• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

موبائل فون رابطے کی کنجی اپنوں سے دوری

موبائل پہ کرتے ہو کیوں وقت ضائع

یہ عادت فضول اور بےکار لَت ہے

کتابوں میں تم جی لگاؤ کہ پڑھنا

مفید اور دل چسپ مصروفیت ہے

(انور شعورؔ)

انسانی تاریخ، ایجادات سے بھری ہوئی ہے، مگر چند ایجادات ایسی ہیں، جنہوں نے صدیوں کے طرزِ زندگی کو بدل کر رکھ دیا ہے۔ موبائل فون بھی ان ہی میں سے ایک ہے۔ یہ چھوٹا سا آلہ آج کی دنیا کی سب سے بڑی ضرورت بن چکا ہے۔ کہنے کو تو انسان نے بہت تر قی کر لی ہے۔ 

اپنی ز ند گی کو سہل بنا نے کے لیے جد ت پسند ی میں اتنا زیادہ آ گے نکل گیا ہے کہ واپسی اب ناممکن سی لگتی ہے۔ 90ءکی دہائی تک موبائل فون ہر کسی کی دسترس میں نہ تھا۔ زندگی، آج کی نسبت کافی مختلف تھی۔ معلومات تک رسائی محدود اوردور داراز شہروں اور ملکوں میں رابطہ مشکل تھا، تاہم لوگ زیادہ سماجی تھے۔ 

گھر کے افراد ایک دسترخوان پر کھانا کھاتے اور ایک دوسرے کے مسائل اور خوشیاں بانٹتے تھے، پھر وقت نےکروٹ لی، نہ نالۂ بلبل ہی رہا اور نہ ہی شور و شرِ طائوس ہی باقی بچا، اب ہیں تو موبائل فون کی گھنٹیاں۔ نئے زمانے کی ہواؤں نے اب گھر کے بزرگوں کو ہی نہیں محلے والوں تک کو خاموش تعاون کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ دیکھا جائے تو ہم ڈیجیٹل قیدی بن چکے ہیں۔ 

ایک چھوٹے سے ڈبے میں قید ہو کر وہ سب کچھ کھو رہے ہیں جو حقیقت میں قیمتی ہے۔ بچے بڑے سب اس کے سحر میں گرفتار نظر آتے ہیں۔ اس کے باوجود ہمارے شکوئے، مجبوری بہانے ختم نہیں ہوتے۔ ہم ایک ایسے دور میں جی رہے ہیں جہاں انسان سے پہلے اس کا موبائل جاگتا ہے۔

گراہم بیل جس نے ٹیلی فون ایجاد کیا ،اس نے یہ سوچا بھی نہ ہوگا کہ آنے والی صدی میں اسٹیو جابز نامی شخص پیدا ہوگا جو اپنی ذہانت سے چھوٹی سی ڈیوائس بنا کر بڑے سے فون کو چھوٹی سی جیب میں منتقل کردے گا، لوگ اسے موبائل فون کی شکل میں اپنی جیب اور پرس میں لے کر پھرا کریں گے، اس کے بغیر خود کو ادھورا سمجھیں گے، ہو بھی یہی کچھ رہا ہے خصوصاََ آج کا نوجوان، جب صبح آنکھ کھولتا ہے تو پہلا لمس جو اسے زندگی کا احساس دلاتا ہے، وہ موبائل فون کا ہوتا ہے۔

اب اس ایجاد کی حیثیت الہٰ دین کے جن جیسی ہوگئ ہے۔ علم، رابطہ، کاروبار، تفریح، تعلیم، تحقیق اور روزگار، سب کچھ ایک چھوٹی سی اسکرین میں سمٹ گیا ہے، مگر جہاں سہولتیں بڑھیں، وہیں خطرات نےبھی جنم لے لیا۔ بدقسمتی سے آج کے نوجوان اس سہولت کو غلط طریقے سے استعمال کر کے خود اپنی زندگیوں کو برباد کر رہے ہیں۔ سوشل میڈیا، چیٹ ایپس، گیمنگ، ریسرچ اور تعلیمی سہولتوں کے ساتھ ساتھ موبائل نے نوجوانوں کو ایک نئی دنیا میں داخل کردیا ہے۔

اگر موبائل نہ ہوتا، تو آج کے نوجوان کیا کرتے؟ یہ سوال ہمیں سوچنے پر مجبور کرتا ہے۔ ذرا تصور کریں کہ نوجوانوں کے ہاتھوں سے موبائل لے لیاجائے، تو وہ کیا کریں گے، ان کی زندگی کیسی ہوگی؟ یہ سوچنا بھی آج کل کے نوجوان کے لیے کسی سزا سے کم نہیں۔ اس سوال کا جواب ہم نے چند نوجوانوں اور اساتذہ سے پوچھا، ہمارے سوال کے جواب میں جو کچھ انہوں نے کہا، وہ نظرِ قارئین ہے۔

پہلے نو جوانوں کے خیالات جانیے:

اویس قانون کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ، ’’اگر موبائل نہ ہوتا، تو شاید آج کا نوجوان بارش کے بعد کی مٹی کی خوشبو کو سونگھنے کا ہنر سیکھ لیتا۔ کمرے کی چار دیواری سے نکل کر گلی کے نکڑ پر بیٹھے دادا سے کوئی پرانا قصہ سنتا۔ تنہائی کے لمحے اُسے خود سے بات کرنا سکھا دیتے، بجائے اس کے کہ ہر خالی لمحے میں وہ اسکرین پر نیا کیا ہے، تلاش کرتا۔ 

وہ دوستوں کو emoji کی بجائے آنکھوں کے اشارے سے ہنسنا سکھاتا، اور کسی کی خیریت’’online‘‘ دیکھ کر نہیں، سامنے بیٹھ کر پوچھتا۔ ہو سکتا ہے کہ اس کے خیالات کی پرواز TikTok کے شارٹ کٹ سے نکل کر کسی طویل نظم میں ڈھل جاتی، وہ خواب دیکھتا، غور کرتا، سوال کرتا، وہ خود میں جیتا تو شاید خود کو پا لیتا۔‘‘

اسد الله صدیقی، مقامی یونی ورسٹی میں بی بی اے کے طالب علم ہیں، ان کا کہنا ہے کہ، ’’آج کا نوجوان موبائل کے بغیر زندگی کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ سونے سے پہلے، جاگنے کے بعد، پڑھائی کے دوران، کھانے کے وقت، یہاں تک کہ دوستوں کے ساتھ بیٹھے ہوئے بھی اُس کی نظر موبائل پر ہوتی ہے۔ اگریہ نہ ہوتا، توطالب علم پوری توجہ سے لیکچر سنتے۔ نوٹس کتابوں کوپڑھ کر بناتے، گوگل یا چیٹ جی پی ٹی پر ہر چیز تلاش نہیں کرتے۔ 

آن لائن ویڈیوز کے بجائے لائبریری جاتے۔ بہتر یادداشت، گہرا علم، اور زیادہ اعتماد ہوتا۔ سوشل میڈیا کی دوڑ، لائکس کی بھوک،منفی خبریں اور جعلی خوشی کے مناظر دماغ کو تھکا تے نہیں۔ رات کو جلدی سوتے، صبح سویرے اٹھتے۔ موبائل گیمز کی جگہ کرکٹ، فٹبال، بیڈمنٹن یا کوئی بھی جسمانی سرگرمی میں حصہ لیتے۔ اللہ کے قریب ہوتے۔ مسجد جاتے، نماز کی پابندی کرتے، قرآن پڑھتے، دین کی باتوں پر غور کرتے۔ حقیقی دنیا کے مسئلے جانتے اور اصل دنیا کا حصہ بنتے۔

مقامی یونی ورسٹی سے ایم بی اے کرنے والے طالب علم اذہان خان ، کہتے ہیں کہ ’’آج کے بہت سے نوجوان فری لانسنگ، آن لائن بزنس، یا سوشل میڈیا مارکیٹنگ سے کماتے ہیں۔ موبائل نہ ہونے کی صورت میں پھر یہ سب نہ ہوتا۔ حادثے یا ہنگامی صورت حال میں مدد حاصل کرنا مشکل ہوتا۔ آج کے دور میں یہ ایک سیکیورٹی ٹول بھی ہے۔ ڈیجیٹل دنیا کے بغیر ترقیاتی عمل، تحقیق، ٹیکنالوجی، اور جدت کا سفر سست ہو جاتا۔

دنیا سے مقابلہ کرنے کی صلاحیت کمزور ہو جاتی۔ یونیورسٹی کی کلاسز کا شیڈول، امتحان کی تاریخ، آن لائن ایڈمیشنز، اسکالرشپ کی اپڈیٹس موبائل پر آتی ہیں، اگر یہ نہ ہو تو معلومات حاصل کرنے کے لیے ہمیں دھکے کھانے پڑتے، وقت کا ضیاع ہوتا۔ موجودہ دور کی ضروریات، رفتار، اور تقاضوں کو پورا کرنا تقریباً ناممکن ہوتا۔ اس لیے موبائل ایک نعمت ہے، بشرطیکہ اس کا درست استعمال کیا جائے۔‘‘

محمد راحیل، ایم بی اے فائنل کے طالب علم ہیں۔ ہمارے سوال کے جواب میں ان کا کہنا ہے کہ ،’’موبائل فون تو وقت کی اہم ضرورت ہے لیکن ہم میں سے بیش تر نوجوان اس کو علم یاترقی کا ذریعہ بنانے کے بجائے وقت گزاری میں ضائع کر رہے ہیں۔ اگر موبائل نہ ہوتا تو شاید ہم بہتر انسان ہوتے۔ تعلقات، تعلیم، کاروبار، تفریح اور روز مرہ کے معمولات کی نوعیت مختلف ہوتی۔ 

اپنی زندگی دوسروں کو دکھانے میں مصروف نہ ہوتے بلکہ خود اپنی زندگی میں مصروف رہتے، اپنے دماغ کا استعمال بہتر طریقے سے کرتے اور اساتذہ سے رہنمائی لیتے۔ استاد اور شاگرد کا تعلق مضبوط ہوتا، جیسا کہ اس کے آنے سے پہلے تھا، خوشی اور زندگی کاحُسن قائم رہتا ۔ سیلفی لیتے ہوئے، عمارت، پہاڑوں پر جان لیوا مناظر بنانے کا رجحان نہیں ہوتا۔‘‘

محمد معاذ بن احمد، ابلاغِ عامہ میں ماسٹر ہیں۔’’ انہوں نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ، آج کےدور میں نوجوان کا سب کچھ اس کا موبائل ہی تو ہے۔ سوشلائزنگ، شاپنگ، بینکنگ، لرننگ غرض ہر ایک چیز، یہی وجہ ہے کہ ہرنوجوان ہر وقت موبائل سے جُڑا نظر آتا ہے۔

اس کے بغیر دُنیا ادھوری ہے اور چند منٹس کے لیے بھی اس کی عدم موجودگی ناگوار گزرتی ہے، ایسے میں یہ سوچنا کہ ،’’ موبائل نہ ہوتا تو ہم یعنی نوجوان کیا کرتے؟‘‘ یقیناََ مشکل اور سُست زندگی گزارتے، جسمانی سرگرمیوں میں زیادہ حصّہ لیتے، خط و کتابت کرتے ۔ اور وہی کچھ کرتے، ویسی ہی زندگی گزارتے جیسی موبائل کی آمد سے قبل ماضی کے نوجوان گزارتے تھے۔‘‘

ابلاغِ عامہ کے طالب علم دانش اسلم کا کہنا ہے کہ، ’’پچھلے چند سالوں میں موبائل فون خاص طور پر اسمارٹ فونز زندگی کا حصہ بن گئے ہیں۔ ہر وقت ہر لمحہ بس موبائل کے ارد گرد زندگی گزرتی ہے۔ چار گھنٹے انسٹاگرام، تین گھنٹے یوٹیوب، دو گھنٹے ٹک ٹاک، اورجو وقت بچااُس میں بھی کچھ نہ کچھ موبائل میں کھیل رہے ہوتے ہیں۔

ہر تصویر فلٹر شدہ، ہر بات نقلی، ہر جذبہ پرفارمنس بن چکا ہے۔ آدھی سچائی پر مبنی پوسٹس، جذباتی کلپس یعنی اصل سیکھنے کا عمل کہیں کھو گیا ہے۔ موبائل کی اسکرین روشن، لیکن دل خالی ہے۔ اگر موبائل نہ ہوتا تو شاید نوجوان گھر کو گھر سمجھتا، تعلقات استوار کرتا۔ اپنی تہذیب وتمدن کو اپناتا دوسروں کے نقشِ قدم پرنہ چلتا۔ لائبریریوں میں وقت گزارتا، علمی اور فکری سطح بلند ہوتی ۔ ‘‘

حرمت، بی ایڈ کر رہی ہیں، انہوں نے ہمارے سوال کے جواب میں کہا کہ ، ’’اگر موبائل نہ ہوتا تو آج کا نوجوان کیا کرتا‘‘ ، موجودہ دور میں جب کہ ہم سب ہی موبائل کہ اتنے عادی ہوگئے ہیں ، بڑا مشکل ہے یہ سوچنا،اس کے باوجود اگر سوچا جائے تو میرے خیال میں نوجوان اپنی ثقافت، رسم و رواج اور مذہب سے قریب ہوتے۔

صبرو تحمل اور تنازعوں کو حل کرنے کا شعور ہوتا، اپنے آپ کو عقلِ کُل نہیں سمجھتے، دوسروں کی رائے بھی سنتے اوراُسے بھی اہمیت دیتے، صحت مندانہ بحث و مباحثہ ہوتا، علم کو تقویت ملتی، اسراف میں کمی آتی، مہنگے مہنگے موبائلوں پر کثیر رقم خرچ نہیں ہوتی، نیٹ پیکیجز کے اخراجات نہ ہوتے اور نہ ہی ڈکیتوں کے ہاتھوں ان کے چھینے جانے اور جان جانے کا غم ہوتا۔ 

نئے سے نئے موبائل خرید نے کی دوڑ اور مقابلہ بازی نہیں ہوتی، نفسیاتی اور معاشرتی مسائل کافی حد تک کم ہوتے۔ اگر موبائل کا دور نہ ہوتا تو یہ سب دکھاوا، شہرت پسندی والا کلچر نہیں ہوتا۔ معاشرتی اور اخلاقی جرائم بھی بہت حد تک کم ہوتے۔

خاص طور پر وہ جرائم جو ٹیکنالوجی اور سوشل میڈیا سے جڑے ہیں۔ جھوٹے پیغامات، آن لائن دھوکہ دہی دوسروں کی معلومات چرا کر غلط استعمال کرنا، فیک نیوز وغیرہ شاید یہ تمام عوامل موبائل کے بغیر ناممکن یا کم ترین سطح پر ہوتے۔‘‘

پروفیسر ڈاکٹر محمد علی، جامعہ کراچی میں، شعبہ سیاسیات کے چیئرمین ہیں۔ اُنہوں نے ہمارے سوال کے جواب میں کہا کہ، اس سوال کا دو پہلوؤں سے تجزیہ کروں گا، اگر موبائل فون نہ ہوتا تو آج کا نوجوان جدیدیت اور دنیا کی ترقی سےنا بلدہوتا۔

یہ سائنس اور ٹیکنالوجی کا دور ہے، جدید دنیا سے علیحدگی ناممکن ہے، تاہم اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ موبائل فون نے معاشرے اور خاندان سے ہی دور نہیں کیا، تحقیق اور تعلیم میں کتابوں سے عدم دلچسپی بھی ہوگئی ہے اور اے آئی ٹولز کے ذریعے سے علمی سرقہ کرنے کی عادت پڑ گئی ہے۔

لیکن اس کے بغیر دنیا میں سروائیو نہیں کیا جاسکتا۔ نوجوانوں میں اس کےمنفی پہلوؤں کو کم کرنے کے لیے ان کی سوچ میں مثبت تبدیلی لانی پڑے گی۔

پروفیسر ڈاکٹر قدسیہ طارق ، جامعہ کراچی، شعبہ نفسیات میں پڑھاتی ہیں ۔’’اُن کا کہنا ہے کہ موبائل کا حد سے زیادہ استعمال نوجوانوں میں عدم برداشت، ڈپریشن، ذہنی دباؤ اور احساسِ کمتری کا سبب بن رہا ہے۔ اگر یہ نہ ہوتا تو نوجوان سوشل میڈیا کے جعلی معیارِ زندگی سے متاثر نہ ہوتے، دوسروں کی کامیابی دیکھ کر خود کو کمتر محسوس نہ کرتے۔ ذہنی صحت طاقت ور ہوتی۔ چیلنجز کا سامنا کرنے کا موقع زیادہ ملتا۔

خود شناسی اور ذمہ داری کے جذبے سے آگے بڑھتے۔ زیادہ مطمئن، سنجیدہ، اور معاشرتی طور پر ذمہ دار ہوتے۔ موبائل فون کا بے تحاشا استعمال تو مقابلے کی نفسیات بن کر رہ گیا ہے، جس سے نوجوان مسلسل دباؤ میں رہتے ہیں کس کی تصویر اچھی، کپڑے اچھے، زندگی بہتر، مہنگی چیزیں وغیرہ، یہی دیکھتے اور کڑھتے رہتے ہیں۔ اگر موبائل نہ ہوتا تو محض ویڈیوز دیکھنے والے تماشائی نہیں بلکہ عملی شخصیت کے مالک بنتے۔

شاہ میر سیف، این ای ڈی یونیورسٹی میں ویزیٹنگ لیکچرار ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ، ’’ ایک چیز جو میں آتے جاتے راستے میں جگہ جگہ دیکھتا ہوں وہ نشئی نوجوان ہیں۔ منشیات کا پھیلاؤ موبائل کے ذریعے پہلے سے کہیں زیادہ آسان ہو چکا ہے۔ موبائل ایپس نے منشیات فروشوں کو یہ سہولت دی ہے کہ وہ گمنام رہ کر خریداروں سے رابطہ کر سکیں۔ اب تو ان کی کالز اور میسجز کو ٹریس کرنا مشکل ہو گیا ہے۔

موبائل کے ذریعے نوجوان نسل کو باآسانی ٹارگٹ کیا جا رہا ہے، خاص طور پر کالجز، یونیورسٹیوں اور ہاسٹل میں۔ نوجوان لڑکوں کواس کام میں شامل کرلیا جاتا ہے۔ موبائل نہ ہونے کی صورت میں ان جرائم کو منظم کرنا مشکل ہوجاتا اور نشہ اتنی تیزی سے نہیں پھیلتا جتنا موجودہ دور میں پھیلا ہے۔

ڈاکٹر علیم قریشی، ہمدرد یونی ورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ، ’’کسی چیز کے ہوتے ہوئے اس کی عدم موجودگی کا سوچنا ذرا مشکل ہے۔ یقیناََ اگر موبائل نا ہوتا تو نوجوان کم از کم خرافات سے ضرور دور ہوتے۔ زندہ رہنے کے لیے آکسیجن ضروری ہے لیکن نوجوان نسل کے لیے موبائل فون ضروری ہے، وہ اس کے بغیر وہ ایک منٹ نہیں رہ سکتے۔

طلباء کلاس میں بھی موبائل استعمال کرتے ہیں، استاد کی بات پر توجہ نہیں دیتے، اگر موبائل نہ ہوتا تو استاد کے الفاظ، انداز، اور رہنمائی کو سنجیدگی سے سنا جاتا، علمی اور عملی سرگرمیوں میں حصہ لیتا، اب ایسا کچھ نہیں ہے۔‘‘

پرو فیسر ڈاکٹر الیاس بابر اعوان، نے ہمارے سوال کے جواب میں کہا، موبائل فون کے یقیناََ فوائد ہیں، تاہم یہ محض بات کرنے کے آلے سے کہیں آگے کی چیز بن چکا ہے فکری اور نظریاتی فہم سے لے کر صارفی رجحان سازی اس کے ذریعے بہت آسان ہوچکی ہے۔ 

سوال یہ ہے کہ اگر موبائل فون نہ ہوتا تو آج کا نوجوان کیا کرتا؟ وہ جسمانی مشقت کی طرف راغب ہوتا، کھیل کی میدان آباد ہوتے۔ میرا تعلق چونکہ اس نسل سے ہے جن کے ہاتھ میں موبائل فون بہت بعد میں آیا تو میرے سامنے وہی منظر نامہ آرہا ہے جب ہم گلی محلے میں کرکٹ ، فٹ بال ، کبڈی اوروالی بال کھیلا کرتے تھے۔ پہلے ہمارے پاس وقت ہوتا تھا لیکن آج اسے موبائل اسکرین بڑی خاموشی سے نگل رہی ہے اور المیہ یہ ہے کہ وقت کا تیزی سے گزرنے کا احساس تک نہیں ہورہا۔

موبائل نہ ہوتا تو نوجوانوں کو رشتوں کے تقدس اور اہمیت کا بہتر طریقے سے علم ہوتا، بزرگوں کے پاس بیٹھ کر اور ان کے ساتھ ان ڈور گیمز جیسے لڈو ، چیکرز، اور شطرنج وغیرہ کھیل کر نہ صرف تجربے سے لبریز ان کی باتیں سنتے، بلکہ اس سے باہمی محبت بھی بڑھتی، جس کا آج کے دور میں شدید فقدان ہے۔ موبائل نے نوجوانوں میں تحقیق اور کھوج کا جوہر ختم کردیا ہے۔ 

اس پر مستزاد یہ کہ مصنوعی ذہانت کے ہاتھوں متشکل اور مزین شدہ خبروں نے نوجوانوں میں بلا تحقیق و فہم یقین کا عنصر غالب کردیا ہے جب کہ اس سے جو نقصانات ہورہے ہیں ان کا اندازہ لگانا بہت مشکل ہے۔ اعتدال ہر سرگرمی کا حسن ہے ہمیں تعلیمی اداروں میں موبائل فون کے مثبت اور مناسب استعمال سے متعلق نہ صرف تربیت دینا ہوگی بلکہ سماجی طور پر بھی اس کے غیر ضروری استعمال کی حوصلہ شکنی کرنی ہوگی ۔‘‘

مختلف آراء اس بات کی غماز ہیں کہ ہر چیز کے فوائد اور نقصانات ہوتے ہیں۔ اگرچہ سائنس کی اس ایجاد سے انکار ممکن نہیں کہ اس کی بدولت ہم پوری دُنیا کو جیب میں لئے پھرتے ہیں۔ بدلتے وقت کی تبدیلیوں سے منہ نہیں موڑ سکتے، لیکن ان تبدیلیوں کو مثبت انداز میں اختیار کرنے کا سلیقہ آنا بھی ضروری ہے۔

کوئی بھی ایجاد بری نہیں ہوتی لیکن اس کا غلط استعمال اسے برا بنا دیتا ہے۔موبائل فون وقت کی ضرورت ہے لیکن اس کےجنون نے اس دہانے پر لاکر کھڑا کر دیا ہے کہ ہر شخص خصوصاََ نوجوان اپنا ہی نقصان کر رہے اور کرتے جا رہے ہیں، حالاںکہ اِس کے استعمال کو مفید بھی بنا سکتے ہیں اور پُر اثر بھی، اب یہ آپ پر منحصر ہے۔