انیلہ افضال ایڈووکیٹ
کسی بھی معاشرے کی اقدار و تہذیب کی ترقی و خوبصورتی میں قانون کا کلیدی کردار ہوتا ہے۔قوانین اور اصولوں کے مطابق زندگی گزارنا نظم و ضبط اورمستقل مزاجی لازمی ہے۔ اس کا بنیادی مقصد معاشرے میں پیدا ہونے والے شر انگیز رحجانات اور ان سے ظہور پذیر تکلیف دہ نقصانات کا تدارک کرکے پیدا شدہ خرابیوں کی مسلسل مرمت کرنا ہےلیکن آج کل قانون شکنی کا رجحان بدقسمتی سے کمال بے اعتنائی سے جاری ہے جو کہ باعثِ تشویش ہے۔
قانون کا احترام تو الگ بات ہے نوجوان جلد بازی کا اس قدر شکار ہو چکے ہیں کہ زندگی کو ہی داؤ پر لگا دیتے ہیں۔ ون وے سڑکوں پر ایسے بے شمار قانون شکن نوجوانوں کو بخوبی دیکھا جاسکتا ہے۔ ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کسی کو شرم محسوس نہیں ہوتی۔
آج دُنیا کے تمام ترقی یافتہ ممالک میں خوشحالی کی ایک بڑی وجہ قانون کا احترام ہے۔ ہمارے ہاں یہ چیز ناپید نظر آتی ہے۔ ہر فرد نے قانون کو اپنے ہاتھوں کا کھلونا بنایا ہوا ہے، جس کے مظاہرے آئے دن ہمیں دیکھنے پڑتے ہیں۔ جب چاہاکسی کی املاک کو آگ لگا دی، جب چاہا کسی کو قتل کردیا، ذرا ذرا سی تکرار پر ایک دوسرے پر تشدد تو عام سی بات ہے۔
وطن عزیز میں نوجوان دو طبقوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ ایک وہ جو امیر ہیں اور اپنی موج مستی میں مست ہیں؛ جبکہ دُوسرا طبقہ متوسط اور غریب نوجوانوں کا ہے جو محنت سے پڑھتے ہیں لیکن جب اس کے اچھے نتائج نہیں ملتے تو ان کے اندر باغیانہ رویّہ سر اُبھارنے لگتا ہے۔ افسوس کا مقام تو یہ ہے کہ دونوں طبقات ہی آئین اور قانون کی پروانہیں کرتے۔
معاشی عدم استحکام، تعلیمی نظام کی بے قاعدگیاں، روزگار کے مسائل، نوجوانوں کے بڑھتے ہوئے مسائل، عدم تحفظ، معاشرتی ناہمواریاں، کرپشن، احساس کمتری، ناقص حکمت عملی، فیصلوں کا فقدان، یہی وہ اہم اور بنیادی وجوہات ہیں جن کی وجہ سے نوجوان نسل بری طرح متاثر ہورہی ہے۔
جن نوجوانوں کےراستے مسدود کر دیئے جاتے ہیں وہ بے ہنگم مشاغل میں پھنس کر خود کو تباہ و برباد کرلیتے ہیں۔ یہ وہ دور ہے جہاں ہر ایک دوسرے سے آگے نکلنے اور خوب سے خوب تر کی تلاش میں رہتا ہے اور جن کو وہ سب کچھ نہیں ملتا، جس کی وہ تمنا کرتے ہیں تو وہ احساس محرومی کا شکار ہوجاتے ہیں اور اسے حاصل کرنے کے لیے اچھےبُرے کی تمیز کھو بیٹھتے ہیں، ملک میں رائج قوانین کی بھی پاسداری نہیں کرتے۔
جس کی وجہ سے معاشرہ بکھر کر رہ جاتا ہے۔ معاشرے میں اگر قانون توڑنے والوں کو عزت ملے تو نوجوان کیوں کر قانون کی پاسداری کرے گا؟ آئین پاکستان نوجوانوں کو بہت سے تحفظات فراہم کرتا ہے لیکن افسوس کا مقام تو یہ ہے کہ یہ تحفظات صرف تحریری طور پر ہی نظر آتے ہیں۔ جب معاشرے میں آئین اور قانون کی بالا دستی قائم نہیں ہو گی تو نتیجے کے طور پر نوجوانوں کامایوس ہونا طے ہے، یہی مایوسی رد عمل کے طور پر مختلف صورتوں میں سامنے آتی ہے۔
قانون شکنی کی ایک مثال سڑکوں پر موٹر سائیکل چلاتے ہوئے نوجوانوں کو دیکھ کر ہوتی ہے، ٹریفک قوانین کو توڑنے کے معاملے میں وہ پیش پیش ہوتے ہیں۔ انہیں سگنل کا لال نشان نظر ہی نہیں آتا یا وہ اس نشان کا مطلب نہیں سمجھتے اور ہیلمٹ پہنا بھی ضروری نہیں سمجھتے۔ ون وے ٹریفک کی خلاف ورزی، موٹر سائیکلوں سے ون ویلنگ کرکے اپنی اور دوسروں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈالنا، سگنل توڑنا لا قانونیت کی عام مثالیں ہیں۔ جب حادثہ پیش آجائے تو دوسروں کو موردِ الزام ٹھہراتے ہیں۔
موبائل رابطے کا بہترین ذریعہ ہے لیکن اکثر نوجوان ڈرائیونگ کے دوران موبائل کا استعمال کرتے ہیں۔جان جاتی ہے تو جائے لیکن کوئی کال اور مسیج مس نہیں ہونا چاہیئے ۔ جہاں ہارن بجانا منع ہے، اسی مقام پر ہارن بجا تے ہیں، جہاں پارکنگ کرنا منع ہے وہیں بے شمار گاڑیاں پارک دکھائی دیتی ہیں۔
ہر وقت قانون کا رونا تو بہت رویا جاتا ہے، مگر قانون پر عمل کرنے کے لیے کوئی بھی تیار نہیں ہوتا۔ جب نوجوان قانون کو پامال کرتے ہیں تو وہ صرف خود کو نقصان نہیں پہنچاتے بلکہ پورے معاشرے کے نظم و ضبط کو تباہ کر دیتے ہیں۔
قانون شکنی کی سب سے تکلیف دہ مثال ، نوجوانوں کی غیر قانونی طور پر دیگر ممالک میں جانے کی کوشش ہے۔ بعض ممالک کی سرحدوں پر قانونی دستاویزات نہ ہونے کی وجہ سے یہ نوجوان گرفتار کر لئے جاتے ہیں، یہاں تک کہ بعض اوقات بحری لانچوں میں سفر کرتے ہوئے اپنی قیمتی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ ان واقعات سے وطن عزیز کی سبکی اور بدنامی ہوتی ہے۔ دوسرے ممالک کے رائج قوانین اور اصولوں کی پروا کئے بغیر وہاں جانے کے لئے کسی بھی حد تک جانے سے گریز نہیں کرتے۔
غیرقانونی سفر، جعلی دستاویزات، منشیات، اسمگلنگ، دھوکہ دہی، رشوت اور مزید کئی سنگین الزامات میں ملوث پاکستانی دیارِ غیر کی جیلوں میں سزا کاٹ رہے ہیں۔ ذرا سوچیں آخر کیا وجہ ہے کہ ہمارے نوجوان، کسی ملک میں روزگار کی تلاش میں جانا چاہے یا اعلی تعلیم کے حصول کے لیے، انہیں آسانی سےویزا نہیں دیا جاتا۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ اپنے ملک میں قانون کی دھجیاں اڑانے والے نوجوان دوسرے ممالک میں قانون کی پاسداری کرنے میں پیش پیش رہتے ہیں۔
آخر ایسا کیوں ہے؟یہ نہیں ہے کہ وہاں قانون شکن افراد موجود نہیں، مگر قانون شکنی کی گرفت مضبوط ہے۔ وہاں پر قوانین پر عمل درآمد ہوتا ہے خلاف ورزی پر کڑی سزائیں ہوتی ہیں۔ ہم دوسرے ممالک کے قوانیں کی باتیں کرتے ہیں، مگر اپنے ملک اس کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔
قانون شکنی کی ابتدا عموماََ گھر سے ہوتی ہے۔ بیشتر والد ین کم عمری ہی میں بچوں کو موٹرسائیکل، موبائل، کمپیوٹر اوغیرہ فراہم کردیتے ہیں۔ ان اشیاء کے استعمال کی تربیت کا فقدان ہی حقیقتاً قانون شکنی کا باعث بنتا جارہا ہے۔موٹرسائیکل چلانا تو وہ گلی محلے کے دوستوں سے سیکھ لیتے ہیں، مگر ٹریفک کے قوانین سے نابلدہوتے ہیں، اسی لئے وہ ٹریفک قوانین کو توڑتے ہیں، بسا اوقات وہ خود بھی حادثے کا شکار ہو جاتے ہیں۔
قانون سے ناآشنا نوجوان غلط امور پر ندامت تک محسوس نہیں کرتے۔ کیرئیر کے آغاز کے لئے والدین بھی نوجوانوں کو غلط رائے دیتے ہیں۔ پہلا تصور تو یہ ہوتا ہے کہ سب کچھ پیسہ ہے۔ پیسے کے بغیر زندگی کا تصور محال ہے۔ ملازمت کے حصول کےلئے رشوت فراہم کرنے میں والدین کا بڑا ہاتھ ہوتا ہے، یوں نوجوان عملی زندگی میں قدم رکھتے ہی پہلا سبق یہ سیکھتا ہے کہ رشوت کوئی برائی نہیں۔ وہ آئندہ زندگی میں جائز و ناجائز کام نکلوانے کےلئےاس کا سہارا لیتا ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر کریں کیا ؟ اس کے لئے ہمیں اپنے طرزعمل میں ضروری تبدیلیاں لانا ہوں گی۔ مثبت اقدامات اختیار کرنے کی کوشش کرنا ہوگی۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ، یہاں ہر شخص اپنے اپنے حصے کی ذمہ داری سے جان چھڑانا چا ہتاہے۔ تعلیم تدریس اور تحقیق کی ترویج پر شب و روز محنت و کاوش پر زور دیا جاتا ہے تو پھر قانون پر عمل داری سے لاپرواہی کا مروجہ رجحان، ہماری عدم توجہی کے تسلسل پر افسوس ناک، اندازِ فکر کا عندیہ ظاہر کرتا ہے۔ اس میںقانون ساز اداروں کا بھی عمل دخل ہے۔
ایوان اقتدار میں بیٹھے قانون سازوں کو اسے سنجیدہ معاملہ سمجھنے کی ضرورت ہے۔ جرائم کا بلند ہوتا گراف فوری اقدامات کا متقاضی ہے۔ حکومت اس رجحان کی بیخ کنی کے لیے متحرک ہو۔ نیز گھر کے بڑوں کو اپنے اندر مثبت تبدیلی لانا ہو گی۔ نوجوان بھی قوانین کے احترام کریں ،اپنی ذات سے آغاز کر کے ہی وہ معاشرے میں بہتری کی امید رکھ سکتے ہیں۔ روزانہ گھر سے نکلنے سے پہلے یہ فیصلہ کر لیں کہ وہ قوانین کا احترام کریں گے، جلد بازی میں قانین نہیں توڑیں گے۔سڑک پر گاڑی یا موٹرسائیکل جہاز کی طرح نہیں چلائیں گے غلط جگہ پارکنگ نہیں کریں گے۔
یہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر عمل پیرا ہوکر دیکھیں گے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ایک خوبصورت تبدیلی خود بخود نمودار ہونے لگے گی ۔قانون صرف خوف کا نہیں بلکہ تحفظ اور بھلائی کا نشان ہے۔ قانون کی پاسداری ایک اچھے شہری کی پہچان اور معاشرتی زندگی کو منظم رکھنے کے لیے ضروری ہے۔ اچھا معاشرہ اچھے اخلاق سے پیدا ہوتا ہے جس کی بنیادی شرط انصاف، رواداری اور قانون پر عمل ہے۔