مجھ سے پوچھیں تو آج کے تیز رفتار زمانے میں ساٹھ سال کو ادھیڑ عمر کہہ سکتے ہیں۔ میں جیسے جیسے عمر کی سیڑھیاں طے کرتا جا رہا ہوں مجھے ویسے ویسے نو جوانوں کو سمجھنے میں آسانی ہو رہی ہے۔ کہیں کہیں میں ان کو اپنے دور جوانی سے زیادہ ذہین اور با اعتماد پاتا ہوں لیکن کچھ جگہوں پر مجھے ایسا لگتا ہے کہ وہ ذہانت کے آگے ہمارے تجربے کو مانتے ہی نہیں۔
ادھیڑ عمری یا بڑھاپے میں دو طرح کے لوگ ہوتے ہیں ۔ ایک وہ جو ریٹائرڈ ہونے کے بعد خود پر عمر کو طاری کر لیتے ہیں اور وقت گزاری کے لیے بات کرنے کو لوگ ڈھونڈتے ہیں۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے زندگی میں جو کرنا تھا وہ کر لیا۔
ان میں کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں کہ وہ اپنے تجربات نئی نسل کو منتقل کرنا چاہتے ہیں، مگر ذرا تفصیل کے ساتھ وہ بھی الف لیلیٰ کے انداز میں ، دوسری طرح کے لوگ وہ ہوتے ہیں کہ جو یہ سوچتے ہیں کہ جو وہ کرنا چاہتے تھے اور نہیں کر پائے ۔ انہیں عمر کی نقدی اور وقت کی کمی کے اندازہ ہوتا ہے۔ یہ سنجیدگی سے مصروف رہتے ہیں۔ یہ لوگ بھی اپنے تجربات شیئر کرنا چاہتے ہیں۔
مائیکل سیج نے کہا تھا :
مستقبل کے بوجھ کو کم کرنے کے لیے تجربہ ماضی کا سبق ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ وہ جس بوجھ کو کم کرنا چاہتے ہیں وہ نوجوان سننے کو تیار نہیں ہوتے ۔ ایمانداری سے بتاؤں اس میں قصور ہمارا بھی ہوتا ہے ۔ ہم طولانی بات کرتے ہیں ۔ تجربے کو بتانے میں قصے کو اتنا لمبا کر دیتے ہیں کہ سننے والا بور ہو جائے لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ سارا قصور اسی طرف دے دیا جائے۔
حقیقی وجہ یہ ہے کہ آج کل کی نسل نو ہمیں آوٹ ڈیٹڈ سمجھتی ہے ۔ تجربات کے لیے کتابیں پڑھ لے گی لیکن جو زندہ مثالیں موجود ہیں ۔ ان سے استفادہ نہیں کرتی بلکہ باہر جا کر کہے گی , ’’انکل پیتے بہت ہیں ، دور ہی رہو ۔‘‘ آج کی دنیا کو سائنس کی دنیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ تجربہ سائنسز کی آفاقی ماں ہے لیکن ہماری نئی نسل تو اس ماں سے سیکھنا تو دور کی بات اس کو گلے لگانے کو تیار نہیں۔
غور کریں تو ہمارے معاشرے کا سب سے دردناک اور تکلیف دہ پہلو ہی یہی ہے کہ چھوٹوں کا بڑوں ، بزرگوں اور اپنے والدین سے اعتماد ہی اٹھ گیا ہے۔ ایک پیڑی کا دوسری سے، چھٹوں کا بڑوں سے ، نوجوانوں کا بوڑھوں سے فاصلہ اس قدر بڑھ گیا ہے کہ جسے پاٹناناممکن نظر آنے لگا ہے۔
میں آپ کو اس حوالے سے اپنے مشاہدات بتاتا ہوں ۔ جس کی وجہ سے مجھے یہ لکھنے کی ضرورت پیش آئی ۔ میں جب بھی کسی سے کسی تجربے کی بابت بات کرتا ہوں تو وہ اول یہ چاہتا ہے کہ جلد از جلد گفتگو ختم کردی جائے اور اس کا Crux )بتا دیا جائے۔ یاد رکھیں اپنے سیاق و سباق کے بغیر کسی تجربے کو بتانا لا حاصل، نا مکمل ہے۔
آج کی نسل آپ کو پانچ منٹ سے زیادہ دینے کو تیار نہیں کیونکہ وہ سمجھتی ہے کہ وہ ذہانت سے لیس ہے، جس کے سامنے تجربے کی اہمیت نہیں ۔ وہ اپنی ذہانت سے زندگی گزار لیں گے، انہیں خبر نہیں کہ تجربہ کا کوئی شارٹ کٹ نہیں اور نہ کوئی اس کا پارٹنر ہے۔ یہ تنہا ہے ۔ اب یہ سیکھنے والے پر منحصر ہے کہ اسے اپنی ذہانت سے کس طرح کام میں لاتا ہے۔
مجھے ہنسی آتی ہے کہ جب کسی سے کوئی تجربے کی بات کریں تو وہ چند منٹ بعد پہلو بدلتا ہے ۔ چہرے پر مصنوعی توجہ سجائے بات سننے اور سمجھنے کا تاثر دے رہا ہوتا ہے۔ اسے خبر نہیں ہوتی کہ سامنے والے کو اس کا بھی تجربہ ہے۔
میں نے اکثر سوچا کہ ہم اپنے تجربات کیوں شیئر کرنا چاہتے ہیں ؟ کیا اپنی بڑائی ثابت کرنے کے لیے ، شخصیت کا رعب جمانے کے لیے ۔ میرا خیال ہے ایسا نہیں ہے۔ جن سے آپ اپنے تجربات شیئر کرنا چاہتے ہیں ، وہ آپ کے قریب کے لوگ ہوتے ہیں جنہیں آپ وہ دنیا سمجھانا چاہتے ہیں جو آپ دیکھ آئے ۔ ممکن ہے یہ نسل اس دنیا کو مانتی ہی نہ ہو اور اس سوچ پر یقین رکھتی ہو کہ نئی دنیا، نئے تجربات جو گزر گئے وہ بکسے میں بند ۔ شاید یہ بھی جنریشن گیپ کے خانے میں آتا ہے۔