نوجوان وہ قوت ہیں جو وقت کے دھارے کو موڑنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ان کے اندر چھپی ہوئی توانائی، عزم اور جرات کسی بھی قوم کو پستی سے نکال کر بلندی کی چوٹیوں تک پہنچا سکتی ہے۔ ان کی سوچ تازہ، ان کا ولولہ بے مثال اور ان کی محنت بے غرض ہوتی ہے۔
یہ وہ صفات ہیں جو انہیں باقی طبقوں سے ممتاز کرتی ہیں۔ یہ وہ قافلے کے سالار ہیں جو زمانے کی سمت بدلنے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔ اگر یہ بیدار ہوں تو قوموں کو زندگی ملتی ہے، اور اگر یہ غفلت میں سو جائیں تو زندہ قومیں بھی مردہ ہو جاتی ہیں۔
نوجوانوں کی پہچان ان کی توانائی نہیں بلکہ اس توانائی کو کس سمت میں استعمال کرتے ہیں، اس سے ہوتی ہے جو نوجوان اپنی سوچ کو مثبت سمت دیں، وہ روشنی کے سفیر بنتے ہیں اور جو اپنے ارادے کھو بیٹھیں، وہ اندھیروں کا ایندھن بن جاتے ہیں۔
آج کے نوجوان کئی تضادات کا شکار نظر آتے ہیں۔ ایک طرف وہ کامیابی کی خواہش رکھتے ہیں تو دوسری طرف بہت زیادہ محنت سے جلد اُکتا جاتے ہیں۔ ایک طرف وہ مستقبل میں کچھ بننے کا خواب دیکھتے ہیں تودوسری طرف اپنی زندگی کو فضول مشاغل میں ضائع کررہے ہیں۔
نوجوان اپنی توانائی اور وقت کو ایسے راستوں میں صرف کر رہے ہیں جو انہیں وقتی خوشی تو دے دیتے ہیں، مگر ان راستوں پر چل کر وہ اپنا کیرئیر اور زندگی دونوں کو داؤ پر لگا رہے ہیں۔ اس کی ایک نہیں کئی وجوہات ہیں ذیل میں مختصراََ ملاحظہ کریں:۔
سوشل میڈیا کا غلط استعمال
سوشل میڈیا ایک ایسا نشہ ہے، جس نے نسلِ نو کو اپنی گرفت میں لے لیا ہے۔ یہ ان کے دِل و دماغ پر جنون کی حد تک حاوی ہوگیا ہے۔ موبائل فون اور انٹرنیٹ نے زندگی کو آسان ضرور بنایا ہے، مگر نوجوانوں کے لیے یہ ایک جال بن چکا ہے۔ ٹک ٹاک، فیس بک، انسٹاگرام اور یوٹیوب پر بے مقصد ویڈیوز دیکھنے اور بنانے میں دن رات گزر جاتا ہے۔
ان پلیٹ فارمز پر لائکس اور فالورز حاصل کرنے کی دوڑ نے نوجوانوں کو اس قدر اندھا کر دیا ہے کہ وہ اپنی تعلیم، ہنر اور اصل مقصد سے غافل ہو گئے ہیں۔ انٹرنیٹ زیادہ استعمال کرنے سے اُن کی صحت بری طرح متاثر ہورہی ہے۔ نوجوان اپنا موازنہ مغربی ممالک سے کر رہے ہیں۔ وہ اپنی مشرقی روایات کو یکسر بھلا کر خیالی دنیا میں کھوئے رہتے ہیں۔
معقول حد تک تفریح میں کوئی حرج نہیں، مگر یہاں تو انٹرنیٹ کا حد سے زیادہ اور نامناسب استعمال سے ان کی ذہنی صلاحیتیں بھی غیر محسوس طور پر مفلوج ہو رہی ہیں۔ یاد رہے، مفلوج ذہنوں سے مفلوج معاشرہ ہی جنم لیتا ہے۔
اس کا مثبت استعمال علم اور معلومات کے پھیلاؤ کے لیے کیا جا سکتا ہے لیکن زیادہ تر نوجوان صرف دکھاوے اور وقتی شہرت کے لیے اسے استعمال کرتے ہیں۔ یہی وقت اگر کتابوں اور ہنر سیکھنے پر لگایا جائے تو ان کا کیریئر بہتر ہو سکتا ہے۔
تعلیم سے عدم توجہی
ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہمارے شاہین اپنے گھر اور مُلک کی پروا کیے بغیر اپنا مستقبل سنوارنے کے لیے آنکھوں میں قصرِسلطانی کے خواب سجائے، پہاڑوں کی چٹانوں کے عین اوپر سے پرواز کرتے یورپ اور امریکا پہنچ جاتے ہیں۔ ایسے شاہینوں کی بھی کمی نہیں کہ جن سے ہم اپنے سُنہرے مستقبل کی آس لگائے بیٹھے ہیں اور وہ ٹک ٹاکر بن کر ناچ گانوں میں مصروف ہیں یا پھر مختلف گیمز میں غیر حقیقی میدانِ جنگ کے بہادر سپاہی بن کر مختلف محاذوں پر اپنی فرضی طاقت کے جوہر دکھا رہے ہیں اور اپنی مہارت پر ناز کر رہے ہیں۔
پڑھائی کو بوجھ سمجھنے لگے ہیں۔ کلاسز میں غیر حاضری، ہوم ورک سے لاپرواہی اور امتحانات کی تیاری کو نظر انداز کرنا عام بات ہے۔ یہ مزاج ان کے تعلیمی ریکارڈ کو کمزور کر رہا ہے، اسی لیےجب وہ عملی زندگی میں قدم رکھتے ہیں تو کار کردگی صفر ہوتی ہے، یوں مستقبل میں صرف پچھتاوے رہ جاتے ہیں۔
نوجوانوں کو معاشرے میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت حاصل ہے۔ جس طرح ریڑھ کی ہڈی میں معمولی سا نقص بھی پورے جسم کو بے کار اور اپاہج بنا سکتا ہے، بالکل اسی طرح نوجوان نسل کی تعلیم و تربیت اور اخلاقیات میں ذرا سا نقص بھی مُلک و قوم کے لیے سمِ قاتل ثابت ہوسکتا ہے۔
شارٹ کٹ
نوجوانوں میں بے صبری اور شارٹ کٹ کا رجحان آج کے دور کا ایک بڑا المیہ ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ کم وقت میں زیادہ حاصل کر لیں۔ یہ سوچ بظاہر دلکش لگتی ہے، مگر حقیقت میں تباہ کن ہے۔ دراصل یہ طریقہ کار اُنہیں محنت سےدور کر دیتا ہے۔ وہ امتحان میں کامیابی کے لیے رات دن پڑھنے کے بجائے نقل کرنے یا نوٹس پر انحصار کرتے ہیں۔
محنت کیے بغیر سب مل جانے کی سوچ انہیں ایسے راستوں پر لے جاتی ہے، جس سے شاید وقتی فائدہ تو ملتا ہو لیکن کیریئر نہیں بنتا۔ شارٹ کٹ وقتی خوشی تو دے سکتا ہے، لیکن پائیدار کامیابی صرف محنت اور مستقل مزاجی سے ملتی ہے۔ جو نوجوان جلد بازی میں فیصلے کرتے ہیں وہ اکثر اپنی صلاحیتیں ضائع کر بیٹھتے ہیں۔
بری صحبت
بری صحبت بھی نوجوانوں کے کیریئر تباہ ہونے کی اہم وجہ ہے۔غلط لوگوں کی سنگت ان کے کردار، سوچ اور مستقبل پر براہِ راست اثرڈالتی ہے۔ دوستوں کا انسان کی زندگی پر گہرا اثر ہوتا ہے۔
نبی اکرم ؐنے فرمایا۔’’اچھے دوست کی مثال کستوری والے کی سی ہے اور برے دوست کی مثال لوہار کی بھٹی کی طرح ہے۔‘‘یعنی اچھی صحبت انسان کو نیکی کی خوشبو دیتی ہے، جبکہ بری صحبت نقصان پہنچاتی ہے۔
اس کے ساتھ بری عادتیں مثلاََ مختلف قسم کی منشیات، گٹکا وغیرہ کا استعمال نہ صرف ان کی صحت بلکہ زندگی بر باد کرہے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں چند گنے چنے نوجوانوں کے علاوہ باقی زیادہ تر نوجوان ایسے خطرناک اور مضرصحت مشاغل میں مصروف ہیں جو ایک متوازن معاشرے کی تباہی کا سبب بنتے ہیں۔
اگر صحبت نیکوں کی ہو تو انسان کی زندگی نیکی اور بھلائی میں گزرتی ہے اور بدقسمتی سے کسی نے اگر برے اور بدکار لوگوں کی صحبت اختیار کر لی تو اس کی پوری زندگی ایک غلط راستے پر چل پڑتی ہے۔
والدین کی لاپرواہی
والدین کی نگرانی کی کمی بھی ایک بڑا المیہ ہے۔ اکثر والدین اپنی ذاتی مصروفیات، ملازمت یا کاروبار میں اس قدر الجھ جاتے ہیں کہ بچوں کے ساتھ بیٹھنے اور ان سے بات کرنے کا وقت نہیں نکال پاتے۔
نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بچے اپنی الجھنیں، خواہشات اور مشکلات بیان ہی نہیں کر پاتا اور اپنے فیصلے خود سے کرنے لگتے ہیں۔ والدین کی لاپرواہی نوجوانوں کے کیریئر کی تباہی کا اہم سبب ہے۔ اُن کی ذمہ داری ہے کہ وہ بچوں پر نظر رکھیں اور ان کی رہنمائی کریں، تاکہ وہ اپنی زندگی کا مقصد نہ بھولیں۔
معاشرتی دباؤ اور رکاوٹیں
ہمارے معاشرے میں سفارش اور تعلقات کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔ نوجوان یہ دیکھ کر مایوس ہو جاتے ہیں کہ محنت کرنے کے باوجود ان کا حق نہیں ملتا اور آگے وہی لوگ بڑھتے ہیں جن کے پاس طاقت یا سفارش ہو۔ یہ مایوسی انہیں محنت چھوڑ کر فضول مشاغل کی طرف لے جاتی ہے۔
کچھ نوجوان اسی دباؤ میں غیر قانونی راستے اختیار کر لیتے ہیں، کچھ دوسرے ممالک جانے کی کوشش میں جان تک گنوا بیٹھتے ہیں یا پھر چوری ڈکیتی ، لوٹ مار جیسی وارداتیں کرنے لگتے ہیں، جس سے ان کا کیریئر ختم ہو جاتا ہے۔
کیرئیرپلاننگ کی کمی
ہمارے تعلیمی اداروں میں کیریئر کونسلنگ کا کوئی مؤثر نظام موجود نہیں۔ اسکولوں اور کالجوں میں اساتذہ صرف نصاب پڑھانے کو اپنی ذمہ داری سمجھتے ہیں لیکن یہ رہنمائی بہت کم کی جاتی ہے کہ طالب علم کس مضمون کو کیوں پڑھ رہا ہے اور آگے چل کر یہ مضمون کس طرح اس کے کیریئر سے جڑ سکتا ہے۔
جب کوئی نوجوان اپنی زندگی کے سب سے قیمتی سال بغیر کسی منصوبہ بندی کے گزار دیتا ہے تو وہ نہ صرف اپنی صلاحیتوں کو ضائع کرتا ہے بلکہ اپنی توانائی کو بھی بے مقصد سرگرمیوں میں کھپا دیتا ہے۔
اس کے نتیجے میں وہ یا تو کسی ایسے شعبے میں داخل ہو جاتا ہے، جس سے اس کی دلچسپی نہیں ہوتی یا پھر بے روزگاری اور مایوسی کا شکار ہو جاتا ہے۔ آج کے دور میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے صرف تعلیم حاصل کر لینا کافی نہیں بلکہ درست سمت اور واضح منصوبہ بندی بھی ضروری ہے، مگر بدقسمتی سے ہمارے بیشتر نوجوان اس شعور سے محروم ہیں۔ اسی لیے وہ اپنی توانائی کو ضائع کر رہے ہیں۔
چند تجاویز:
نوجوانوں کے کیرئیر کو تباہی سے بچانے کے لیے ضروری ہے کہ انہیں صرف کتابی علم تک محدود نہ رکھا جائے بلکہ عملی تربیت بھی دی جائے۔ آج کی دنیا ڈگری سے زیادہ ہنر کو اہمیت دیتی ہے۔
وہ نوجوان جو کمپیوٹر سکلز، زبانوں کی مہارت، ابلاغ کی صلاحیت اور جدید ٹیکنالوجی کا استعمال جانتے ہیں، ان کے لیے بے شمار مواقع موجود ہیں۔ تعلیمی اداروں کو چاہیے کہ وہ طلبہ کو انٹرن شپ، پراجیکٹس اور مختلف تر بیتی پروگرامز شامل کریں، تاکہ وہ عملی دنیا کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہوسکیں۔
والدین اور اساتذہ کی نگرانی بھی ایک اہم تدبیر ہے۔ نوجوان عمرکے اس حصّے میں جذباتی ہوتے ہیں ، جلد بہک جاتے ہیں، اگر ان پر نظر نہ رکھی جائے تو وہ غلط دوستوں اور بری صحبت میں پھنس سکتے ہیں۔
والدین کو چاہیے کہ وہ بچوں کے دوستوں کو جانیں، ان کی دلچسپیوں پر توجہ دیں اور وقتاََ فوقتاََ ان سے کھل کر بات کریں ان کے مسائل سنیں انہیں دور کریں، اسی طرح اساتذہ کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ صرف کتاب پڑھانے پر اکتفا نہ کریں بلکہ طلبہ کی شخصیت سازی بھی کریں۔
حکومت بھی نوجوانوں کے لیے انٹرن شپ، کاروباری قرضےاور اسٹارٹ اپس کے مواقع فراہم کرتی رہے، تاکہ وہ اپنی محنت سے آگے بڑھ سکیں۔ ان کے آئیڈیاز کو سنا جائے اور حوصلہ افزائی کریں۔
اپناکیرئیر بنانے میں نوجوان خود سب سے بڑی طاقت ہیں،اگر وہ خود یہ فیصلہ کر لیں کہ انہیں اپنے خوابوں کو پورا کرنا ہے اور اس کے لیے قربانیاں دینا ہیں تو کوئی بھی مشکل انہیں روک نہیں سکتی۔ اس لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے اندر خود اعتمادی پیدا کریں، اپنی سوچ کو مثبت رکھیں اور ہر حال میں محنت کو جاری رکھیں۔
نوجوانوں کو اپنی تعلیم کے ساتھ ساتھ عملی مہارتیں بھی حاصل کرنا ہوں گی۔ چاہے وہ انفارمیشن ٹیکنالوجی ہو، زبانیں سیکھنا ہو، کمیونیکیشن اسکلز ہوں یا اپنے مخصوس شعبے کی مخصوص مہارتیں، یہ سب کچھ کیریئر کو مضبوط بنیاد فراہم کرتی ہیں۔ جو نوجوان اپنے آپ کو نئی مہارتوں سے آراستہ نہیں کرتے، وہ پیچھے رہ جاتے ہیں اور ان کا کیریئر وقت کے دھارے میں بہہ کر ضائع ہو جاتا ہے۔
نوجوان آنکھیں کھولیں اور سمجھ لیں کہ ان کا مستقبل صرف اور صرف ان کے اپنے فیصلوں پر منحصر ہے۔ جو آج محنت کرے گا، وہ کل عزت کی زندگی جئے گا، اور جو آج وقت ضائع کرے گا وہ کل پچھتائے گا۔ اپنے خوابوں کو حقیقت میں بدلنے کے لیے آج ہی سے عمل شروع کریں۔