• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

محمد منتظر

دنیا کی علم وٹیکنالوجی کے میدان میں روز افزوں ترقی، ہر آئے دن نت نئی ایجادات، اور دیگر تعلیمی مسابقتوں کے میدان میں حیرت انگیز کامیابیوں کو دیکھ کر ذہن میں یہ سوال کھٹکنے لگتا ہے کہ ہمارے نوجوان مسابقت کی دوڑ میں پیچھے کیوں ہیں؟ جبکہ باقی دنیا کے نوجوان بہت آگے نکل چکے ہیں۔ اگر اس کی وجوہات کا مطالعہ کیا جائے تو مختلف علل و اسباب سامنے آئیں گے جو ہمارے نوجوانوں کے سامنے اس راہ میں رکاوٹ ہیں۔ ان میں سے کچھ وجوہات نذر قائین ہیں۔

یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ کسی بھی قوم کی ترقی میں اس کے نوجوان کا اہم رول ہوتا ہے دنیا میں صرف وہی قومیں اپنا نام و نمود پیدا کر سکتی ہیں اور سر اٹھا کر چلنے اور علم و دانش کی وادی میں قدم رکھنے کے قابل بن سکتی ہیں جن کے جوانوں میں تعین مقصد اور حصول مقصد کی راہ میں جانفشانی اور جانثاری کا جذبہ ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر کی طرح جوش مارتا ہوا نظر آئے، اس کے بر عکس اگر نوجوانوں کی محنت اور تک و دو کا کوئی مقصد معین نہ ہو کوئی ہدف ان کے سامنے نہ ہو تو ان کی ساری تلاش و جستجو بغیر کسی ہدف کے انجام پائے گی۔ 

اس کی مثال ایک ایسے راہ گزر کی ہو گی جو کڑکتی دھوپ میں صحرائے لق و دق میں خار دار جھاڑیوں کے بیچ میں دوڑتا ہوا نظر آئے اور جب اس سے سوال کیا جائے کہ آپ کہاں جارہے ہو؟ تو پلٹ کر جواب دے کچھ معلوم نہیں۔ ایسا انسان دن دگنی رات چگنی محنت کرتا رہے لیکن اس کی محنت کا کوئی ماحصل نہیں ہوگا کیوں کہ اسے منزل کا پتہ ہی نہیں۔

نوجوان اگر مقصد حیات سے بے خبر رہیں تو انہیں ہر موڑ پر ناکامیوں کا سامنا کرنے کے علاوہ کچھ نصیب نہیں ہوگا، اس لیے ضروری ہے کہ اپنی زندگی کے مقصد کومتعین کریں اور اس کے حصول کے لیے جد و جہد کے ساتھ جٹ جائیں تو یقیناََ کامیابیاں ان کے قدم چومیں گی۔ اگر کوئی نوجوان اپنا ہدف تو معین کرتا ہے لیکن اس کو پانے کے لیے تلاش و کوشش نہیں کرتا بلکہ کاہلی اور سستی برتتا ہےتو وہ صرف کامیابی کے سپنے ہی دیکھ سکتا ہے، اسے حاصل نہیں کر سکتا۔

ا کثر اوقات بعض نوجوان ترقی کے لیے کچھ دیر تک تو محنت کرتے ہیں لیکن اگر کسی ایک جگہ ناکامی کا سامنا کرنا پڑ جائےتو دل برداشتہ ہو کر ہمت ہاردیتے ہیں۔ حالانکہ یہ بات مسلم ہے کہ دوڑ لگانے والا ضروری نہیں کہ پہلی بار ہی مقابلہ جیت جائے ناکام بھی ہو سکتا ہے ،مگر اس کی یہ ناکامی اس کے سامنے رکاوٹ نہیں بننا چاہیے۔

کیوں کہ ناکامی کے بعد ہی کامیابی ممکن ہے۔اس کی مثال کچھ اس طرح ہے کہ پہاڑ کی چوٹی سر کرنےوالے پہاڑ کے دامن سے سفر شروع کرتے ہیں، اس سفر میں کٹھن راہوں اور کتنی ہی دوسری مشکلات سے گزرنا پڑتاہے، اگر وہ اس کے نشیب و فراز کے کٹھن راستوں کو دیکھ کر ہی خوف زدہ ہو جائیں گے تو کبھی بھی پہاڑ کی چوٹی تک نہیں پہنچ سکیں گے۔

احساس کمتری کا شکار نوجوان دوسروں کی صلاحیتوں اور ان کے کارناموں کو حسرت بھری نظروں سے دیکھتے ہیں۔ اپنی صلاحیتوں کی پردہ پوشی کرنا اور انہیں اجاگر نہ کرنا ان کی سب سے بڑی خامی ہے۔ جس کی وجہ سے وہ ترقی کی راہوں میں لڑکھڑا جاتے ہیں حالانکہ اگر وہ اپنے اندر چھپی ہوئی صلاحیتوں سے پردہ ہٹا کر انہیں بروئے کار لائیں دوسروں کی نقل اور عقل کی پیروی کرنے کے بجائے اپنی عقل اور سوچ سے صحیح استفادہ کریں توکئی چھپے رستم سامنے آئیں گے، جن کے فکری جوہر بڑے بڑے مارکوں کو سر کرنے میں مفید ثابت ہوسکتے ہیں۔ چیلنجز سے گھبرانا نہیں بلکہ انہیں اپنے مفادمیں تبدیل کرنا ہے۔ نوجوان نسل عالمی سطح پر ملک کا بہتر تشخص اجاگر کرسکتی ہے انہیں احساس کمتری میں مبتلا نہیں ہونا چاہئے۔پر اعتماد نوجوان نسل زیادہ موثر کردار ادا کرتی ہے۔

ہمارے معاشرے میں ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ اگر کوئی اپنی کاوشوں سے آگے بڑھنے کی کوشش کرتا بھی ہے تو دوسرے بجائے اس کی حوصلہ افزائی کے تمسخراُڑانے لگتے ہیں، جس سے وہ اپنی صلاحیتوں کو گور ندامت و حسرت میں ہمشیہ کے لیے دفن کر دیتا ہے۔ اگر کوئی پڑھ لکھ جاتاہے تو وہ چھوٹے موٹے کام کر نا اپنی توہین سمجھتا ہے۔ 

وائٹ کالر کی جاب کے انتظار میں اپنا اپنا قیمتی وقت گنوا دیتا ہے حالانکہ کوئی کام چھوٹا بڑا نہیں ہوتا اور کچھ نہ کرنے سے کچھ کرنا بہتر ہوتا ہے،دنیا میں قدم رکھتے وقت ہربچہ ذہنی اعتبار سے مساوی ہوتا ہے لیکن فرق صرف اتنا ہے کہ بعض کی ذہنی نشو نماکے لیے اچھی خوراک، وسائل اور اسباب فراہم ہوتے ہیں جن کی بنا ان کا ذہن جلدی رشد و نموہو کر نئے نئے اختراعات کرتا ہے اور بعض بچوں کو ایسے اسباب فراہم نہیں ہوتے، لہذا سوچنے سمجھنے اور کچھ ایجاد کرنے کی صلاحیت ان کے اندر نابود ہو جاتی ہے۔ ذہن ایسی مشینری ہے اسے جتنا استعمال کیا جائے اتنی اس کی گارنٹی بڑھتی رہتی ہے۔ اس میں وسعت پیدا ہوتی ہے اور اگر اسے اس کے حال پر چھوڑ دیا جائے تو وہ بوسیدہ ہو کر بیکار ہو جاتا ہے۔

یہ بات بھی بڑی اہم ہے جو نئی نسل کے آگے بڑھنے میں روکاوٹ ہے کہ تعلیمی اداروں میں جدید ٹیکنالوجی کے وسائل مہیا نہیں سرکاری اسکولوں کی خستہ حالت بچوں کے شوق و جذبہ کو سست بناتی ہے اور دیگر وسائل کی کمی یا عدم فراہمی ان کی اس میدان میں پیشرفت کرنے میں رکاوٹ بتنی ہے۔

نوجوان نسل کی پیچھے رہنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہ دین اور دینی تعلیمات سےدور ہوتے جارہے ہیں۔ دین الہی سے دوری فکر میں جمود پیدا کرتی ہے، جبکہ، دینی تعلیمات انسانی فکر کے دریچے کھول کر اسے ترقی کےراستوں سے آگاہ کرتی ہے، اس لیے اگر کوئی نوجوان تعلیمات دین کے سائے میں رہتے ہوئے دنیوی علوم سے استفادہ کریں تواس کی راہ میں کامیابیاں ہوں گی۔نوجوانوں کو زندگی کی سیدھی راہ دکھانا ہوگی اُنھیں فعال بنانا ہوگا تاکہ ہر شعبہ اور ہر میدان میں آگے بڑھتے نظر آئیں یہی وقت کی ضرورت ہے۔