• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

توصیف اکرم نیازی

 رات کے تین بجے کا وقت تھا۔ پورے شہر میں خاموشی تھی، مگر اس کے کمرے میں موبائل کی نیلی روشنی جل رہی تھی۔ آنکھیں نیند سے بوجھل تھیں، مگر انگلیاں بے اختیارا سکرین پر چل رہی تھیں۔ ایک ویڈیو کے بعد دوسری، ایک پوسٹ کے بعد اگلی... ایک نہ ختم ہونے والا بے مقصد سفر۔

اس کی آنکھیں بند ہونے لگیں۔ نیند کا غلبہ بڑھا، مگر جیسے ہی موبائل رکھنا چاہا، ایک نیا نوٹیفکیشن آیا، کسی نے کوئی تصویر پوسٹ کی تھی، کسی نے کوئی اسٹوری لگائی تھی اور وہ پھر ڈوب گیا۔ یہ صرف ایک کہانی نہیں، کھلی حقیقت ہے۔

ڈیجیٹل نشے میں جکڑی ہوئی زندگی نئی نسل کو لگتا ہے کہ وہ دنیا سے جُڑ رہے ہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ وہ خود سے دور ہو رہے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ خوش ہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ دوسروں کی زندگی دیکھ کر اپنی زندگی کو کمتر محسوس کر رہے ہیں۔

ڈیجیٹل دنیا کی سب سے بڑی ستم ظریفی یہ ہے کہ یہ آپ کو جوڑنے کا وعدہ کرتی ہے، مگر درحقیقت زندگی کے سب سے قیمتی عناصر سے کاٹ دیتی ہے۔ یہ صرف وقت کا ضیاع نہیں، بلکہ دماغ، جذبات، اور زندگی کے بنیادی ڈھانچے پر ایک تباہ کن حملہ ہے۔

کیا آپ جانتے ہیں کہ نیند کی کمی الزائمر، ڈپریشن، اور ذہنی صلاحیت کی خرابی سے براہ راست جُڑی ہوئی ہے؟ ہارورڈ یونیورسٹی کی ایک تحقیق کے مطابق، جو لوگ سونے سے پہلے موبائل استعمال کرتے ہیں، ان کے دماغ میں ’’Melatonin‘‘ (جو نیند کو ریگولیٹ کرتا ہے) کا اخراج متاثر ہوتا ہے، جس سے نیند کا معیار بگڑ جاتا ہے۔ یہ دماغی دباؤ کے ہارمون Cortisol کو بڑھاتی ہے، جو دماغی کارکردگی کو کمزور کرتا ہے۔ نیند کے بغیر، آپ کی فیصلہ سازی کی صلاحیت، توجہ، اور جذباتی توازن بگڑ جاتا ہے۔

کیا آپ نے محسوس کیا ہے کہ آپ ایک کتاب یا کسی مشکل کام پر زیادہ دیر تک توجہ مرکوز نہیں کر سکتے؟ یہ کوئی اتفاق نہیں، بلکہ مسلسل اسکرین کے استعمال کا نتیجہ ہے۔ اسٹینفورڈ یونیورسٹی کی ایک تحقیق کے مطابق، سوشل میڈیا کا زیادہ استعمال کرنے والوں میں توجہ کا اسپین (Attention Span) نمایاں طور پر کم ہو جاتا ہے۔ ہر چند منٹ بعد موبائل چیک کرنا دماغ کو سنگین "Context Switching" میں ڈال دیتا ہے، جس سے ذہنی تھکن اور فیصلہ سازی کی صلاحیت کمزور ہو جاتی ہے۔

مسلسل نوٹیفکیشن اور اسکرولنگ دماغ کے نظام کو ہائی جیک کر لیتے ہیں، جس کی وجہ سے دماغ سوچنےکی صلاحیت کھو دیتا ہے۔ دماغ کے وہ حصے متاثر ہوتے ہیں جو خیال سازی، تخلیقی صلاحیت، اور نئی سوچ پیدا کرتے ہیں۔ زیادہ ڈیجیٹل مواد دیکھنے سے، آپ کا دماغ خود کچھ سوچنے کے بجائے دوسروں کے خیالات اور خیالی دنیا میں پھنسا رہتا ہے۔

مشہور نیوروسائنٹسٹ Andrew Huberman کے مطابق، "زیادہ ا سکرین دیکھنے والے افراد کےدماغ کا تخلیقی حصہ (Prefrontal Cortex ،کمزور ہو جاتا ہے، جس کی وجہ سے ان میں مسئلہ حل کرنے اور کچھ نیا ایجاد کرنے کی صلاحیت کم ہو جاتی ہے۔"

جب آپ کے خیالات ہر وقت کسی اور کے مواد میں گم ہوں، تو آپ کی اپنی سوچ کیسے پروان چڑھے گی؟

سوشل میڈیا پر ہر کوئی اپنی زندگی کے بہترین لمحات شیئر کرتا ہے، مگر آپ اپنی زندگی کے ہر پہلو کو جانتے ہیں۔ آپ کو لگتا ہے کہ باقی سب خوش ہیں، بس آپ ہی پیچھے رہ گئے ہیں۔ اپنوں کے ساتھ بیٹھ کر بھی موبائل میں مگن رہتے ہیں۔ ایک تحقیق کے مطابق، جب کسی گفتگو کے دوران موبائل سامنے رکھا ہو، تو لوگوں کے درمیان جذباتی قربت 40 فیصد کم ہو جاتی ہے۔

حقیقی زندگی کے رشتے کمزور پڑ جاتے ہیں، تشویش کی بات یہ ہے کہ ڈیجیٹل ایڈکشن میں مبتلا اکثرنسلِ نو کو یہ معلوم ہی نہیں ہوتا کہ وہ اس لت کا شکار ہیں۔ کھانا کھاتے ہوئے، دوسروں سے بات کرتے ہوئے اور میٹنگز یا کسی گروپ کی سرگرمی میں لوگ اپنے موبائل فون پر مصروف رہتے ہیں۔ یہ طرز زندگی کوہی نہیں سماجی اور خاندانی زندگی کو بھی متاثر کرتا ہے۔

بچوں اور والدین کے درمیان سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے کہ دونوں ہی موبائل میں مصروف رہتے ہیں، جس کی وجہ سے خاندان کا ماحول سرد ہو چکا ہے۔ یاد رکھیں وقت کبھی لوٹ کر نہیں آتا۔

ہم جس ڈیجیٹل دور میں رہ رہے ہیں، وہ جان بوجھ کر ہمیں اسکرین کا عادی بنا رہا ہے۔ سوشل میڈیا ایپس، ویڈیوز، اور موبائل گیمز کو اس طرح ڈیزائن کیا گیا ہے کہ یہ دماغ میں ڈوپامین (Dopamine) نامی کیمیکل کو بار بار خارج کرتے ہیں۔ یہ وہی نیوروٹرانسمیٹر ہے جو نشے کی عادت ڈالنے والے مادے (جیسے کہ ہیروئن یا نکوٹین) کے اثرات میں خارج ہوتا ہے۔

دنیا کی معتبر جامعہ Harvard University کی تحقیق کے مطابق جب کوئی شخص سوشل نیٹ ورکنگ کر تا ہے تو اس کے دماغ کا اہم حصہ( Nucleus (Accumbens متحرک ہو جا تا ہے، جو عموماََ خطرناک نشہ کرتے وقت فعال ہو تا ہے۔

جب بھی آپ کوئی نئی پوسٹ، نئی ویڈیو، یا کوئی میسج پڑھتے ہیں، آپ کے دماغ کو وقتی خوشی ملتی ہے، مگر اصل میں آپ کا فوکس تباہ ہو رہا ہوتا ہے۔ یہ مسلسل خوشی کا احساس ایک دائرے میں بدل جاتا ہے، اور آپ بار بار موبائل چیک کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔

اگر آپ بار بار اپنا فون چیک کرتے ہیں، چاہے ضرورت نہ بھی ہو، تو آپ ڈیجیٹل لت میں مبتلا ہو چکے ہیں۔ اگر آپ کے پاس فارغ وقت ہو تو بغیر سوچے موبائل نکال لیتے ہیں، ایسے میں آپ کی زندگی کا کنٹرول اسکرین کے ہاتھ میں چلا جاتا ہے۔ یہ ہمارے دماغ کے مواصلاتی نظام کو کیمیائی طور پر بدل کر ہمارے عزائم کی اونچی عمارتوں کومسمار کر رہی ہے۔ 

اقبال کے لاکھوں شاہین جب دیکھو اسکرین سے چپکے، مگر عملی زندگی کے میدان میں شکایتوں کا مجسمہ بن چکے ہیں۔ چیٹ رام میں ’’ایموجیز‘‘ کے ذریعے ’’دِل گردے‘‘ بنا کر احساسات ظاہر کرنے والی ’’بدلتی نسل‘‘ کی زبان سے اپنائیت بھرے لفظوں کی چاشنی جا رہی ہے۔ 

دُکھ تو یہ ہے کہ اسکرین کے شکنجے میں چھوٹی عمر کی معصوم روحیں بڑی بُری طرح پھنس چکی ہیں۔ اسکرین نے انسانی شخصیت کی بیٹری اتنی کمزور کردی ہے کہ عظیم رشتوں، رنگوں، رویوں اور راستوں کو نظر انداز کرنے لگے ہیں۔

ہر دن کا کچھ وقت بغیر اسکرین کے گزاریں کسی کتاب کے ساتھ، کسی قریبی شخص کے ساتھ، یا اپنے خیالات کے ساتھ یہی وہ لمحات ہیں جہاں زندگی کی اصل گہرائی چھپی ہوتی ہے۔ ہر نوٹیفکیشن پر مت دوڑیں، ہر ویڈیو مت دیکھیں، ہر پوسٹ مت پڑھیں۔(آپ کا وقت اور دماغ کسی بھی ایپ کی Feed نہیں، بلکہ آپ کی زندگی کے لیے ہے۔

سوشل میڈیا ایپس کی غیر ضروری نوٹیفکیشنز بند کر دیں کیونکہ یہ ایپس آپ کے وقت پر قبضہ کرنے کے لیے بنائی گئی ہیں، نہ کہ آپ کی بہتری کے لیے، اگر آپ نے خود کو نہ بدلا، تو ایک دن آپ بھی کسی کہانی کا کردار بن جائیں گےایک ایسا کردار جو اپنی آنکھیں، اپنی توجہ، اور اپنی زندگی اسکرین کے ہاتھوں کھو چکا ہوگی، تب تک بہت دیر ہو چکی ہوگی۔

یاد رکھیں، زندگی اسکرین میں نہیں، آپ کے ارد گرد ہے۔ زندگی لائکس اور کمنٹس میں نہیں، ان لمحوں میں ہے جو آپ حقیقی دنیا میں جیتے ہیں۔