاسی جماعتوں کو اپنے نوجوان کارکن، تربیت کے لیے چین بھیجنے چاہئیں۔ 

پارلیمانی نظام سے آگاہی کے لیے برطانیہ وفد روانہ کرنے چاہئیں۔ بہتر سیاسی شعور کے لیے یورپی ملکوں میں اعلیٰ تعلیم کے لیے داخلہ دلوائیں۔ان امور میں اقوام متحدہ بھی مالی معاونت کرتی ہے۔ کئی جمہوری ریاستیں اپنے طور پر بھی دعوت دیتی ہیں، وہاں جاگیردار سردار ، بیورو کریٹ۔ فوجی افسر اپنے بھانجوں بھتیجوں کو بھیج دیتے ہیں، انہیں کچھ سیکھنے کا شوق نہیں ہوتا وہ اسی طرح واپس آجاتے ہیں۔

خرعیسیٰ اگر بمکہ رود

چوں بیاید ہنوز خر باشد

1972 میں شہید ذوالفقار علی بھٹو نے پاسپورٹ کا اجرا عام کیا۔ خلیجی ریاستوں میں نوجوانوں کے لیے ملازمتوں کے معاہدے بھی ہوئے اور اس دَور میں یہ کوشش بھی کی گئی کہ نوجوانوں کی تربیت کے لیے ادارے جگہ جگہ قائم کیے جائیں لیکن 1977میں جمہوری حکومت کا تختہ الٹے جانے کے بعد نوجوانوں کی تربیت کے سارے انتظام ہوا ہوگئے۔ ووکیشنل ٹریننگ کے لیے جو مشینیں منگوائی گئی تھیں۔ زنگ کی نذر ہوگئیں۔ اس دوران بھی مارشل لاء کی سختیوں سے تنگ آکر نوجوان ترک وطن کرتے رہے ہیں۔

1985کے بعد جتنی حکومتیں آئیں۔ سب نے کسی نہ کسی عنوان ’نوجوان پروگرام‘ کے لیے محکمے قائم کیے۔ اقوام متحدہ سے ٹیکنیکل اور مالی امداد بھی میسر آتی رہی۔ لیکن یہ اہتمام کسی نیک نیت سے نہیں ہوئے، نہ ہی میرٹ پر ہوئے۔

Youth Empowerment Program کے بڑے خوش نما اعلانات ہوئے، چاہے وہ شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت رہی ہو یا میاں نواز شریف کی یا جنرل پرویز مشرف کی اور پھر زرداری اور میاں صاحب کی باریاں۔ پھر 3½سال نوجوانوں کی آنکھ کے تارے عمران خان کے’ ’کامیاب نوجوان پروگرام‘‘۔ والینٹیرز پروگرام، وزیر اعظم نوجوان پروگرام، نام بدلتے رہے۔ نوجوانوں کی جوانی، شباب، توانائی ضائع ہوتے رہے۔ 

ڈالر ملک میں آتے رہے۔ اور منظور نظر افراد کی جیبوں میں جاتے رہے۔لیکن نوجوانوں کی بے روزگاری کے اعداد و شُمار میں اضافہ ہوتا رہا۔ پرائمری تعلیم کے بعد اسکولوں میں نوجوانوں کی تعداد کم ہوتی رہی۔ گلی کوچے شہروں کے ہوں یا دیہات کے۔ بے روزگار نوجوانوں کی بھیڑ بڑھتی رہی۔ گزشتہ نصف صدی میں خاص طور پر ملک کی پالیسی سازی میں کتنے کروڑ نوجوانوں کو کوئی موقع نہیں دیا گیا۔ ان سے کوئی مشورہ لیتا نہ انہیں تعلیم و تربیت کے بعد ایسی مسندوں پر فائز کیا جاتا تھا۔

ایک ’نیشنل یوتھ کونسل کا‘ قیام عمل میں لایا گیا۔ جس کے لیے کہا گیا کہ اس میں 15سے 29 سال کے افراد، مرد، خواتین، معذور، خواجہ سرا، تمام اقلیتیں شامل ہیں۔ یہ امور نوجواناں سے متعلق صوبائی یوتھ پالیسیوں میں معاونت کریں گے۔

مشن بہ ظاہر کہا گیا۔

We empower young people to influence and inform to decision that affect their lives. We support young people to get involved in the community and democracy locally, nationally and internationally making a difference as volunteers, campaigners decision makers and leaders

کتنے خوش نماالفاظ ہیں کہ ہم نوجوانوں کو یہ طاقت دیں گے کہ وہ اپنی زندگی پر اثر انداز ہونے والے فیصلوں میں شرکت کرسکیں۔ باخبر رہ سکیں۔ ہم نوجوانوں کو اس قابل بنائیں گے کہ وہ مقامی۔ قومی اور بین الاقوامی سطح پر اپنی کمیونٹی اور جمہوریت میں رضاکاروں ۔ مختلف مہمیں چلانے والوں۔ فیصلہ کرنے والے اور لیڈروں کی حیثیت سے بھرپور شمولیت کریں۔

یہ بھی دعویٰ کیا گیا کہ بالاآخر ہم ایسی دنیا کی تخلیق کرنا چاہتے ہیں، جہاں نوجوانوں کا احترام ہو، وقارہو، نوجوان اپنی یکجہتی، ہنر مندی سے پاکستان اور دنیا کے دوسرے ملکوں میں ربط و ضبط قائم کریں۔مراحل یہ بتائے گئے۔ 1۔ شرکت۔ 2۔ شمولیت۔ 3۔ برابری۔4۔نوجوان قیادت۔5۔نوجوانوں کی خدمات کا اعتراف۔

ہر حکومت کے دَور میں یوتھ نمائندہ کسی کھلاڑی کو بنایا گیا، کسی اداکارہ یاگلوکارہ کو ۔ کسی عالم کو کسی استاد کو، کسی ادیب شاعر یا صحافی کو نوجوانوں کی نمائندگی کے قابل نہیں خیال کیا گیا۔ نوجوانوں کی تربیت۔ ہیروں کی تراش خراش کو دکھاوا بنادیا گیا۔

المیہ یہ ہے کہ نوجوان ہوں یا بزرگ ہوں، حکومتوں پر اعتبار نہیں کرتے اور اب جب میں یہ سطور لکھ رہا ہوں تو انتہائی تشویشناک مقام ہے کہ نوجوانوں کا ریاست سے بھی بھروسہ اٹھ گیا ہے۔ اس لیے وہ بڑی تعداد میں ایسے پروگراموں میں کسی یقین کے ساتھ شریک نہیں ہوتے ۔ یہاں بھی میرٹ کا قتل عام ہوتا ہے۔ غریب آبادیوں کے نوجوانوں کے لیے دروازے نہیں کھلتے ہیں۔ ڈومیسائل کی پابندیاں بھی راستے روکتی ہیں۔

اگر سنجیدگی سے جائزہ لیا جائے تو یہ پروگرام نوجوان کو مزید نا امید کرتے ہیں۔ ایسے پروگرام کے لیے بجٹ عام طور پر 30ملین ڈالر سے اوپر ہی رکھا جاتا ہے۔ امیر ممالک کی طرف سے اپنا اپنا مالی حصّہ ڈالا جاتا ہے۔اقوام متحدہ اور ان ممالک کو بھی ہمیشہ یہ شکایت رہتی ہے کہ پاکستان میں امدادی فنڈز کا بجا طور پر استعمال نہیں ہوتا ہے۔ ان کا گلہ بہت مناسب ہے۔ آج 2023 میں جب ہم اپنے نوجوانوں کو جن سنگین مسائل سے دوچار دیکھتے ہیں اس بدحالی سے بھی ان ممالک کا شکوہ سچ ثابت ہوتا ہے۔

ویسے تو ہر سال ہی نوجوان بڑی تعداد میں اپنی جنم بھومی، اپنا وطن، اپنے والدین اپنے پیاروں کو چھوڑ کر جاتے رہتے ہیں۔ لیکن اپریل 2022 میں تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں جو حکمران لائے گئے۔ 38 سال سے باری باری حکومت کرنے والے علاقائی جماعتوں کے ساتھ پی ڈی ایم حکومت بناکر بر سر اقتدار آئے، ان کے دَور میں جو معاشی بد حالی آئی اور جس طرح انہوں نے اپنے خلاف مقدمات کو ختم کروایا، جس سے عدلیہ کی بھی بدنامی ہوئی اور غیر سیاسی قوتوں کی بھی، اس کے نتیجے میں ملک کی معیشت کا جو حال ہوا، اس سے بےروزگاری میں اضافہ ہوا۔ افراط زر کی شرح اتنی زیادہ کبھی نہیں ہوئی تھی۔پاکستانی روپے کی قدر بھی گری اور پاکستانی نوجوانوں کی بھی۔

بار بار یہ خبریں اخبارات میں بھی آرہی ہیں۔ ٹی وی چینل پر بھی اور سوشل میڈیا میں بھی۔ مصدقہ اور مستند ذرائع کے مطابق 2023 کے پہلے چھ مہینوں میں 8لاکھ نوجوان ملک چھوڑ کر چلے گئے۔ اور قابل تشویش امر یہ ہے کہ ان تارکین وطن میں ایک لاکھ کے قریب بہت زیادہ تربیت یافتہ پیشہ ور تھے۔ جن میں ڈاکٹز، نرسیں، انجینئر، آئی ٹی ماہرین اور اکائونٹنٹ بھی شامل تھے۔ ایک ویب سائٹ نے ان پیشہ وروں کی نوعیت یوں بیان کی ہے۔

انجینئرز۔5534

ایسوسی ایٹ الیکٹریکل۔18000

ڈاکٹر۔2500

کمپیوٹر ماہرین۔2000

اکائونٹنٹ۔6500

زرعی ماہرین۔2600

سپر وائزرز۔13000

منیجرز۔16000

نرسیں۔1600

ٹیکنیشنز۔21517

پینٹرز۔8500

آرٹسٹ۔783

ڈیزائنر۔500

ڈرائیورز۔213000

مزدور۔328000

دیکھئے کیسے کیسے ہنر مند دوسرے معاشروں میں خدمات انجام دینے جارہے ہیں۔ 7لاکھ زیادہ تر خلیجی ریاستوں میں گئے ہیں۔ 20 ہزار کے قریب یورپی اور ایشیائی ملکوں میں۔ پاکستان ہُنر مندوں سے خالی ہورہا ہے۔

یہ بھی سوچیں کہ یہ خبریں مسلسل شائع ہورہی ہیں۔ 8لاکھ کی تعداد تو 2003 کی پہلی ششماہی کی تھی۔ دوسری ششماہی کی تعداد بھی اس کے آس پاس ہی ہوگی۔ جس ملک میں ویسے ہی ہنر مندوں تربیت یافتہ نوجوانوں کی کمی ہو۔ ان میں سے بھی اتنی بڑی تعداد ملک کی تعمیر میں دستیاب نہ ہو، اسے ’ذہن کا انخلا‘ کیا جائے یا ذہانت کا فرار پاکستان کے مستقبل کے لیے بہت خطر انگیز ہے۔ 

ہمارا مستقبل ہمیں بد حال چھوڑ کر اپنا آئندہ کسی اور ملک کو بنارہے ہیں۔ یہ کہا جاتا ہے کہ یہ نوجوان باہر جاکر بر سر روزگار ہوکر پیسہ ملک میں بھیجیں گے۔ اس سے ہمارا معاشی ڈھانچہ بہتر ہوگا مگر یہ تو بہت ہی کم حصّہ ہوگا۔ اگر ان تربیت یافتہ نوجوانوں کی صلاحیتوں سے ملک میں ہی کام لیاجائے تو پاکستان زیادہ مستحکم ہوسکتا ہے۔

ایک اور بد نصیبی یہ ہے کہ بنیادی طور پر زرعی ملک میں زراعت کے شعبے کو بہت زیادہ نظر انداز کیا جارہا ہے۔ فی ایکڑ پیداوار کم ہورہی ہے۔ ایک زرعی ملک میں اگر گندم، چینی، سبزیاں، ٹماٹر، پیاز بھی درآمد کرنا پڑے اور یہ بنیادی ضرورت کی چیزیں ایک زرعی ملک میں بھی اگر نایاب اور بہت زیادہ مہنگی ہوجائیں تو یہ ہمارے مختلف ادوار کے حکمرانوں پالیسی سازوں، بیورو کریٹوں کی نا اہلی تو ہے ہی ، مگر اس میں اس عنصر کو فرامو ش نہ کریں کہ ہم اگر اپنے نوجوانوں کے لیے زرعی تعلیم اور تربیت کا انتظام کرتے تو وہ فی ایکڑ پیداوار بھی بڑھاسکتے تھے۔ یہ بنیادی ضرورت کی اشیا نایاب ہوتیں نہ مہنگی۔

ملک میں زراعت کے ساتھ ساتھ صنعت اور مینو فیکچرنگ کی طرف بھی توجہ نہیں دی گئی۔ کارخانے گراکر بڑے بڑے شاپنگ مال قائم کردیے گئے ہیں، جہاں دنیا بھر کی مصنوعات فروخت کی جارہی ہیں۔ نوجوان اب نہ انجینئر ہیں نہ سپروائزر، نہ ٹیچرز، وہ صرف سیلز پرسن بن کر رہ گئے ہیں۔ نوجوانوں کی صلاحیتوں کا گلا گھونٹا جارہا ہے ایک اور افسوسناک امر یہ ہے کہ مہنگی مہنگی فیس ادا کرکے نوجوان لڑکے لڑکیاں ڈاکٹر، انجینئر بنتے ہیں۔ اوّل تو انہیںملازمت ملتی نہیں، ملتی ہے تو اجرت یا تنخواہ بہت کم ہوتی ہے، جس سے تعلیم کے لیے ، لیے گئے قرض کی ادائیگی بھی نہیں ہوتی۔

ملک کے متمول خاندانوں نے اپنا سرمایہ، رئیل اسٹیٹ، اراضی کی خرید وفروخت میں لگایا ہوا ہے۔ یہ شعبہ بزنس تو اربوں روپے کا کررہا ہے، مگر یہاں کارکنوں کی ضرورت زیادہ نہیں ہوتی ہے۔ زیادہ ملازمتوں کے مواقع نہیں ہیں۔ جتنا سرمایہ یہاں اٹکا ہوا ہے، وہ اگر کسی مینو فیکچرنگ میں لگتا تو کتنے نوجوانوں کو ملازمت مل سکتی تھی، اس پر بھی غور کرنا چاہئے کہ ہم ایک صنعتی و زرعی ملک کی بجائے ایک تجارتی مارکیٹ بنتے جارہے ہیں۔ حالانکہ اتنی نوجواں آبادی والے ملک میں تو پیداواری مصروفیات زیادہ ہونی چاہئے۔

مختلف دستاویزات پاکستان نوجوانوں کے مسائل کی نشاندہی کررہی ہیں۔ ان کے مطابق سرفہرست مسائل یہ ہیں۔

1۔بے روزگاری

2۔ کم شرح خواندگی

3۔غربت

4۔ صحت

5۔صنفی نا برابری

6۔سیاسی عدم استحکام

7۔ منشیات کی لت۔ شراب۔ چرس۔ آئس

8۔ٹیکنالوجی تک کم رسائی

9۔ مایوسی۔

10۔مافیاز کا دبائو

11۔جنسی ناآسودگی

بے روزگاری مایوسی اور بیزاری میں تیزی سے اضافہ کرتی ہے، پھر ملک میں جو ماحول ہے اس میں اب بھی 1۔ جاگیرداری غالب ہے۔2۔ سرمایہ دارانہ استحصالی مزاج۔3۔ سرداری نطام جس میں انسان کی ذلّت کے پورے مناظر ہیں۔4۔ شہری مافیا۔ 5۔ رشوت سفارش۔6 ۔ جمہوری فریب۔ 7۔ منافقت۔ 8۔جھوٹ۔9۔مصلحت۔ 10۔زیادتیوں۔ قانون شکنی پر چشم پوشی ۔عام ملازمتیں تو زیادہ تر ٹھیکے پر مل رہی ہیں ۔ کوئی مراعات نہ صحت کی فکر۔ نہ نقل و حرکت کی۔

یہ صورت حال بیسویں صدی میں بھی تھی۔ اکیسویں صدی میں سوشل میڈیا کی آمد نے نوجوان کی ذات۔ صلاحیت کو کچلنے کے مزید سامان فراہم کردیے ہیں۔ سوشل میڈیا پر پاکستانی نوجوان ترقی یافتہ خوشحال ممالک کے نوجوانوں کا معیار زندگی اور مصروفیات دیکھتے ہیں تو وہ مزید پریشان ہوجاتے ہیں۔ نوجوانوں میں خودکشی کے رجحانات بھی بڑھ رہے ہیں۔2023 میں سوشل میڈیا کے استعمال کا رجحان بڑھ گیا ہے۔ پاکستان میں سوشل میڈیا استعمال کرنے والے اب 7 کروڑ سے زیادہ ہیں۔ ان میں زیادہ تر نوجوان ہیں۔

ترقی یافتہ ملکوں میں تو خیال رکھا جاتا ہے کہ کس کا اسکرین ٹائم کتنا ہے۔ کس عمر کے لوگ کتنا وقت اسکرین کے سامنے رہتے ہیں۔پاکستان میں نوجوانوں کی دلچسپی کے مقامات بہت کم ہیں۔ امیر لوگ اور ان کے نوجوان تو مختلف پرائیویٹ کلبوں میں سماجی میل جول کرلیتے ہیں۔ اپنا وقت گزار لیتے ہیںمگر متوسط طبقے اور غریب آبادی کے لیے نہ تو کمیونٹی مراکز ہیں، نہ پہلے والے عوامی سنیما ہیں، نہ ہی پہلے کی طرح کوئی کھیل مقابلے ہوتے ہیں۔ مقامی میلوں کی تعداد بھی کم ہوتی جارہی ہے۔ 

اس لیے بھی نوجوان لڑکے لڑکیاں سوشل میڈیا میں زیادہ الجھے رہتے ہیں۔ عریانی پرمبنی جنسی وڈیوز کا رواج بھی بہت زیادہ ہوگیا ہے۔ منشیات کا استعمال خوفناک طریقے سے بڑھ رہا ہے۔ کتنے دہشت انگیز اعداد و شُمار ہیں۔ آبادی کا چھ فی صد اور زیادہ تر نوجوان مختلف قسم کی منشیات کےعادی ہوگئے ہیں، جس میں 9فی صد بالغ مرد ہیں اور 9ء2فی صد بالغ خواتین ۔ یہ تعداد محتاط اندازے سے 67لاکھ ہی رہی ہے۔ چرس، ہیروئن، الکحل اور اس قسم کی دوسری نشہ آور اشیا۔ خواب آور دوائوں کا استعمال بھی بڑھا۔ انجکشن لگواکر بھی راحت حاصل کی گئی۔ اسکولوں کالجوں میں منشیات فراہم کی جارہی ہیں۔ بعض اداروں میں خود انتظامیہ بھی اس دھندے میں ملوث ہے۔

سوشل میڈیا سے نوجوانوں کی انتظامی صلاحیتیں بہت زیادہ متاثر ہورہی ہیں۔ ہماری قدریں اور روایات تباہ ہورہی ہیں۔ والدین کو بہت زیادہ الرٹ رہنا ہوگا۔ میں تو اپنے کالم ’’مملکت اے مملکت‘‘ میں زور دیتا ہوں کہ اتوار دوپہر کا کھانا اپنے بیٹوں بیٹیوں، پوتوں پوتیوں نواسوں نواسیوں بہوئوں اور دامادوں کے ساتھ گزاریں۔ کھل کر باتیں کریں۔ ان کے ذہنوں میں تڑپتے سوالات کے جوابات دیں۔ اسکول کے بارے میں پوچھیں۔ کالج یونیورسٹی میں کیا گپ شپ ہوتی ہے۔ اگر کہیں پکنک پر جارہے ہیں تو وہاں کی تفصیلات مانگیں۔ اولاد کی صحت اگر متاثر ہوتی دکھائی دے تو فوراً اسے ڈاکٹر کو دکھائیں۔

معاشرہ اپنی سمت کھوچکا ہے۔ ہر قسم کا ذہنی انتشار برپا ہے۔ اسکول مالکان۔ کالج یونیورسٹی مالکان کو صرف پیسے کمانے سے غرض ہے۔ نوجوانوں کی کردار سازی سے نہیں۔ ان میں غلط رجحانات یا تو خود پیدا کیے جارہے ہیں۔ یا ان سے چشم پوشی کی جاتی ہے۔

وہاں بھی اس قسم کے مباحث ہورہے ہیں۔ لیکچر دیے جاتے ہیں۔ جن سے نوجوان جنسی امور پر بھی باتیں کرتے ہیں۔ سوشل میڈیا اس میں معاونت کررہا ہے اس میں یقینا بیداری اور آگاہی بھی ہے۔ لیکن ذہنی بیماری بھی ہے۔ مختلف تہذیبی مناظر دیکھنے میں آتے ہیں۔ اپنی معاشرت سے تصادم بھی ہے۔ وڈیو گیمز تشدد اور جارحیت کی طرف راغب کرتی ہیں۔

2023 میں نوجوانوں کے ذہنی جسمانی اور جنسی مسائل میں اضافہ ہوا ہے۔ اقتصادی سیاسی سماجی بحران اپنی جگہ مگر اخلاقی بحران نے نوجوانوں کو زیادہ متاثر کیا ہے۔ بدزبانی عروج پررہی۔

آبادی کا یہ 60 فی صد نوجوان ہمارا مستقبل بھی ہے۔ اس لیے اس کے لیے بالکل الگ مستقل وزارت کی تخصیص ناگزیر ہے۔ دوسرے ملکوں میں تو اگرچہ تمام سرکاری محکمے ہی بہت ذمہ دار اور مستعد رہتے ہیں۔ نوجوانوں کی عادات، حرکات و سکنات کی مانیٹرنگ بھی کی جاتی ہے۔ ان کے ذہنی رجحانات کی روشنی میں ان کو پیشہ ورانہ مواقع بھی فراہم کیے جاتے ہیں۔ ہمارے ہاں نوجوانوں سے متعلقہ وزارت پر خصوصی توجہ دی جانی چاہئے۔

8 فروری 2024 کو عام انتخابات ہونے والے ہیں۔ نوجوانوں کو نعروں، جلسوں جلوسوں کے لیے تو استعمال کیا جاتا ہے۔ قومی سیاسی جماعتوں نے ابھی تک اپنے منشور شائع نہیں کیے ہیں ان کی وطن ودستی اور مستقبل کے لیے فکر مندی کا امتحان ان کی ’نوجوان پالیسی‘ ہوگا۔ ملک میں اس وقت کل ووٹرز 12 کروڑ 75 لاکھ 27 ہزار بتائے جارہے ہیں۔ ان میں سے ساڑھے پانچ کروڑ ووٹرز نوجوان ہیں۔

اس سے اندازہ کرلیں کہ نوجوان ووٹروں کی اس الیکشن میں کتنی حساس اور فیصلہ کن اہمیت ہوگی۔ اس لیے ان کی تعلیم اور تربیت کتنی ضروری ہے۔

اللہ تعالیٰ نے ہمیں نوجوان آبادی سے نوازا ہے۔ یعنی ہمیں مستحکم مستقبل کے لیے ٹھوس بنیاد فراہم کی ہے۔ نوجوانوں کی تعلیم تربیت۔ ہُنر مندی در اصل اپنے مستحکم مستقبل کی تعمیر و تشکیل ہے۔ اقبال کے شعر سے ہی بات شروع کی تھی۔ اقبال کے اشعار پر ہی بات ختم کریں گے۔

نہیں نا امید اقبال اپنی کشتِ ویراں سے

ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی

۔۔۔

پرانی سیاست گری خوار ہے

زمیں میر و سلطاں سے بیزار ہے

۔۔۔

خرد کو غلامی سے آزادکر

جوانوں کو پیروں کا استاد کر