• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

1965ء سے 1980ء تک پیدا ہونے والی جنریشن ایکس وہ نسل ہے، جو سائنس و ٹیکنالوجی کی ترقی کو قبول کرتے ہوئے ہر نئی ایجاد کے ساتھ خود کو ہم آہنگ کر کے اپنی زندگی میں اس کا بھرپور انداز میں استعمال کررہی ہے۔ ایک بڑے کمپیوٹر سے لے کر ہر گیجیٹ کو اپنی زندگی کا حصہ بنالیا۔ 

ٹیکنالوجی کی اس پیش رفت میں یہ نسل بھرپور طور پر اس کے قدم سے قدم ملا کر آگے بڑھ رہی ہے۔ جنریشن زی کو دنیا کے مختلف حصوں  میں انقلاب لاتے بھی دیکھا جا رہا ہے، یہ احساس بھی ان میں پروان چڑھ رہا ہے کہ توانائی سے بھرپور نسل کی سمت زیادہ تر درست نہیں ہے، اس سوچ کے پیچھے دنیا کے مختلف خطوں میں جنریشن زی کے کئے گئے احتجاج اور اس کے نتیجے میں حاصل نتائج بھی ہیں۔

2025ء میں جنریشن زی نے کیا کچھ کارہائے نمایاں انجام دیئے۔ آئیے اس کا مختصرا جائزہ لیتے ہیں۔

یہ ایک ایسی نسل ہے، جس نے مروجہ سیاست اور سماجی ربط ضبط سے ہٹ کر اپنا ایک نیا رنگ دنیا کو دکھایا ہے، 2024ء میں بنگلہ دیش میں حکومت کے خلاف احتجاج سے اپنی پہچان بنانے والی اس نسل سے دنیا کے دیگر ممالک کے نوجوان بھی متاثر ہوئے اور کئی ممالک میں اس نسل کے احتجاج صرف معاشی یا سماجی مطالبات پر نہیں بلکہ حکومتوں، سیاسی نظام، شفافیت اور مستقبل کی اُمیدوں پر مرکوز رہے، احتجاج کی قیادت اپنے ہاتھوں میں لی۔ احتجاج سے جن ممالک میں جو خاطر خواہ تبدیلیاں لائیں، ان میں مڈغاسکر، مراکش، نیپال، پیرو اور انڈونیشیا شامل ہیں۔ 

ان ممالک میں اس نسل کی تحریکوں کے عوامل ایک دوسرے سے مختلف ضرور ہیں، تاہم سڑکوں پرنوجوان نسل ہی آگے رہی،جو وجوہات ان تحاریک کا باعث بنیں، ان میں معاشی اور سماجی عدم مساوات، حکمران طبقے میں شفافیت و احتساب کا فقدان اور سیاسی نظام میں نوجوانوں کی عدم شمولیت جیسے مسائل شامل ہیں جبکہ ان مسائل پر احتجاج میں جس چیز کو باہم مربوط اور منظم کیا وہ نوجوانوں میں ٹیکنالوجی اور ڈیجیٹل آگہی کا فروغ ہے، جس کے بل پر یہ تحاریک منظم ہوئیں اور سدباب کیلئے حکومتوں کو سوشل میڈیا میں خلل ڈالنے اور ان کے باہم ربط کو توڑنے کیلئے انٹرنیٹ نیٹ ورک کی بندش جیسے اقدام اٹھانا پڑے، تاہم مختلف ممالک میں جنریشن زی کے احتجاج سے جو کچھ حاصل ہوا، وہ اس نسل کی صلاحیتوں کے مقابلے میں کم ہے، اس کی بڑی وجہ احتجاج میں منصوبہ بندی کا فقدان قرار دیا جاسکتا ہے، جس کی بناء پر اب بھی جنریشن زی کا ان ممالک میں اپنے مطالبات کے حصول کیلئے انتظار باقی ہے۔

پاکستان میں جنریشن زی کی سیاسی شرکت کا انحصار روایتی میڈیا کے بجائے ڈیجیٹل پلیٹ فارمز، خاص طور پر ٹک ٹاک، ایکس (سابقہ ٹویٹر) انسٹاگرام، یوٹیوب، فیس بک پر بڑھ رہا ہے۔ یہ نسل تیز رفتار معلومات، جذباتی اپیل رکھنے والی ویڈیوز اور وائرل نقطہ ہائے نظر کی بنیاد پر سیاسی رائے قائم کرتی ہے۔

نتیجتاً فیک نیوز اور پروپیگنڈا کے اثرات احتجاجی رحجانات پر پہلے سے کہیں زیادہ نمایاں ہو چکے ہیں۔ 2025ء میں مختلف ممالک میں جن مطالبات پرجنریشن زی احتجاج کیلئے نکلی وہ انتہائی اہم اور بنیادی نوعیت کے تھے، جیسے مراکش میں تحریک کی بنیادی وجہ نوجوانوں کاحکومت کی جانب سے تعلیم و صحت کے شعبے کو نظر انداز کرنا تھا، جب کہ مڈغاسکر میں بجلی اور پانی کی مسلسل بندش نے نوجوانوں کو برافروختہ کیا، نیز سیاسی نظام پر مراعات یافتہ طبقے کے تسلط نےانہیں احتجاج پر مجبور کیا۔

اس نسل نے اپنی تحاریک کو آن لائن سوشل میڈیا فورمز پر مربوط کیا، یہ پلیٹ فارمز ان کے احتجاج کو موثر طور پر مربوط کرنے میں کلیدی حیثیت اختیار کر گئے۔ نیپال میں نوجوانوں نے اپنی تحریک کو منظم کرنے میں چیٹ رومز کے ذریعے اپنی احتجاجی حکمت عملی ترتیب دی۔ 

ان تحاریک کی بنیادی خاصیت کسی ایک یا کچھ لیڈرز پر انحصار سے گریز تھا، روایتی سیاسی جماعتوں سے مکمل علیحدہ اور نوجوانوں کو خود سے جوڑ کر حکومتوں کی پالیسیوں کو نشانہ بناتی رہیں۔

انڈونیشیا، پیرو، مراکش وغیرہ میں بجلی و ٹیکس جیسے مطالبات سے شروع کی گئیں تحاریک حکومت کی تبدیلی، احتساب، آئینی اصلاحات کے وسیع مطالبات تک بڑھ گئیں، نتیجے میں جہاں ان ممالک کے سیاسی نظاموں کی خامیاں اُجاگر ہوئیں ،وہیں حکومتیں بھی کچھ کرنے پر مجبور ہوئیں۔ مڈغاسکر میں نوجوانوں کے احتجاج کے بعد صدر نے حکومت تحلیل کردی۔ مراکش میں حکومت نے احتجاجی نوجوانوں کو مذاکرات کی پیشکش کی۔

ان ممالک میں کیا ہوا اور نتائج کیا نکلے، اس کا اندازہ تو ہو گیا، پاکستان میں جنریشن زی نے 2025ء میں کیا کیا، اس بارے میں ملاحظہ کریں۔

پاکستان:

سب سے پہلے ہم پاکستانی جنریشن زی اور دنیا کے دیگر ممالک کی جنریشن زی کا تھوڑا سے موازنہ کر لیتے ہیں کہ ان میں کیا قدر مشترک ہے اور کیا خصوصیات الگ ہیں۔ مشترک قدر ان میں یہ ہے کہ دونوں ہی سوشل میڈیا پر انتہائی فعال ہیں، ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان کی جنریشن زی ملک کی کل آبادی کا ایک تہائی حصہ ہے، اتنی بڑی تعداد میں نوجوان آبادی کی موجودگی پاکستان کو دیگر ممالک سے ممتاز کرتی ہے۔ 

آبادی کے ایک تہائی حصے میں سے تقریباً 40 فیصد نوجوان سوشل میڈیا پلیٹ فارم استعمال کرتے ہیں۔ اس بناء پر ان کے ذہنوں کو مسخر کرنا زیادہ آسان ہے، یہی وجہ ہے کہ سوشل میڈیا پر فیک نیوز، پروپیگنڈا سوچے سمجھے منصوبے کے تحت جان بوجھ کر پھیلایا جاتا ہے۔

سیاسی شرکت کا انحصار روایتی میڈیا کے بجائے ڈیجیٹل پلیٹ فارمز، خاص طور پر ٹک ٹاک، ایکس (سابقہ ٹویٹر) انسٹاگرام، یوٹیوب، فیس بک پر بڑھ رہا ہے۔ یہ نسل تیز رفتار معلومات، جذباتی اپیل رکھنے والی ویڈیوز اور وائرل نقطہ ہائے نظر کی بنیاد پر سیاسی رائے قائم کرتی ہے۔

نتیجتاً فیک نیوز اور پروپیگنڈا کے اثرات اس نسل کے احتجاجی رحجانات پر پہلے سے کہیں زیادہ نمایاں ہو چکے ہیں۔ پاکستانی جنریشن زی کو جن ذرائع سے نشانہ بنایاجاتا ہے، ان میں ،فیک نیوز کی تیز ترین ترسیل، مختصر ویڈیوز، جعلی آڈیوزایڈیٹ شدہ کلپس، غلط ٹیکسٹ بیسڈ خبریں ،جعلی تصاویر و ویڈیوز وغیرہ شامل ہیں۔

الگورتھمز کی نفسیات

سوشل میڈیا الگورتھمز صارف کو وہی نقطۂ نظر زیادہ دکھاتے ہیں جو وہ دیکھنا چاہتا ہے۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ سوچ یکطرفہ اور سوچنے کی صلاحتیں کم سے کم تر ہوتی جاتی ہیں۔

پروپیگنڈا کرنے والے گروہ اور میکانزم پاکستانی آن لائن اسپیس میں پروپیگنڈا ان ذرائع سے گردش کرتا ہے، سیاسی جماعتوں کی سوشل میڈیا ٹیمیں، باقاعدہ چلائی جانے والی ٹرول فارمز، انفلونسرز اور یوٹیوبرز، بیرونی ریاستی نیٹ ورکس، غیر تصدیق شدہ نیوز پیجز، ان پلیٹ فارمز کے ذریعے جنریشن زی کو مسلسل جذباتی یا غصہ دلانے والا مواد فراہم کیا جاتا ہے۔ 

اس بناء پر ہم برملا کہہ سکتے ہیں کہ پاکستانی جنریشن زی ایک ایسی نسل ہے جو سوشل میڈیا پر سب سے زیادہ فعال، متاثر اور منظم ہے،تاہم یہ نسل فیک نیوز، ڈیجیٹل پروپیگنڈا اور وائرل جذباتی مواد کا تیزی سے شکار بنتی ہے۔ اس کا اثر احتجاجی سیاست میں نمایاں ہے، جہاں جنریشن زی اکثر حقائق کی تصدیق کے بغیر سڑکوں پر نکل آتی ہے، اس کا نقصان گزشتہ برس لاہور کے احتجاج میں شدت سے سامنے آیا۔ 

اگر مناسب ڈیجیٹل تربیت، ادارہ جاتی رہنمائی اور باقاعدہ معلوماتی شفافیت نہ لائی گئی تو مستقبل میں اس نسل کے احتجاجی رجحانات مزید غیر مستحکم ہو سکتے ہیں۔ 

اس حوالے ے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو اپنے تعلیمی نصاب میں فوری اور دور رس تبدیلی کی ضرورت ہے، سیکنڈری سطح سے ہی ایک طالبعلم کو فیک اور پروپیگنڈا نیوز کی پہچان کروائی جانا، ان میں پہلے تصدیق اور پھر احتجاج کے رویوں کو پروان چڑھانا، فیکٹ چیک کی عادت ڈالنا ضروری ہے۔ 

تعلیم اور شعور کی آگہی سے ہی نئی نسل کو منفی پروپیگنڈے کا شکار ہونے سے بچایا جا سکتا ہے۔ پاکستان اور دنیا بھر کی جنریشن زی میں جو بڑے تضادات ہیں، ان میں پاکستانی نسل کا سوشل میڈیا پر اندھا اعتماد اور طلبہ یونینز پر پابندی ہے، طلبہ تنظیمیں نہ ہونے کی بناء پر بھی نوجوانوں میں سیاسی بالیدگی دیگر اقوام کےنوجوانوں کے مقابلے میں نہ ہونے کے برابر ہے، جو ہم نے بنگلہ دیشی جنریشن زی کی تحریک کے دوران بھرپور انداز میں دیکھی۔

اس تحریک کی خاص بات یہ ہے کہ نوجوانوں نے اسے صرف “ پولیٹیکل احتجاج کے طور پر نہیں بلکہ ایک کلچرل و ڈیجیٹل تحریک کے طور پر اٹھایا۔ سوشل میڈیا، آن لائن پلیٹ فارمز اور انٹرنیٹ فعال کردار ادا کرتے رہے۔

اس طرح Generation Z نے “مزاحمت” کو صرف سیاست یا احتجاج تک محدود نہیں رکھا، بلکہ اسے ایک ثقافت اور نوجوانوں کی شناخت میں ڈھالا ، احتجاج کو “نئی طرزِ مزاحمت” دی، جو پہلے والی سیاست سے یکسر مختلف تھی۔

احتجاج کی شدت نے حکومت کو بعض وعدے کرنے پر مجبور کر دیا مثلاً ارکان پارلیمنٹ کی بڑھائی گئی تنخواہوں اور مراعات کو واپس لینا پڑا۔ عوامی شعور بڑھا، نوجوانوں، طلبہ اور شہریوں میں پالیسیوں، فوج کی سیاست میں شمولیت، اور حکومتی شفافیت پر بحث ہوئی مگر مکمل “سابقہ سیاسی ترتیب” بدل دینا ابھی مشکل ہے کیونکہ فوج اور سول حکومت کے باہمی تعلقات، سیاسی ڈھانچے، اور طاقت کے خاندانی یا طبقاتی نظام کی جڑیں گہری ہیں۔

سوشل میڈیا پر مورچہ بند ی رہی

گزرے برس پاکستانی جنریشن زی عملی میدان میں تو سامنے نہیں آئی، تاہم اپنے مضبوط ترین پلیٹ فارم یعنی سوشل میڈیا پر بھرپور انداز میں مورچہ بند رہی۔ مئی میں پہلگام فالس فلیگ آپریشن کی بنیاد پر بھارت کے پاکستان پر حملے کے بعد سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر پاکستان اور افواج پاکستان کے دفاع میں یہ نسل پیش پیش رہی، پھر فضاؤں میں دنیا کی سب سے بڑی ڈاگ فائٹ میں پاکستان کے ہاتھوں 5 جدید ترین رافیل اورجنگی طیارے مار گرائے جانے پر سوشل میڈیا پر جشن اور میمز نے بھارتی سوشل میڈیا ایکٹیوسٹس کو منظر سے ہی آؤٹ کردیا، صرف چار گھنٹے کے پاکستانی جوابی فضائی، میزائل اور ڈرون حملوں کے بعد بھارت کی جانب سے جنگ بندی کیلئے امریکہ سے مداخلت کیلئے رجوع کرنے کو بھی پاکستانی سوشل میڈیاایکٹوسٹس نے بھرپور طریقے سے پیش کیا۔ 

اس دورانیے میں پاکستان مخالف پلیٹ فارمز کا تمام پروپیگنڈا ناکام رہا، حتیٰ کہ سیاسی جماعتوں کے پلیٹ فارمز سے کیا جانے والا افواج پاکستان کےخلاف منفی پروپیگنڈے کو بھی نہ صرف یہ کہ کوئی پذیرائی نہیں ملی بلکہ جنریشن زی نے اس پروپیگنڈے کو بھرپور طریقے سے کاؤنٹر بھی کیا۔

احتجاجی تحریک پُرجوش مگر لیڈر کے بغیر

ایک بڑا چیلنج جو کہ بین الاقوامی تجزیہ نگاروں نے نوٹ کیا ہے، جنریشن زی تحاریک، اگرچہ پرجوش اور متحرک ہیں، مگر لیڈر لیس اور بکھری ہوئی ۔ یعنی ایک مضبوط قیادت یا سیاسی پارٹی کی شکل اختیار کرنے میں کامیاب نہیں ہوئیں۔ “ثقافتی مزاحمت + آن لائن انقلاب” کے باوجود، بعض نوجوانوں میں جمود، مایوسی اور جمہوری ادارے پر کم اعتماد بھی دکھائی دیا، خاص طور پر جب ماضی کے آمرانہ ادوار(اور ان سے وابستہ تاریخ) کو دوبارہ “اقتصادی استحکام” سے یاد کیا جانے لگا۔ 

مثال کے طور پر انڈونیشیا میں نومبر 2025 ءمیں ایک واقعہ ہوا، جہاں سابق آمر Suharto کو “قومی ہیرو” کا لقب دینے پر بعض نوجوانوں میں مِلا جُلا ردِعمل آیا۔ اس کے باوجود، تحریک نے ثابت کردیا کہ نوجوان خاص طور پر وہ جو ڈیجیٹل پلیٹ فارمز پر متحرک ہیں، اب سیاست، حکومت اور سماجی انصاف کے معاملات میں خاموش نہیں رہیں گے۔ اس نے سیاسی ڈائیلاگ، شعور اور متبادل حکومتی چینلز کی ضرورت کو اُجاگر کیا ہے۔ 

مقامی ناقدین کے مطابق انڈونیشیا کی 2025 ءکی جنریشن زی تحریک ایک تاریخی لمحہ ہے، ایک ایسا لمحہ جس نے روایتی سیاست اور پرانی طاقتوں کو بے نقاب کیا ہے جبکہ نوجوانوں کو ایک متحرک، ڈیجیٹل و ثقافتی طریقے سے سیاسی عمل میں شامل کیا ہے لیکن یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ اس تحریک نے “جمود” یا “فوجی اثر” اور سیاسی نظام کی ساخت کو مکمل طور پر بدل دیا۔ جو کامیابیاں حاصل کی گئیں ان میں مراعات میں کٹوتی، شعور کی بیداری اہم ہیں، مگر یہ تبدیلی صرف ایک ابتدائی قدم ہے۔

جنریشن زی کی چیدہ چیدہ خامیاں

1. سوشل میڈیا پر حد سے زیادہ انحصار:

جنریشن زی نے اپنی شناخت، تعلقات حتیٰ کہ معلومات حاصل کرنے کا عمل سوشل میڈیا پر مرکوز کر دیا ہے، جس کی بنا پر وہ حقائق اور افواہوں میں فرق ،سوشل میڈیا پر پھیلائے گئے جھوٹ، سچ اور پروپیگنڈے میں تمیز نہیں کرپاتے۔ یہ نسل لائکس اور فالوورز کے ذریعے خود کی قدر ناپتی ہے، جس کے باعث حقیقی تعلقات اور معاشرتی رشتوں سے دوری اختیار کرتی جارہی ہے، یہ بہت بڑی خرابی کا باعث ہے۔ 

گزشتہ سال پاکستان کے شہر لاہور میں ایک کالج کی طالبہ سے زیادتی کی ایک جھوٹی خبر سوشل میڈیا کے ذریعے پھیلائی گئی، جس کی تصدیق کی جنریشن زی نے ضرورت ہی محسوس نہیں کی اور ایک احتجاج کا سلسلہ شروع کردیا گیا، جس کے دوران توڑ پھوڑ، جلائو گھیراؤ اور تشدد بھی کیا گیا، یہ احتجاج لاہور سے نکل کر پنجاب کے دیگر شہروں میں بھی پھیل گیا، جس کے دوران تعلیمی ادارے مفلوج ہوگئے اور درس و تدریس کا سلسلہ بھی رک گیا۔ 

سیکورٹی اداروں کی جانب سے کارروائی کے نتیجے میں ہونے والی جھڑپوں میں درجنوں احتجاجی زخمی اور لاتعداد گرفتاریاں بھی کی گئیں۔ بعد ازاں جب اس جھوٹ کا پردہ چاک ہوا، اس وقت تک اچھا خاصا نقصان ہو چکا تھا۔

2. فوری تسکین (Instant Gratification) کا رجحان:

یہ نسل ہر چیز "ابھی" چاہتی ہے، چاہے وہ کامیابی ہو، پیسہ اور نتائج۔ ان میں صبر اور محنت کا فقدان ہے۔ طویل مدتی منصوبہ بندی سے گریز کا عنصر پروان چڑھتا ہے، جلد مایوسی یا "برن آؤٹ" کا شکار ہوجاتے ہیں، نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ شروع کی گئی تحریک ناکامی سے دوچار ہوجاتی ہے۔

3. اظہار کی آزادی اور احترام کے درمیان توازن کھونا:

یہ نسل، اپنی رائے کے اظہار میں بہت بہادر ہے لیکن بعض اوقات احترام یا برداشت کے اصول بھول جاتی ہے، نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اختلافِ رائے کو دشمنی سمجھ لیتی ہے اور پھر"کینسل کلچر" (Cancel Culture) کے ذریعے دوسروں کو خاموش کرانے کی کوشش کرتی ہے، ان کے مطابق جو یہ کہہ رہے ہیں وہی درست اور حرف آخر ہے، خود کو عقلِ کل سمجھنا ان کی بڑی خامی ہے۔

4. ڈیجیٹل دنیا میں حقیقی مہارتوں کی کمی:

بہت سے نوجوان ٹیکنالوجی کے "استعمال" میں تو ماہر ہیں مگر "تخلیق" یا "مسئلہ حل کرنے" میں کمزور ہیں، جس کے نتیجے میں ان میں عملی، تکنیکی یا سماجی مہارتوں کی کمی ہے۔ حقیقی دنیا کے چیلنجوں سے بچنے کا رجحان جنم لیتا ہے، اس کا نتیجہ بھی اکثر تحریک یا احتجاج کو بیچ میں چھوڑ دینے کی صورت میں نکلا ہے۔

5. غیر حقیقت پسندانہ توقعات

انٹرنیٹ پر کامیابی کے چند "وائرل" مثالیں دیکھ کر یہ نسل سمجھتی ہے کہ شہرت یا دولت بہت آسانی سے حاصل ہو جاتی ہے، جس کے نتیجے میں ناکامی کو قبول نہیں کر پاتی، ان میں مستقل مزاجی کی کمی ہوتی ہے، مستقل مزاجی سے کوشش کے بجائے یہ دوسرا راستہ اختیار کرلیتی ہے، پھر اس میں مطلوبہ نتائج نہ ملنے پر یہ کوئی تیسری راہ تلاش کرتی ہے، غیر مستقل مزاجی کی بناء پر یہ اپنی توانائیاں زیادہ تر بے مقصد معاملات میں صرف کرتی ہے۔

6. خود پسندی (Self-obsession) کا رجحان:

سیلفی کلچر اور "می سینٹرک" طرزِ زندگی کی وجہ سے ایک حد تک خود غرضی کو فروغ دیا ہے۔ اس طرز عمل سے اجتماعی بھلائی اور قربانی کا جذبہ کمزور ہو جاتا ہے۔ ذہنی دباؤ، اضطراب اور تنہائی میں اضافہ ہوتا ہے۔

7. تاریخ اور روایت سے ناتعلقی:

جنریشن زی اکثر ماضی کے تجربات یا روایتی دانش کو "پرانا" سمجھ کر رد کر دیتی ہے۔ اس کا نتیجہ اکثر ثقافتی جڑوں سے دوری اور سبق آموز تاریخی مثالوں کو نظر انداز کرنے کی صورت میں نکلتا ہے، کسی بھی رائے اور مشورے کو انتہائی سرسری انداز میں سنتی ہے، کیونکہ ان کے نزدیک ان کے کئے گئے فیصلے درست اور دوسروں کی رائے معمولی نوعیت کی ہوتی ہے، ان کے اس طرز عمل سے بھی انہیں اکثر نقصان اٹھانا پڑتا ہے، تاہم یہ اپنی روش بدلنے کی سوچ نہ رکھنے کے باعث اس کا ادراک بھی نہیں کرپاتے۔

حرفِ آخر

بحیثیت جنریشن ایکس ہم چونکہ مختلف ادوار سے گزرے ہیں اور جنریشن زی کے دور کو بھی بھرپور طریقے سے دیکھ رہے ہیں، اس بناء پر یہ انتہائی ضروری ہے کہ جنریشن زی تک اپنے تجربات کو منتقل کریں، ان کی توانائیوں کو بے مقصد اور انتشار جیسے عوامل سے محفوظ رکھیں، ان میں کچھ کر گزرنے کے عزم کو درست راہ پر لے کر جائیں۔ 

نوجوان کسی بھی ملک کے تابناک مستقبل کی اُمید ہوتے ہیں، خصوصاً پاکستان جیسے ترقی پزیر ملک کے، جہاں نوجوانوں کی اکثریت ہے، یہ ذمہ داری دوچند ہوجاتی ہے۔ اس سے پہلو تہی ملک و قوم کیلئے بدترین نقصان کا باعث بن سکتی ہے۔ اگر یہ کہیں کہ جنریشن زی کی اکثریت بنیادی طور پر ٹک ٹاک کے 30 سیکنڈز کی ویڈیو سے متاثر ہوجانے والی ہے تو یہ مبالغہ نہیں ہوگا۔ 

ضرورت اس امرکی ہے کہ بنگلہ دیش، انڈونیشیا، نیپال، مڈغاسکر، مراکش میں جنریشن زی کی تحاریک کا باریک بینی سے جائزہ لے کر ہمارا تھنک ٹینک اپنے نوجوانوں کا احساس محرومی کے خاتمے، ان کی صلاحیتوں کو جلا دے کر انہیں ملک و قوم کیلئے کارآمد نسل بنائیں، ان کی مایوسی کا خاتمہ کریں۔ 

بدقسمتی سے یہاں سیاستدانوں کی اکثریت ان کی توانائیوں کو منفی طور پر استعمال کرنے پر تیار رہتی ہے اور جنریشن زی کی اکثریت بنا سوچے سمجھے جھوٹ اور پروپیگنڈے کو سوشل میڈیا پر پھیلانے میں ان کے عزائم کی تکمیل کا ذریعہ بنتی ہے، جس کا خمیازہ انہیں اور ان کے ساتھ ساتھ ان کے خاندانوں کو بھی بھگتنا پڑ رہا ہے، ملک و قوم کا نقصان علیحدہ ہو رہا ہے۔