• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

رات کے اندھیرے میں کراچی کی سڑکیں ہمیشہ کی طرح روشن تھیں، مگر اُس رات روشنیوں میں ایک سایہ ایسا غائب ہوا جو پھر کبھی واپس نہ آیا۔ ڈیفنس کی پُرشکوہ گلیوں میں، گاڑیوں کے شور اور کیفے کی روشنیوں کے بیچ ایک نوجوان مصطفیٰ عامر اپنی منزل کی طرف روانہ تھا، کسی کو خبر نہ تھی کہ یہ سفر اُس کی زندگی کا آخری سفر بننے جا رہا ہے صبح ہوگئی، گاڑی مالک سمیت غائب، فون بند، گھر والے پریشان، ایک دن، دو دن، پھر ہفتے گزر گئے، مگر مصطفیٰ عامر واپس نہ آیا۔

سوشل میڈیا پر تصاویر گردش کرنے لگیں،’’اگر کسی کو نظر آئے تو اطلاع دیں‘‘ جیسے پیغامات پورے شہر میں پھیل گئے، پھر ایک دن بلوچستان کے علاقے حب کے قریب، جلی ہوئی ایک گاڑی ملی اندر ایک لاش تھی، جس نے پورے شہر کو ہلا دیا۔ لاش مصطفیٰ عامر کی تھی، یہ کوئی حادثہ نہیں، ایک خوفناک منصوبہ بند قتل تھا۔ دوستوں کی دوستی میں چھپا دھوکہ، منشیات کے کاروبار کی کالی دنیا، اور کراچی کی چمکتی سڑکوں کے نیچے چھپے اندھیرے ۔یہ کہانی صرف ایک قتل کی نہیں، بلکہ اُس نظام کی ہے جو نوجوانوں کو خواب دکھا کر اندھی راہوں میں دھکیل دیتا ہے۔

مصطفےٰ عامر6 جنوری 2025 کو کراچی کے علاقےڈی ایچ اے سے اچانک لاپتہ ہوا۔ اہلِ خانہ کے مطابق وہ اپنے دوست ارمغان سے ملنے گیا تھا، جس کے بعد اس کا کوئی پتہ نہیں چلا۔ ڈیفنس کے بلند و بالا بنگلے، اور نوجوانوں کے خوابوں سے بھری محفلیں ان ہی میں دو نوجوان، مصطفیٰ عامر اور ارمغان، ایک دوسرے کے قریب آئے۔ دونوں کے خواب بڑے تھے۔

ٹیکنالوجی، بزنس، اور دولت کی تیز رفتار دنیا میں کچھ کر دکھانے کے۔23 سالہ نوجوان مصطفیٰ ذہین، پُرسکون اور منصوبہ ساز نوجوان تھا، جبکہ ارمغان میں الگ قسم کی توانائی تھی یعنی خطرہ مول لینے کا جذبہ، طاقت کا شوق، اور جلد کامیابی کی بھوک۔ وہ مختلف آن لائن بزنس اور کال سینٹرز کے ذریعے پیسہ کمانے کے منصوبے بناتے تھے یہ دوستی آگے بڑھی، مگر قسمت نے دونوں کے رشتے کو ایک بھیانک موڑ پر لا کھڑا کیا۔

پولیس نے جب تحقیقات کیں تو سب راستے ارمغان کی طرف گئے۔سی سی ٹی وی فوٹیج میں دیکھا گیا کہ مصطفیٰ ارمغان کے گھر گیا، مگر واپس نہیں نکلا۔ اسی گھر سے خون کے دھبے، کپڑے، اور شواہد ملے۔ ارمغان قریشی کے خلاف غیرقانونی کال سینٹر چلانے اور منی لانڈرنگ کے الزامات تھے۔ ان کا ایک اور دوست شیراز بھی اس قتل میں براہ راست ملوث تھا ۔ارمغان کو دولت اور شہرت کی جلدی تھی۔

وہ کامیابی کے لیے شارٹ کٹ ڈھونڈ رہا تھا اور جب اختلافات ہوئےتو اس نے برداشت کے بجائے خون کا راستہ چنا۔ یہ صرف ایک قتل کی واردات نہیں بلکہ یہ اس مافیا کی تہہ در تہہ کہانی ہے، جہاں جرم صرف گولی یا چاقو سے نہیں، بلکہ کمپیوٹر، لیپ ٹاپ، اور جعلی شناخت سے بھی کیا جاتا ہے۔ اس سے ڈیجیٹل مافیا پر سے پردہ اٹھا۔ ارمغان قریشی نہ صرف ایک قاتل بلکہ ایک ایسے نیٹ ورک کا حصہ نکلا جو پاکستان میں بیٹھ کر غیرملکی شہریوں سے فراڈ کرتا رہتا تھا۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہےکہ صرف 20 سے کچھ اوپر عمر کا نوجوان اتنے بڑے نیٹ ورک کا مالک کیسے بن گیا؟ ارمغان اچانک مجرم نہیں بنا۔ یہ ایک طویل عمل تھا،جہاں حرص، انا، بری صحبت، غصہ، اور کمزور تربیت نے مل کر اسے اندھیرے کی طرف دھکیل دیا۔ ایسے نوجوانوں میں طاقت، اور غصے کی شدت اتنی بڑھ جاتی ہے کہ وہ جرم کو مسئلے کا حل سمجھ لیتے ہیں۔ ارمغان قریشی کو سزا ہوگی یا یہ بھی ایک اور طاقتور کا معافی نامہ بن جائے گا۔ اس بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا۔

یہ ایک واقعہ نہیں، لاتعداد واقعات ایسے منظرِ عام پر آئے جو نوجوانوں کے درمیان بڑھتے ہوئے اعتماد کے بحران، لالچ اور غلط کمپنی کی نشاندہی کرتے ہیں۔ تعلیم یافتہ نوجوان جب آسانی سے دولت مند بنناچاہیں تو انجام ہمیشہ بھیانک ہوتا ہے۔ آج کے دور کے نوجوانوں کو مالی دباؤ اور نفسیاتی عدم توازن نے انہیں خطرناک حد تک بے حس بنا دیا ہے۔ مصطفیٰ کا کیس اس کی واضح مچال ہے۔

حالات و واقعات سے اندازہ ہو رہا ہے کہ ،آج کے جدید دور میں جرائم کی بڑھتی ہوئی شرح دنیا بھر میں معاشرتی امن کے لیے ایک بڑا چیلنج بن چکی ہے۔ جرائم کی دنیا میں نوجوانوں کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ وہ نسل جس سے ملک و قوم کے مستقبل کی امیدیں وابستہ کی جاتی ہیں، جب وہی تاریک راہوں پر چل پڑے تو معاشرے کے توازن اور ترقی پر بہت بڑا سوالیہ نشان لگ جاتا ہے۔ 

ایسے معاشرے میں پروان چڑھنے والانوجوان اپنے حالات سے غافل نہیں ہوتا، بلکہ اپنے بدتر حالات کو بدلنے کے لئے غلط راہوں کا انتخا ب کر لیتا ہے، یہی وجہ ہے کہ حالات کے ستائے بیش تر نوجوان تعلیم کے بجائے غلط راہ پر چل پڑے ہیں۔چوری، ڈاکے، لوٹ مارمیں ملوث ہوگئے ہیں۔ 

یہ ایک ایسا المیہ ہے، جسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ تلخ حقیقت یہ ہے کہ لوٹنے والے بھی زیادہ تر نوجوان اور لٹنے والے بھی نوجوان ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟ نوجوان کیوں جرائم کی دنیا میں داخل ہوگئے ہیں۔ اس کی چند وجوہ ہیں ۔ آئیے ان کا جائزہ لیتے ہیں۔

غربت اور بے روز گاری

آج کے دور میں معاشی مشکلات، بڑھتی ہوئی مہنگائی اور روزگار کے مواقع کی کمی نے نوجوانوں کو شدید ذہنی دباؤ میں مبتلا کر دیا ہے۔ ایک نوجوان جب دن رات دوڑ دھوپ کے باوجود روزگار حاصل نہیں کر پاتا تو اس کے ذہن میں مایوسی اور بے چینی جنم لیتی ہے، یہی مایوسی اسے کبھی کبھی جرائم کی دنیا میں داخل کر دیتی ہے۔ غربت میں پلنے والے نوجوان اکثر بنیادی سہولتوں جیسے تعلیم، صحت اور خوراک سے محروم رہتے ہیں۔ 

جب یہ کمی حد سے بڑھتی ہے تو وہ اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے جرم کی راہ اختیار کرلیتے ہیں اور چوری، ڈکیتی یا منشیات فروشی جیسے جرائم میں ملوث ہوجاتے ہیں۔ غریب نوجوان جب اپنے ہم عمر ساتھیوں آسائشوں میں دیکھتے ہیں تو ان کے دل میں احساسِ کمتری جنم لیتا ہے، جو اکثر بغاوت کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔

اشرافیہ کی اولاد کی طرح کو قیمتی گاڑیوں میں گھومنے پھرنے کی خواہش، برانڈڈ کپڑے پہننا وغیرہ اُنہیں بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیتی ہے جب ان کی خواہشات جائز طریقے سے پوری نہیں ہوتیں تو وہ ناجائز ذرائع سے پوری کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور وہ کچھ کر جاتے ہیں جو اُنہیں مجرم بنادیتی ہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ غربت اور بے روزگاری بھی نوجوانوں کو مجرم بنا رہی ہے۔

والدین کی لا پرواہی اور بے توجہی

اگر ہم معاشرتی حالات کا جائزہ لیں تو یہ حقیقت بھی سامنے آتی ہے کہ نوجوان کا کردار زیادہ تر گھر کے ماحول اور والدین کی توجہ پر منحصر ہوتا ہے لیکن جب والدین کی آپس میں ناچاقی ہو، محبت اور توجہ کی کمی، تنہائی، عدم تحفظ کا سامنا اوربے توجہی اُن کو محبت اور سکون سے محروم اور بے جا سختی ان کے اندر بغاوت پیدا کر دیتی ہے۔

ان کے درمیان فاصلہ بڑھ جاتا ہےاور وہ گھر سے باہر سکون تلاش کرتے ہیں جو اکثر بُرے دوستوں کی صحبت کا سبب بنتی ہے جو انہیں جرائم کی دنیا میں دھکیل دیتے ہیں۔ گھریلو ناچاقیاں، معاشرتی نا ہمواریاں، ذہنی انتشار، مایوسیاں، یہ وہ عناصر ہیں جونوجوانوں کو جرائم کی طرف دھکیل رہے ہیں۔

موبائل اور انٹر نیٹ کا استعمال

موجودہ دور ٹیکنالوجی اور ڈیجیٹل دنیا کا دور ہے۔ موبائل فون اور انٹرنیٹ زندگی کا لازمی جزو بن چکے ہیں۔ یہ آلات جہاں سہولتیں فراہم کرتے ہیں، وہیں ان کے غلط اور بے جا استعمال نے معاشرے خصوصاً نوجوانوں کے لیے نئے مسائل کو جنم دیا ہے۔ بیش تر نوجوان فلموں اور ڈراموں میں دکھائے جانے والے جرائم کو حقیقت میں دہرانے کی کوشش کرتے ہیں۔ 

سوشل میڈیا پر ، تشدد اور فراڈ کے نت نئے طریقے دیکھ کربھی انہیں آزماتے ہیں۔ سائبر کرائمز بھی حالیہ دہائیوں میں دنیا کے بدلتے ہوئے ڈیجیٹل منظرنامے کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ ان میں ہیکنگ، فراڈ، جعلی اکاؤنٹس بنا کر بلیک میلنگ، آن لائن چوری، فیک نیوز پھیلانا، یا کسی کی ذاتی معلومات کو غلط استعمال کرنا وغیرہ شامل ہے۔ جیسے جیسے ڈیجیٹل ٹیکنالوجی میں ترقی ہوئی، ویسے ویسے مجرموں نے بھی اپنے طریقے بدلنا شروع کر دیئے اور نئے جرائم منظر پرآنا شرو ع ہوگئے۔ 

انسٹاگرام اور دیگر پلیٹ فارمز پر لوگوں کو بلیک میل کرنا، ان کی تصاویر اور ویڈیوز کا غلط استعمال کرنایا پیسے ہتھیانے کے لیے فراڈ کرنا، یہ سب کچھ زیادہ تر نوجوانوں کے ہاتھوں ہو رہا ہے۔ فارغ نوجوان آن لائن فراڈ کو اپنا روزگار بنا لیتے ہیں۔ وہ پیسے کی لالچ میں یہ راستہ اختیار کرلیتے ہیں۔ اس کی ایک مثال مشہور یو ٹیوبر سعد الرحمان المعروف ڈکی بھائی کی ہے۔

اس کی گرفتاری نے آن لائن دنیا میں ہلچل مچا دی۔ لاکھوں سبسکرائبرز رکھنے والا یہ نوجوان، جو مزاحیہ ویڈیوز اور گیمنگ کنٹینٹ سے مشہور ہوا، اب سائبر کرائم، غیر قانونی ایپس کی تشہیر اور مالی فراڈ کے الزامات کا سامنا کر رہا ہے۔اس نوجوان نے ان ایپس کے اشتہارات اور پروموشن کے عوض بڑی مالی رقوم وصول کیں۔

اسی طرح ایک اور یو ٹیوبر رجب بٹ کے خلاف نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی (این سی سی آئی اے) نے جوا اور سٹے بازی والی ایپس کی تشہیر کے الزام میں مقدمہ درج کیا۔اس نوجوان پر الزام ہے کہ اس نےسوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر ویڈیوز اور اشتہارات کے ذریعے عوام کو غیر رجسٹرڈ ایپس میں سرمایہ کاری کی ترغیب دی، جس کے باعث متعدد افراد کی محنت کی کمائی ضائع ہوگئی۔ یہ واقعات ڈیجیٹل انفلوئنسر کلچر کے ایک خطرناک پہلو کی نشاندہی کرتے ہیں۔

معاشرتی نا انصافی

معاشرتی استحصال بھی نوجوانوں کے لیے ایک سنگین مسئلہ ہے۔ طبقاتی فرق نے نوجوانوں کے لیے ترقی کی راہیں محدود کر دی ہیں۔ سفارش کلچر نے نوجوانوں کے لیے میرٹ پر ترقی کو ناممکن بنا دیا ہے۔ انصاف کا بنیادی تقاضا یہ ہے کہ حقدار کوحق ملے۔ اگر طالب علم نے اچھے نمبر لیے ہیں تو اسے میرٹ پر اچھے کالج میں داخلہ ملے۔ اگر کسی نے تعلیمی میدان میں اچھی کارکردگی دکھائی ہے تو اسے بغیر سفارش ملازمت ملے۔ 

جب ایک محنتی نوجوان یہ دیکھتا ہے کہ اُسے اُس کا حق نہیں مل رہا، رشوت، سفارش یا طاقت کے زور پر نااہل لوگ کامیاب ہو رہے اور اہل ناکام ہورہے ہیں تو اس کے دل میں نفرت اور بغاوت جنم لیتی ہے۔ وہ سوچتا ہے کہ جب قانون پر چلنے والے ناکام ہیں تو پھر قانون توڑ کر کیوں نہ کامیاب ہوا جائےاور پھر وہ کچھ کر گزرتا ہے جو اُسے شریف سے مجرم، با کردار سے بد کردار بنا دیتا ہے۔

نفیساتی مسائل جرائم کا سبب

بیش ترنوجوان اضطراب، ڈپریشن، اور ذہنی دباؤکا شکار ہیں دورانِ تعلیم اُنہیں کیریئر بنانے کے لیے والدین کی توقعات اور سماجی دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جب یہ دباؤ حد سے بڑھ جاتا ہے تو وہ ذہنی تناؤ، بے چینی، ڈپریشن اور غصے کا شکار ہوجاتے ہیں۔

عموماََ والدین اپنے بچوں کو سب سے بہتر دیکھنا چاہتے ہیں جس کی وجہ سے وہ ان پر دباؤ ڈالتے ہیں کہ وہ اپنے تعلیمی ادارے میں نمایاں پوزیشن حاصل کریں ۔ ان کی یہ خواہش دباؤ کا سبب بنتی ہے اور انہیں نفسیاتی مریض بنا دیتی ہے۔ حد سے زیادہ بڑھا ہوا پریشر بچوں کی ذہنی و جسمانی صحت پر بھی اثر انداز ہوتا ہے۔

ان میں بڑھتی ہوئی مایوسی، نفسیاتی اورذہنی مسائل کی وجوہات اور ان کا حل تلاش کرنا ضروری ہے ۔۔ والدین کو چاہیے کہ وہ اپنی اولاد کی رہنمائی کریں، نیز تعلیمی اداروں کو صرف ڈگری دینے کے بجائے طلبہ کی کردار سازی اور اخلاقی تربیت پر بھی توجہ دینی چاہیے۔ 

حکومت کو نوجوانوں کے لیے روزگار کے مواقع زیادہ سے زیادہ پیدا کرے، تاکہ وہ جرائم کے بجائے محنت سے اپنی زندگی بنا سکیں۔ نوجوانوں کو جرائم سے روکنے کا حل صرف گرفتاریاں اور سزائیں ہی نہیں بلکہ طبقاتی معاشرے کو ختم کرکے اہل نوجوانوں کو ان کے خوابوں کے مطابق ایک آسودہ زندگی گزارنے کے مواقع فراہم کرنا ہے۔ 

اگر نوجوانوں کو روزگار، تعلیم، تربیت اور مثبت مواقع فراہم نہ کیے تو مستقبل میں یہ مسئلہ مزید پے چیدہ ہوسکتا ہے۔ نوجوانوں کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے خوابوں اور زندگی کو جرم کی تاریک راہوں میں ضائع کرنے کے بجائے محنت، ہنر اور جدوجہد کے ذریعے اپنا اور اپنے ملک کا مستقبل سنواریں۔