کیمرے، موبائل، انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا نے دنیا کو بدل کر رکھ دیا ہے، اس بدلتی دنیا میں جہاں آسانیاں پیدا ہوئیں، وہیں کئی پُر خطر رجحانات بھی سامنے آئے، جن میں سیلفی کلچر بھی ایک نمایاں مثال ہے، جو خاص طور پر نوجوان نسل میں خطرناک حد تک بڑھتا جا رہا ہے۔’’ایک سیلفی ہو جائے‘‘۔‘
یہ فقرہ جدید اسمارٹ فونز کی آمد کے بعد بالخصوص نوجوانوں اور ٹین ایجرز کے درمیان ہونے والی گفتگو میں اکثر سنائی دیتا ہے۔ نسلِ نو ہر لمحہ اپنی زندگی کو کیمرے کی آنکھ میں محفوظ کرنے کی کوشش میں مصروف ہے۔ سیلفی لینا اس نسل کامعمول بن چکا ہے۔ کبھی صبح جاگتے ہی، کبھی کھانے کے ساتھ، کبھی بازار میں، اور کبھی کسی تقریب میں سیلفیاں ہی بناتے رہتے ہیں۔
نوجوانی کی عمر اپنے آپ کو ثابت کرنے، دوسروں سے مختلف اور نمایاں نظر آنے کی کوشش سے عبارت ہے۔ نوجوانوں کا ہر عمل، ہر تصویر، ہر کیپشن، اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ وہ خود کو بہتر سے بہتر ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ یہاں تک تو ٹھیک ہے کیوں کے ہر دور میں نوجوانوں میں خود نمائی کا شوق رہا ہے۔ مسئلہ تب شروع ہوتا ہے جب یہ حرکت جنون میں بدل جائے۔
اب یہ شوق محض تصاویر لینے تک محدود نہیں رہا، بلکہ یہ ، تشہیر کی بھوک اور خطرات کو دعوت دینے والی عادت بنتا جا رہا ہے۔اس کے سحر میں نہ صرف نوجوان بلکہ ہر شعبے اور طبقے کے افراد بھی جکڑے ہوئے ہیں۔ ہر شخص سیلفی کے بخار میں مبتلا ہے۔ سب ہی خصوصاََ نوجوان اس کے جال میں ایسا پھنسے ہیں کہ اب نکلنے کی کوئی صورت دکھائی نہیں دے رہی۔
آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر خود کو دیکھنا ان کے لیےنا کافی ہوگیاہے ،جب تک ڈیجیٹل آئینہ میں نہ دیکھ لیں انہیں اطمینان ہی نہیں ہوتا۔ آئینہ ہمیشہ سچ بولتا ہے۔ موبائل فون کے لینز سے لی جانے والی یہ تصویر، فلٹرز اور ایڈیٹنگ کے ذریعے ایک مصنوعی خوبصورتی میں بدل دیتی ہے۔
جب موبائل کیمرا ایجاد ہوا تو شاید کسی نے تصور بھی نہ کیا ہو گا کہ ایک دن یہ انسان کو موت کے راستے پر لے جائے گی۔ یہ رجحان اسمارٹ فونز اور سوشل میڈیا کے پھیلاؤ سے مقبول ہوا۔ انسٹاگرام، فیس بک، ٹک ٹاک اور اسنیپ چیٹ جیسے پلیٹ فارمز نے تصویر کو فوری اپ لوڈ کرنے اور دنیا بھر میں دکھانے کا موقع دیا۔
نوجوانوں کے لیے یہ خود کو نمایاں کرنے کا ایک آسان ہتھیار بن گیا۔جوان کی شخصیت، مزاج، رویے، اور کردار کو ہی بدل رہا ہے، یہ خود اعتمادی کے بجائے خود پسندی کےجراثیم بڑھانے کا سبب بن رہا ہے۔
نوجوان کئی بار اپنی تصاویر لیتے ، انہیں مختلف ایپلیکیشنز سے خوبصورت بناتے، فلٹرز لگاتے اور پھر سوشل میڈیا پر پوسٹ کرتے ہیں۔ ان پوسٹس پر لائکس، کمنٹس اور شیئرز ان کی خودساختہ خوشی کا ذریعہ بن چکی ہیں۔ ان کے چہروں پر مسکراہٹیں لائکس کی تعداد سے جڑی ہوتی ہیں، ان کی خوشی کمنٹس کی تعداد پر انحصار کرتی ہے۔ یہ رویہ نہ صرف ان کے اندر احساسِ کمتری کو جنم دے رہا ہے بلکہ انہیں ایک مصنوعی شخصیت میں تبدیل کر رہا ہے۔
اصل زندگی پس منظر میں چلی گئی ہے اور دکھاوے کی دنیا مرکزی حیثیت اختیار کر گئی ہے۔ نوجوان یہ سمجھتے ہیں کہ جتنے زیادہ لائکس ہوں گے، اتنے ہی وہ مقبول اور کامیاب ہوں گے۔ خواہ وہ تصویر جھوٹی مسکراہٹ یا مصنوعی فیلٹرز کا نتیجہ ہو۔
اس سے وقتی خوشی اور تسکین تو مل جاتی ہے، مگر اندر سے انسان مزید خالی اور غیر مطمئن رہتا ہے۔ کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اس میں سچ نہیں ہے، اس کے باوجود ایک بار جب اس کی لت لگ جاتی ہے تو وہ ہر نئی سیلفی میں زیادہ توجہ، زیادہ داد اور مقبولیت کی تلاش میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ نرگسیت نے ہر دور کے انسان کو اپنے آغوش میں لے کر اس سے بہت کچھ چھین لیا۔
سیلفی بھی اپنی ذات کا اشتہار بن چکی ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ مقابلہ بازی بھی ہے یعنی یہ سوچ کہ میرے دوست نے خوبصورت تصویر اپلوڈ کی ہے، مجھے بھی ویسی یا اس سے بہتر تصویر لگانی چاہیے۔یہ مقابلہ دراصل ایک خاموش جنگ ہے، جو دکھائی نہیں دیتا، مگر نوجوانوں کی ذہنی صحت کو اندر ہی اندر چاٹ رہا ہے۔
اس مقابلے میں اکثر نوجوان خود کو کمتر، ناکام، یا غیر اہم محسوس کرنے لگتے ہیں اور اسی کمی کو پورا کرنے کے لیے وہ سیلفیوں کی بھرمار کر دیتے ہیں، جس سے نہ صرف اخلاقی اور نفسیاتی بلکہ تعلیمی نقصان بھی ہو رہا ہے۔ طلبہ کلاس میں بیٹھے ہوئے سیلفی لیتے ہیں۔ مطالعے کے بجائے کیمرے اور فلٹرز میں وقت گزارتے ہیں۔
ہر وقت اپنی شکل، کپڑوں، زاویوں اور پوسٹس میں الجھے رہیں گے، تو وہ اپنے اندر کے انسان، اپنی تعلیم، اپنے خوابوں اور اصل زندگی سے کیسے جڑیں گے؟ ایک وقت تھا جب لوگ آپس میں باتیں کرتے ، وقت گزارتے تھے، اب ایسی محفلیں پوز لو، کلک کرو، فلٹر لگاؤ میں بدل چکی ہیں۔
اصل آئینہ وہ ہے جو ہماری آنکھوں میں جھانکے، ہمارے کردار کو دکھائے، اور ہماری محنت، قربانی اور اخلاقیات کی تصویر بنے۔ لیکن سیلفی کا یہ جادو ہمیں ایسی دنیا میں لے گیا ہے جہاں اصل سے زیادہ نقلی چیزوں کی قدر ہے۔
یہ نوجوانوں کوکرتب بازی کی طرف راغب کرنے کا باعث بن رہی ہے۔وہ ایسی سیلفی جو سب کو حیرت میں ڈال دے،بنانے سے باز نہیں رہتے۔ خطرناک مقامات پر سیلفی لینے کو اپنے لئے اعزاز اور زندگی کا سب سے بڑا کارنامہ تصور کرتے ہیں۔
جب یہ شوق سیکورٹی اور سیفٹی کی حد پار کر گیا تو حادثات شروع ہوگئے۔ انفرادیت کی تلاش میں کئی نوجوان یا تو جان سے چلے گئے یاپھر زندگی بھر کی معذوری ان کامقدر بن گئی۔ ایسے کئی کیسز منظرِ عام پر آئے ہیں، کچھ منفرد دکھانے کے چکّر میں نوجوان نت نئے خطرے مول لے رہے ہیں۔
مثلاََبلند عمارتوں، ریل کی پٹریوں، پُلوں یا چلتی گاڑیوں کے قریب سیلفی لینا اب عام ہو گیا ہے۔ صرف ایک سنسنی خیز تصویر کے لیے زندگی کی بازی لگا دینا دانشمندی نہیں، بلکہ نادانی ہے۔ یہ صورتحال ایک ایسے سماج کی عکاسی کرتی ہے، جہاں نوجوانوں کی توجہ دکھاوے، نمائشی انداز اور سطحی خوبصورتی پر مرکوز ہو گئی ہے۔
نوجوانوں میں اسلحہ کے ساتھ سیلفی لینے کا رجحان بھی بڑھتا جارہا ہے اور حادثاتی گولی لگنے سے ہلاکتوں کے کئی واقعات رونما ہوئے لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ نوجوان اس خطرے سے واقف ہونے کے باوجود، لائکس اور فالوورز کی دوڑ میں اپنی جان داؤ پر لگا رہے ہیں۔
رواںبرس چکوال کے لکھوال ڈیم میں سیلفیاں لیتے ہوئے دو نوجوان پاؤں پھسل کر ڈیم میں جاگرے اور جاں بحق ہوگئے۔ یہ واقعہ سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ کیا ایک تصویر، ایک لمحے کی سیلفی، پوری زندگی سے زیادہ قیمتی ہو سکتی ہے؟ یہ ایک خبر نہیں، بلکہ نوجوان نسل کے لیے ایک سخت تنبیہ ہے۔
آج کا نوجوان اس کا ایسا اسیر بن چکا ہے کہ خطرناک مقامات پر بھی بغیر سوچے سمجھے موبائل اٹھا کر تصویریں لینے لگتا ہے۔ایسے درجنوں واقعات نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں روزانہ رپورٹ ہورہے ہیں، بدقسمتی سے ان کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔وہ یہ سمجھتے ہیں کہ خطرناک یاایڈونچر سےپُر سیلفی پر زیادہ لائکس اور کمنٹس ملیں گے لیکن ایک لمحے کی غیر سنجیدگی، ایک غلط قدم،پلک جھپکتے ہی سب کچھ ختم کردیتاہے۔
جون 2025 میں پاکستان کی خوبصورت وادی سوات میں ایک خاندان کے چند نوجوان ایک یادگار سیلفی بنا رہے تھے لیکن لمحوں میں سیلابی ریلے نےسب کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ ایک تصویر جو لی نہ جا سکی، وہ لمحہ جو زندگی کا آخری لمحہ ثابت ہوا۔ چیخ و پکار، شور، بے بسی کی تصویر بن گیا۔ ہلاکت کی وجہ غیر محتاط طریقے سے ٹک ٹاک، تصویریں اور سیلفی بنانے کی خواہش بنی ۔ یہ کوئی معمولی حادثہ نہیں تھا۔
ایک سیلفی، ایک منظر اور اس کے بدلے 18 قیمتی جانیں۔اس کے علاوہ بھی کئی واقعات گاہے بہ گاہے سامنے آتے رہتے ہیں۔ رواں برس لاہور میں نوجوان چلتی ٹرین میں دروازے کے قریب کھڑے ہوکر سیلفی لیتے ہوئے کھمبے سے ٹکرا کرجاں بحق ہوگیا۔کراچی کے علاقے لانڈھی میں ریلوے ٹریک پر ایک شخص اپنےمعصوم بچے کےساتھ سیلفی بناتے ہوئے ٹرین کی ٹکرسے جان بحق ہوگئے۔ کیمرے میں محفوظ ہونے والی تصاویران کی آخری یادگار بن گئی۔
اپنے امروز کو کیمرے کی آنکھ سے محفوظ ضرور کیجئے لیکن اپنے آپ کو محفوظ رکھ کر، سیلفی لینا کوئی جرم نہیں، لیکن اس کا غیر محتاط اور جنون نسلِ نو کو موت کے منہ میں دھکیل رہا ہے۔ یہ ایک لمحۂ فکریہ ہے کہ ایک تصویرلینے کے شوق میں کتنی زندگیاں لقمۂ اجل بن رہی ہیں۔ نوجوانوں کو سمجھنا چاہیے کہ ان کی زندگی انمول ہے، تصویر یا ویڈیو جان سے زیادہ قیمتی نہیں۔
منظر کے انتخاب نے چھت سے گرادیا
سیلفی کے اشتیاق میں بندہ تمام شُد
(نوید ظفر کیانی )
خوشی کے لمحات کو محفوظ ضرور کریں، لیکن اپنے اور دوسروں کے لیے خطرہ بن کر نہیں۔ تفریح میں بھی احتیاط اور ذمہ داری کو نہ بھولیں۔ یاد رکھیں، زندگی دوبارہ نہیں ملتی تصویر دوبارہ بن سکتی ہے۔ زندگی کی سب سے خوبصورت تصویر وہ ہے جو محفوظ رہے نہ کہ وہ جو موت کا منظر بن جائے۔
سیلفی لیتے ہوئے انسان کا دماغ کئی چیزوں پر ایک ساتھ فوکس نہیں کر پاتا۔ اگر آپ پانی کے کنارے یا ٹرین کے پاس ہیں، تو ایک لمحے کی غفلت بھی حادثہ بن سکتی ہے۔
زندگی کو قید کرنے کے بجائے، حقیقت میں زندگی گزارنے کی طرف آئیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ نوجوان اس بات کو سمجھیں کہ زندگی صرف لائکس، فالوورز اور فیلٹرز کا نام نہیں ہے۔
اصل خوبصورتی وہ ہے جو انسان کے کردار، رویّے، علم، اخلاق، اور احساس میں چھپی ہوتی ہے۔ سوشل میڈیا پر نمود و نمائش کے پیچھے بھاگنا دراصل اپنے آپ کو کھو دینے کے مترادف ہے۔
والدین، اساتذہ اور معاشرہ بھی اس معاملے میں اپنا کردار ادا کریں۔ اگر نوجوانوں کو صحیح رہنمائی، توجہ اور اعتماد دیا جائے، تو وہ اپنی توانائیاں سیلفیاں بنانے کے بجائے حقیقی دنیا کو سنوارنے میں لگا سکتے ہیں۔