عائشہ سیف
’’امی، ابو عید مبارک۔‘‘ کیا ہو گیا ہے، نیند میں کیوں بڑبڑا رہے ہو‘‘ انس نے فیاض کو جگاتے ہوئے کہا، اس کی آنکھ کھلی تو اسے خیال آیا کہ وہ پاکستان میں نہیں بلکہ اپنوں سے دور دیارِ غیر میں ہے۔ وہ آنکھیں مسلتے ہوئے گم سم بیٹھ گیا، ’’کیا ہوا؟ انس نے اس کے پاس بیٹھتے ہوئے پوچھا۔ بہت پیارا خواب تھا، میں اپنے ملک میں تھا، جہاں عید پر والدین کو عید مبارک کہہ رہا تھا۔فیاض کی آنکھوں میں آنسو آگئےجب میں اور ابّو عید کی نماز پڑھ کر لوٹتے تھے، تو چھوٹی بہن بے صبری سے عیدی لینے کا انتظار کر رہی ہوتی تھی۔
جانتے ہو انس، بہت یاد آتی ہے۔ بیرون ملک آنا، یہاں نوکری کرنا میری مجبوری تھی، میں نے دن رات محنت کی، تاکہ میں اچھی سی ملازمت حاصل کر سکوں میں نے اپنے ملک میں بہت کوشش کی لیکن ناکام رہا اس لیے کوشش کر کے یہاں آگیامیرے ابو نے ہمارے لیے بہت محنت کی تھی۔
میں سوچتا تھا کہ پڑھ لکھ کر میں ان کے کاندھوں کا بوجھ ہلکا کروں گا اپنے چھوٹے بہن بھائی کے لیے بہت محنت کروں گا اُن کو ہر آسائش فراہم کروں گا، جب یہاں آرہا تھا، تو امّی کی آنکھیں آنسوؤں سے بھری ہوئی تھیں، ابّو کا ادا س چہرہ بھی یہ بتا رہاتھا کہ وہ مجھے روکنا چاہتے تھے لیکن کچھ کہہ نہ سکے۔
یہاں آنے کی بنیادی وجہ زیادہ پیسے کمانا تھا، میں امّی کے ہاتھ میں زیادہ پیسے رکھنا چاہتا تھا تاکہ وہ اپنے ارمان جو اب تک ہم بہن بھائیوں کی ضروریات پوری کرنے کی وجہ سے مارتی رہی ہیں نہ ماریں۔ ابّو نے بہت محنت کرلی۔ ہماری خواہشات پوری کرنے کے لیےجدجہد کرتے رہے اپنی ضروریات کو پس پشت ڈالتے رہے، میں دیارِ غیر اس لیے آگیا، تاکہ، میرے اپنوں کے صبح و شام پُرسکون گزریں۔
کل عید ہے، دل چاہتا ہے کہ اپنوں کے ساتھ مناؤں، مگر پھر خیال آتا ہے کہ جانے میں جتنا خرچہ ہوگا اس سے بہتر ہے کہ میں وہی پیسے بچا کر اپنے گھر والوں کو بھیج دوں، یہ کہتے ہوئے دونوں نوجوان ایک دوسرے کے گلے لگ کر رونے لگے، مگر ان کے آنسو پوچھنے والا کوئی اپنا نہ تھا۔ یہ کہانی کسی ایک نوجوان کی نہیں بلکہ ہمارے ملک کے نہ جانے کتنے نوجوانوں کی ہے، جو مالی تنگ دستی یا اپنے ملک میں معقول تنخواہ پر نوکری نہ ملنے کے باعث دیار غیرمیں ملازمت کرنےپر مجبور ہیں۔
اپنے گھر والوں کو پر آسائش زندگی دینے کے لیے دیارِ غیر میں شدید محنت کر رہے ہیں۔ وہ اپنوں سے دور ایسی عید مناتے ہیں جہاں ان کی عید اپنے گھر والوں کو یاد کرتے گزر جاتی ہے، اگر اپنے ہی ملک میں نوجوانوں کو تعلیم و روزگار کے بہتر مواقع میسر آجائیں تو اپنوں سے دور کون رہنا چاہے گا؟ تہواروں کا مزاصرف اپنوں کے ساتھ ہی آتا ہے، پھر بھی چند پیسوں کی بچت کے لیےہزاروں نوجوان اپنوں سے دور رہ کرروکھی، سوکھی،عیدمنانے پر مجبور ہیں۔ پردیس کے خواب بہت سہانے ہوتے ہیں لیکن حقیقت اس کے برعکس ہوتی ہے۔
سوچیں ایسا تانا بانا بنتی ہیں کہ انسان حیران رہ جاتا ہے لیکن جب حقیقت سے واسطہ پڑتا ہے تو چودہ طبق روشن ہو جاتے ہیں۔ ایک طرف محبتیں ہوتی ہیں تو دوسری طرف ان محبتوں سے جڑی مصلحتیں۔ عید آتی ہے توپردیس میں بیٹھے متعدد نوجوان تڑپ جاتے ہیں۔ نہ تو شوال کا چاند نظر آنے کی بے تابی، نہ چاند رات کی رونق، نہ ہی آخری پہر تک کی تیاری۔ دیار غیر میں نہ ہی وطن عزیز کی عید جیسی صبح ہوتی ہےاور نہ ہی ویسااُجلا ، نہ ہی میٹھی چیزوں میں وہ میٹھاس اور نہ ہی نماز عید کے لیے اٹھتے ہوئے قدموں میں وہ رمق ہوتی ہے۔
تہوار منانے کا جو مزہ اپنے دیس میں اپنے لوگوں کے بیچ ہے وہ دنیا کے کسی بھی کونے میں نہیں ہے۔ اس عید بھی بہت سے نوجوان اپنے گھروالوں سے دور دیار غیر میں عید منائیں گے، ایسا نہیں کہ وہ بالکل تنہا ہوں گے، ان کے ساتھ چند اور نوجوان ، دوست بھی ہوں گے، لیکن گھر والے تو نہیں ہوں گے،ویڈیو کال کے ذریعے اپنے پیاروں سے باتیں ہوں گی، جب کال بند ہوجائے گی تو آنکھیں پُر نم ہو جائیں گی۔
شاید سارا دن بچپن کی عیدیں یاد کرنے، میں گزرے، خیالوں کے پرندے اڑ اڑ کر تھک جائیں گے، مگر یاد آتی رہے گی۔ دیار غیر میں تمام مادی سہولتوں کے باوجود انسان اپنوں کی محبت اور وطن کی مٹی کی مہک کا متلاشی رہتا ہے، ایسے میں اگر وطن عزیز سے کوئی یاد کرلے تو ایسی کیفیت ہوتی ہے جیسے زہر آلودہ جسم میں تریاق کا قطرہ اور پھر ان کی طرف سے پوچھا جانے ولا یہ سوال ’’عید کیسی گزر رہی ہے؟‘‘ کہ جواب میں اپنے احساسات و جذبات کو چھپاتے ہوئے، رندھی ہوئی آواز میں حلق سے صرف یہی الفاظ نکلتے ہیں ’’بہت اچھی‘‘۔
پردیس میں رہنے والے ہی شدت سے اس بات کا اندازہ لگا سکتے ہیں کہ گھر والے، دوست ،محلے والے کیا ہوتے ہیں، ان کے ساتھ گزارے ہوئے میٹھے پل کیا ہوتے ہیں۔ جب تک ہم اپنے گھر والوں کے درمیان ہوتے ہیں تب تک ان لمحوں کی وقعت کا اندازہ نہیں ہو پاتا، مگر ان پلوں کا احساس ان کے گزر جانے کے بعد ہوتا ہے۔ نوجوان دوستو! اگر آپ اپنے دیس میں ، اپنوں کے ساتھ عید منا رہے ہیں، تو ان کی قدر کیجیے، ان قیمتی لمحات کو ضائع نہ کیجیئے۔