موسمیاتی تبدیلی ایک عالمی مسئلہ ہے، لیکن اس کا اثر خاص طور پر ترقی پذیر ممالک، جیسے پاکستان میں زیادہ محسوس کیا جا رہا ہے۔
موسم کی تبدیلی اور درجہ حرارت میں اضافہ، بڑھتی ہوئی آلودگی، ماحولیاتی زہریلے مادوں اور غذائی تحفظ میں تبدیلیاں، یہ سب جسمانی اور ذہنی صحت کے مسائل کا سبب بن رہی ہیں۔ بدلتے موسمی حالات جہاں کرہ ارض کو خطرے کی لکیر کی جانب دھکیل رہے ہیں، وہیں آئے روز نت نئی بیماریوں کا سبب بھی بن رہے ہیں۔ موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے ہر فرد کی شمولیت ضروری ہے۔
نوجوانوں میں جوش، توانائی اور تخلیقی صلاحیت ہے جو اس بحران کے حل میں قائدانہ کردار ادا کر سکتے ہیں۔ انہیں وہ وسائل اور مواقع فراہم کرنے ہوں گے، جن کی انہیں اس تبدیلی کے تحفظ کے لیے ضرورت ہے۔ مختلف ممالک میں نوجوانوں کی زیرقیادت اقدامات ماحولیاتی وموسمیاتی شعور بیدار کرنے اور کمیونٹیز کو متحرک کرنے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔
پاکستان انوائرمینٹل پروٹیکشن ایجنسی کی ڈائریکٹر جنرل فرزانہ الطاف شاہ نے دولت مشترکہ ایشیایوتھ الائنس کانفرنس میں نوجوانوں پر زور دیا ہے کہ وہ ماحولیات کے تحفظ اور موسمیاتی تبدیلی کے بڑھتے ہوئے اثرات کو کم کرنے کے لئے اجتماعی کوششیں کریں۔ انہوں نے پائیدار ترقی میں نوجوانوں کے اہم کردار کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں نوجوان نسل سے بہت امیدیں وابستہ ہیں اور یہ کہ نوجوان ماحول کے تحفظ میں حقیقی دلچسپی ظاہر کررہے ہیں۔
موسم گرما کے مہینوں میں شدید گرمی کی لہروں سے بھی خبردار کیا اور بڑھتے ہوئے بحران سے نمٹنے کے لیے فوری اور اجتماعی کارروائی پر زور دیا۔ ماحولیاتی تحفظ کے لئے نوجوانوں کے جوش و جذبے اور عزم کے لئے ان کی تعریف کی اور اس امید کا اظہار کیا کہ ان کی کوششیں اس نقصان کو دور کرسکتی ہیں۔
یہ بہت اہم ہے کہ فطرت کے تحفظ کےلیے اپنی کوششوں کا رخ درست سمت کریں، کیونکہ حالیہ برسوں میں، پاکستان موسمیاتی تبدیلی کے تلخ حقائق سے نمٹ رہا ہے، اسے متعدد ماحولیاتی چیلنجوں کا سامنا ہے جو اس کے ماحولیاتی نظام، معیشت اور معاشرتی تانے بانے کے لیے خطرہ ہیں۔ موسمیاتی آفات کرہ ارض کو بکثرت اور شدت سے تباہ کر رہی ہیں۔
بنیادی ڈھانچے کے نقصانات یا تباہی کے نہ صرف اربوں ڈالر میں چلنے والی معیشتوں پر دور رس اثرات مرتب ہوتے ہیں بلکہ ترقیاتی حوالے سے حاصل کامیابیاں رائیگاں ہو جاتی ہیں اور لاکھوں افراد کی زندگیاں بھی تباہ ہو جاتی ہیں۔ نوجوان نسل یہ سب د یکھ چکے ہیں کہ کس طرح عالمی اوسط درجہ حرارت میں اضافہ ہوتا رہا اور شدید گرمی کی لہروں سے زرعی پیداوار میں کمی آئی، جس کے نتیجے میں غذائی عدم تحفظ اور غذائی قلت کی صورتحال پیدا ہوگئی ہے۔ شدید بارشوں اور سیلابوں نے تباہی مچائی اور آتشزدگی نے جنگلات کے وسیع حصے کو جلا کر راکھ کر دیا، جس کی وجہ سے بڑے پیمانے پر ماحول کو نقصان پہنچا۔
نوجوان طبقے کو یقینا موسمیاتی تبدیلی کی روک تھام کے لئے پچھلی نسلوں کی تاخیری اقدامات اور ناقص پالیسیوں کے نتائج بھگتنا پڑے۔ باتھ یونیورسٹی کی ایک عالمی سائنسی تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ بہت سے نوجوان اپنے مستقبل پر موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کے بارے میں انتہائی فکر مند ہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ نوجواں کی مایوسی کو تحریک میں تبدیل کرنا اور ان کی توانائیاں موسمیاتی تبدیلی کے خلاف اقدامات کےلئے بروئے کار لانا چاہیے، تاکہ نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد کا کا بامقصد استعمال کیا جا سکے۔
نوجوانوں کے انفرادی طور پر بھی اس سلسلے میں کام کرنے کی کئی مثالیں موجود ہیں۔سویڈ ن سے تعلق رکھنے والی پندرہ سالہ گریٹا تھنبرگ نے آب و ہوا میں تبدیلی کے بارے میں آواز اٹھا ئی تھی۔ ایک 11سالہ برطانوی لڑکے جوڈ واکر نے پورے انگلینڈ میں388 کلومیٹر پیدل سفر کیا، جس کا مقصد زیرو کاربن مہم کے حوالے سے شعور اجاگر کرنا اور اس کے اخراج پر کاربن ٹیکس لگانے کی حمایت کرنا تھا۔
اس کے بعد آج پوری دنیا میں نوجوان آب و ہوا کی ہنگامی صورتحال سے متعلق عالمی اقدامات کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کا موسمیاتی تبدیلی کے بارے میں یوتھ ایڈوائزری گروپ نوجوانوں کو کھلے مباحثوں میں شامل کرتا ہے اور اپنے رکن ملکوں پر نوجوانوں کے خیالات اور آواز کو اعلی سطح کی فیصلہ سازی میں زیر غور لانے کے لئے زور دیتا ہے۔
نوجوان نسل موسمیاتی تبدیلی کے خلاف جنگ میں ایک اہم طاقت بن سکتی ہے۔ ان کی تعلیم، آگاہی، عملی اقدامات، اور قیادت کا کردار مستقبل کی سمت متعین کرنے میں مددگار ثابت ہوگا۔ اگر ہم نوجوانوں کو اس مسئلے کا حصہ بنایا جائے تو ایک بہتر، صاف ستھرا، اور محفوظ مستقبل کی طرف بڑھ سکتے ہیں۔
حسب استطاعت موسمی اعتدال کی جانب اپنا قدم ضرور بڑھائیں۔ عملی اقدامات میں کچھ نہیں تو ایک پودا ضرور لگا کرر اس کی نشو نما کا خیال رکھ سکتے ہیں۔تعلیمی اداروں میں موسمیاتی تبدیلی کے بارے میں آگاہی پیدا کریں، جامعات میں اس سلسلے میں تحقیقی مراکز اور جدید تجربہ گاہیں قائم کی جائیں، تاکہ یہ نئی نسل اس بحران کے حل میں اہم کردار ادا کر سکے۔
دولت مشترکہ ایشیایوتھ الائنس سمٹ 2025 نوجوانوں کو موسمیاتی تبدیلیوں کے بارے میں بامعنی بات چیت میں شامل کرنے کے لئے ایک پلیٹ فارم کے طور پر کام کرے گا، جس سے وہ ماحولیاتی چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لئے پائیدار اور قابل عمل حل تجویز کریں گے۔
نوجوانوں کو ماحولیاتی تبدیلی کے چیلنج سے نمٹنے کے بارے میں تعلیم دینے کی ضرورت ہے۔ موسمیاتی تبدیلی کے عالمی چیلنج سے نمٹنے میں نوجوانوں کے جدت پسند خیالات اور منفرد نقطہ نظر انتہائی اہم ہے۔
نوجوانوں کو جامع ماحولیاتی پالیسیوں کی تشکیل کے لئے جنریشن ان لمیٹڈ کی چھتری کے تلے یوتھ پالیسی لیب (وائے پی ایل ) پلیٹ فارم نےا سکول آف لیڈرشپ فاؤنڈیشن کے ساتھ ہم آہنگی اور تعاون سے اقوام متحدہ کے اداروں یونیسف، یو این ایف پی اے، یو این ڈی پی اور پرائم منسٹرز یوتھ پروگرام کو متحد کیا ہے۔
پی آر سی کے ذریعے وائے پی ایل نوجوانوں کو پالیسی سازی میں ان کی آواز سننے کے لئے ایک پلیٹ فارم فراہم کرتا ہے اور اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ اہم ترقیاتی مراحل کے دوران ان کی منفرد ضروریات پر غور کیا جائے۔
ان پالیسیوں کا مقصد نہ صرف موجودہ ماحولیاتی بحرانوں سے نمٹنا ہے بلکہ ایک پائیدار اور لچکدار مستقبل کی راہ ہموار کرنا بھی ہے۔ نوجوانوں کی تخلیقی صلاحیتوں، توانائی اور عزم کو بروئے کار لاتے ہوئے نتیجہ خیز تبدیلی لا ئی جاسکتی ہے۔