• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

روشن بازار،جگمگاتی دکانیں اور اسٹال، جن پر ہوتی تھی رنگ برنگے اور پر کشش عید کارڈز کی بہار، مگر یہ منظرنامہ اب صرف ماضی کی یادبن کررہ گیا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ یہ روایتی سرگرمیاں ماند پڑتی جا رہی ہیں، کیونکہ دنیا کروٹ لے چکی ہے، روایات کے بندھن توڑ چکی ہے۔ نئے دور میں داخل ہوچکی ہے، جسے ہم ’ڈیجیٹل ورلڈ ‘کہتے ہیں۔

جتنی تیزی سے دور بدل رہا ہے،زندگی کے دیگر پہلوؤں کی طرح عید بھی جدیدیت کے دور میں رنگ چکی ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ روایتی سرگرمیاں ماند پڑتی جا رہی ہیں، جس کے اسباب میں ہوش رُبا مہنگائی اور فکرِ معاش کے علاوہ آن لائن سرگرمیوں کی کثرت بھی شامل ہے یعنی ٹیکنالوجی کی نذر ہوگئی ہے۔

سماجی رابطوں کی ویب سائٹس کی وجہ سے دُنیا گلوبل ویلیج بن گئی ہے، نیز روابط قائم کرنا اور علوم و فنون تک رسائی آسان ہو گئی ہے، وہیں یہ عید اور دوسرے تہواروں سے جُڑی ہماری خُوب صورت روایات کو بھی نگل رہی ہے۔ مثال کے طور پراب روایتی عید کارڈز کی جگہ ڈیجیٹل عید کارڈز نے لے لی ہے۔

عید کارڈز گم تو ہوگئے، مگر انہیں یادوں سے نکالا نہیں جاسکتا، جنہوں نے عید کارڈ منتخب کرنے، لکھنے، بھیجنے، اور وصول کرنے کا لطف لیا ہے، وہ چند بٹن دبانے اور چند کلکس میں وہ لطف کبھی نہیں پا سکتے۔ سادہ الفاظ، دوریوں میں بھی رشتوں کو نہ بھولنے کا احساس دلاتے ہوئے جملے، محبت و الفت میں ناز و ادا سے گوندھی ہوئی تحریریں، انتظار کرتے عزیزوں پر شبنم کی طرح ٹھنڈی میٹھی قربتیں تخیل ہی میں سرشار کردیتیں تھیں۔ وہ محض کارڈز نہیں تھے جو اپنے پیاروں کو بھیجتے تھے، بلکہ اس میں چھپا پیار اور خلوص جو ان عید کارڈز کے ساتھ ایک شہر سے دوسرے شہر سفر کرتا تھا، دوسری طرف بھی منتظر پیارے اسی پیار سے ان کارڈز کے ملنے پر خوشی کا اظہار کرتے تھے اور جواب میں وہ بھی پیار بھرا کارڈ بھیجتے تھے۔

تیز رفتار زندگی میں اب کہیں کھو گیا ہے۔ وسائل ارزاں تریں، سہولتیں دستیاب لیکن رشتوں سے اپنائیت کے لیے وقت خواب ہوا، مصروفیت میں ڈیجیٹل اظہار ایک روایت کی شکل اختیار کرگیا، جیسے کاغذی پھول جس میں خوشبو کا کوئی اتا پتہ نہیں ۔دوا ہو یا فیصلہ سب کے سائڈ ایفکٹ ہوتے ہیں، ڈیجیٹل ورلڈ کابھی ایک سائڈ ایفکٹ یہ ہے کہ اس نئی تہذیب نے ہماری روایات کومٹا دیا ۔ اس حوالے سے نوجوانوں کی سوچ اور سرگرمیوں میں بھی تبدیلی آگئی ہے۔ان وہ جوش و خروش نظر نہیں آتا جو پہلے ہوتا تھا۔

جو خوشی ہوا کرتی تھی، وہ آج مفقود ہو چکی ہے ،اب شارٹ کٹ کا زمانہ ہے عید کی صبح ایک دوسرے کو واٹس ایپ پر عید مبارک کا پیغام بھیجا اور وصول کیا جاتا ہے۔جب چاند نظر آنے کا اعلان ہوتا ہے، تو تقریباً ہر فرد کے موبائل فون کی گھنٹیاں، کسی خاص رِنگ ٹون کی صُورت بجنے لگتی ہیں اور ہر شخص گردو پیش سے بے خبر اپنے اپنے موبائل فون میں گم ہو جاتا ہے۔

ایک دوست کی طرف سے آیا ہوا میسج کسی دوسرے دوست کو فارورڈ کر دیا جاتا ہے۔ نئے ملبوسات پہن کر رشتے داروں، دوستوں سے عید ملنے کی بہ جائے محض سیلفیزشیئر کر کے انہیں اپنا دیدار کروانے پر اکتفا کیا جاتا ہے۔ 

نئی نسل چند اِنچز کی اسکرین کے سامنے ہی عید کے پُرمسرّت لمحات گزار دیتی ہے اور اسی سرگرمی کو اہم تہوار کا حاصل سمجھتی ہے۔ سوشل میڈیا کی وجہ سے بالمشافہ رابطوں پر فرق پڑ رہا ہے۔ سماجی رابطوں کی ویب سائٹس تعلقات کا تاثر دیتی ہیں ، مگر اس تعلق داری میں کوئی گرم جوشی نہیں ہوتی۔اس چھوٹے سے آلے نے خیالات، اظہار، معاملات، ذہن، قلب اور سکون کو نہ صرف بدل ڈالا ہے، بلکہ اپنی تہذیب وتمدن کو بھی فراموش کردیا ہے۔

آج عید بہت مکینکل ہو گئی ہے، اس کی خوشی میں وہ خلوص اور فطری پن نہیں رہا جو پہلے ہوا کرتا تھا۔ضرورت اس بات کی ہے کہ اپنے پیاروں سے تعلق کومضبوط کرنے کی شعوری کوششوں کی جائے، ان بیش قیمت لمحات کو ڈیجیٹل ڈیوائسز کی نذر ہرگز نہیں کرنا چاہیے۔ نوجوانوں کی اکثریت بالخصوص شہر کے پوش علاقوں میں رہنے والی نوجوان نسل روایتی میلوں ٹھیلوں میں جانے کے برعکس سوشل میڈیا ہی سے لطف اندوز ہونے کو ترجیح دیتی ہے۔

انہیں click کا پتا ہے send کرنے delete ، error ،Gmail، Hotmail ،Facebook کا تو پتا ہے لیکن ڈاک کے ذریعے خط اور کارڈ بھیج کر جواب کا انتظار کرنے کی مشق نہیں، انٹر نیٹ کی دنیا نے نئی نسل کو اجتماعیت سے دور کرکے محض اپنی ذات تک محدود کردیا ہے۔ ہر چند کہ یہ تمام تبدیلیاں وقت کا تقاضا ہیں اور ہمیں ان کے ساتھ مطابقت پیدا کرنا ہو گی، لیکن ان تہواروں کی اصل رُوح بہر حال برقرار رہنی چاہیے۔

جیسے جیسے لوگ سوشل میڈیا کی زندگی میں مگن ہوتے جا رہے ہیں ویسے ویسے عید بھی ڈیجٹل ہوتی جا رہی ہے ۔ اب دَر و دیوار پر کارڈ سجانے کا زمانہ نہیں، اب ٹی وی کے آگے بیٹھ کے چاند نظر آنے کے اعلان کا انتظار کرنے کا زمانہ بھی نہیں۔ آج کا دور صرف موبائل کا دور ہے، جس میں دُنیا سمٹ آئی ہے۔ عید کی رونقیں اب سڑکوں پر کم اور سوشل میڈیا پر زیادہ نظر آتی ہیں۔ 

تہوار ہو اور وہ سوشل میڈیا کی زینت نہ بنے ایسا ممکن نہیں، اب توعید کے موقع پر بنائی جانے والی سوئیاں ، شیر خرما اور کھیر بھی پہلے سوشل میڈیا کی زینت بنتی ہیں جو پہلے ہمسایوں کو بھیجی جاتی تھیں۔ ہر شخص بس سوشل میڈیا ہی کے سحر میں گرفتار نظر آتا ہے۔کہیں رات گئے یہ سحر ٹوٹتا ہے، جب موبائل کی بیٹری دہائیاں دینے لگتی ہے۔

گھر اور وطن سے دور ایسے افراد جو اپنوں کے ساتھ عید نہیں منا سکتے، وہ سوشل میڈیا کا سہارا لے کر ان کو پیغامات بھیجتے اور تصاویر شیئر کرتے نظر آتے ہیں۔ ٹیکنالوجی ہی کی بہ دولت اَ ن گنت مائوں کا بیرونِ مُلک مقیم اپنے جگرگوشوں سے کسی بھی وقت رابطہ ممکن ہو گیا ہے، جنہیں دیکھ کر مائوں کے کلیجے میں ٹھنڈ سی پڑ جاتی ہے، وگرنہ پہلے تو ہفتوں بعد خطوط کے ذریعے ہی حال احوال پتا چلتا تھا۔ لہٰذا،اس اعتبار سے تو ٹیکنالوجی ہمارے لیے نعمت سے کم نہیں اور ہمیں اسے ایک دوسرے کو قریب لانے ہی کے لیے استعمال کرنا چاہیے۔

اپنے گرد وپیش سے بے نیازہو کر ہمہ وقت بے جان آلات ہی میں نہ کھوئے رہیں، اس بار ایسا کریں کہ موبائل فِری عید منائیں۔ یہ کہنا آسان ہے، لیکن عمل کافی مشکل ، بہرحال، اگر اِس طرف پہلا قدم اُٹھایا لیا جائے، تو یہ اِس بات کا اعادہ ہوگا کہ ہم نے ٹیکنالوجی سے فائدہ اُٹھانا ہے، اپنے آپ کو نقصان نہیں پہنچانا۔