• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

انسانی زندگی کا حسن اور اصل کامیابی اسی بات میں ہے کہ وہ دوسروں کے کام آئے۔ انسانیت کے لیے جینے کا لطف بھی خاص لوگوں کے مقدر میں ہوتا ہے جو دوسروں کے لیے جیتے ہیں، دوسروں کے درد کو محسوس کرتے ہیں اور اپنی توانائی، صلاحیت، اور وقت کو کسی بڑی بھلائی کے لیے وقف کرتے ہیں۔اسلام کے عملی تعارف کے لئے خدمت خلق کا میدان سب سے پسندیدہ اور مؤثر عمل ہے۔ فلاحی و سماجی خدمات میں نوجوانوں کا کردار بہت اہم ہوتا ہے۔

کیونکہ وہ بے غرض ہو کر خدمت خلق کا کام انجام دیتے ہیں۔ معاشرے میں مثبت سوچ کو پروان چڑھانے کا سہرا بھی اُن کے سر ہے۔ قوم کے معمار اور قیمتی سرمایہ تصور کئے جاتے ہیں۔ وہ ملت کی تعمیر و ترقی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ دماغی و جسمانی لحاظ سےدوسروں سے زیادہ مضبوط ہوتے ہیں۔ ان میں ہمت و جستجو کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوتا ہے۔

کٹھن حالات کا جواں مردی سے مقابلہ کرنا جانتے ہیں۔ ہمارے ملک میں کچھ نوجوان ایسے بھی ہیں جو بڑی خاموشی کے ساتھ فلاح و بہبود کے کام کررہے ہیں،ان کا مقصد صرف و صرف رضاء الہی کا حصول ہے، وہ اپنی مدد آپ کے تحت کام کر رہے ہیں۔وہ دوسروں کے لیے روشنی کی کرن ہیں، ایسے درد دل رکھنے والے نوجوان معاشرے کی شان ہیں، آنے والی نسلوں کے لیے ایک راہ ہموارکر رہےہیں، جس پر وہ چل کر انسانیت کی خدمت بغیر کسی غرض و مفادات کے کر سکیں۔

 اگر سارے نوجوان تھوڑا تھوڑا سا حصہ بھی ڈالیں تو کسی حد تک غربت، نا امیدی ختم ہو سکتی ہے۔ بڑے سے بڑے فلاحی اداروں کے سربراہ یا بانیوں نے پہلے اکیلے ہی فلاحی کاموں کی ابتداء کی پھر لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا۔یتیم بچوں، نادار اور مستحق افراد کی مدد کرنا صرف ایک نیکی نہیں بلکہ یہ وہ عمل ہے جس کے کرنے سے حقیقی خوشی اور اطمینان ملتاہے۔ اگر نسل نو یہ سمجھ لے کہ اصل خوشی دوسروں کے چہروں پر مسکراہٹ لانے میں ہے، تو یقین کریں کہ نہ صرف ان کی اپنی زندگی بدل جائے گی بلکہ وہ اپنے معاشرے کے لیے ایک مثبت مثال بھی بن جائیں گے۔ خوشیاں بانٹنا صرف اخلاقی عمل نہیں بلک روحانی سعادت بھی ہے۔

اکثر لوگ سوشل میڈیا پر اوراپنے اپنے حلقوں میں انسانی دکھوں پرنوحہ خوانی کرتے رہتے ہیں، مگر معاملہ نوحہ خوانی سے آگے نہیں بڑھ پاتا۔ عملی طور پر مداوا تو یہ ہے کہ رمضان ہو یا عیدین یا پھر عام دن، خوشیاں بانٹنے کا اصل لطف تب ہی آتاہے جب مستحقین کی مالی مدد کی جائے۔

معاشرے کے وہ افراد جو مالی پریشانیوں شکار اور سفید پوش ہیں کسی سے کچھ کہہ بھی نہیں سکتے ایسے لوگوں کی مدد کے لیے نوجوان آگے آئیں، اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر گروپ بنائیں اور اس کارِ خیر میں لگ جائیں، وہ جو اداس نگاہوں سے لوگوں کو عید کی تیاری کرتے دیکھ رہے ہوتے ہیں ان کے چہروں پر بھی مسکراہٹ لانے کا سبب بن جائیں، اصل مزا تو اسی میں ہے، ناکہ خود اچھا اچھا پہنے اور کھائیں۔ 

مال و دولت، عزت، شہرت، مقام اور مرتبہ سب اللہ کا عطا کردہ ہے اور اس میں مستحقین کا حق بھی شامل ہے۔ قرآن اور حدیث میں ایسے بے شمار احکامات ہیں جو ہمیں سکھاتے ہیں کہ معاشرے کے محروم طبقات کی فلاح و بہبود بنیادی ذمہ داری ہے۔ اگر واقعی نیکی کی معراج پر پہنچنا چاہتے ہیں، خود کو ایک عظیم انسان بنانا چاہتے ہیں، تو انہیں اپنی بہترین چیزوں میں سے دوسروں کے لیے قربان کرنا سیکھنا ہوگا۔

ترجمہ : ” تم ہرگز نیکی کو نہیں پہنچ سکتے جب تک اپنی پسندیدہ چیزوں میں سے (اللہ کی راہ میں) خرچ نہ کرو۔“

ہمارے پیارے نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم نے خود یتیمی کی زندگی گذاری، لیکن ہمیشہ یتیموں کی کفالت فرمائی۔ بھوکوں کو کھانا کھلاتے مساکین کی مدد کرتے، اور یتیم کی کفالت کرنے والے کے بارے میں فرمایا: ”میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا جنت میں اس طرح ہوں گے (اور آپﷺ نے اپنی دو انگلیوں کو اکٹھا کیا)۔“ (بخاری، حدیث 5304)

بہت سے ایسے نوجوان بھی ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ ہم کیوں فلاحی کام کریں یہ تو حکومت کا کام ہے؟ عید کے موقع پرہمارے پاس تو خود زیادہ وسائل نہیں، کسی کو کیا دے سکتےہیں؟ یاد رکھیں سوشل ورک کا مطلب صرف مال دینا نہیں، بلکہ وقت دینا، صلاحیت دینا، اور اپنی توانائی کو کسی مثبت مقصد میں صرف کرنا بھی ہے۔ آپ کے پاس اگر مال و دولت نہیں تو کوئی بات نہیں وقت توہے، صلاحیتیں توہیں، سب سے بڑھ کر آپ کے پاس جوانی کی طاقت اور نعمت ہے۔ 

مال و دولت کے بغیر بھی عید کے موقع پر غرباء و مساکین ، یتیم بچوں کے ساتھ وقت گزار سکتے ہیں، انہیں احساس دلا سکتے ہیں کہ آپ ان کے اپنے ہیں اور ہمیشہ ان کا ساتھ دیں گے، اگر تعلیم یافتہ ہیں تو اس خوشی کے موقع پر ان بچوں سے یہ عہد کر سکتے ہیں کہ، انہیں مفت پڑھائیں گے، روزانہ کی بنیاد پر یا ہفتہ وار اپنا وقت دیں گے۔ کچھ نجی ادارے فلاح و بہبود اور تعلیم کے لیے خاص طور پر کام کر رہے ہیں آپ ان اداروں کے دست و بازو بن سکتے ہیں اور ان معصوم بچوں کو پاکستان کا روشن مستقبل بنا سکتے ہیں۔ 

سوشل میڈیا استعمال کرتے ہیں تو لوگوں کو اس بھلائی کی طرف راغب کریں،یہ بھی ایک فلاحی کام ہوگا۔ رمضان المبارک اور عید کی خوشیوں کے موقع پر مختلف پیکجز مستحقین تک پہنچائیں۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی یاد رکھیں کہ جب ان کی مدد کر رہے ہوں تو انہیں صرف خیرات نہ دیں، تصاویر کھنچواکر سوشل میڈیا پر نہ ڈالیں اُن کی خوداری کو ٹھیس نہ پہنچائیں، بلکہ ان کے ساتھ ایسا سلوک کریں کہ وہ خود کو کسی سے کمتر نہ سمجھیں۔ اس کے علاوہ اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر مہمات چلائیں اور عید کے موقع پر کسی غریب محلے میں جاکر مستحق افراد کو تحائف یا مدد فراہم کریں۔

یقین کیجیے، نوجوان اگر صرف اپنی زندگی کے خوابوں میں ہی نہ الجھیں، بلکہ اپنے خوابوں میں دوسروں کی بھلائی کو بھی شامل کریں۔ فلاحی سرگرمیاں صرف ایک نیکی کا عمل نہیں، بلکہ یہ وہ طاقت ہے جو نوجوانوں کی شخصیت کو نکھارتی ہے، انہیں لیڈرشپ سکھاتی ہے اور حقیقی معنوں میں کامیاب انسان بناتی ہے۔ 

رمضان المبارک اور عید کی خوشیوں کا موقع ہی وہ وقت ہے کہ نوجوان اٹھیں، کچھ نیا کریں، اور اپنے حصے کا چراغ جلائیں، کیونکہ جب اس موقع پر آپ کسی یتیم کے چہرے پر خوشی لاتے ہیں، کسی نادار کو امید دیتے ہیں، اور کسی ضرورت مند کے لیے آسانی پیدا کرتے ہیں، تب ہی آپ حقیقی خوشی حاصل کرسکتے ہیں۔