• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ڈاکٹر ضیاالدین،(جنرل فزیشن)

 ذیابطیس پوری زندگی ساتھ رہنے والا یسا مرض ہے، جس کا ہر سال لاکھوں افراد شکار ہوتے ہیں۔ یہ بیماری اس وقت پیدا ہوتی ہے جب جسم اپنے اندر موجود شگر (کلوکوز )کو حل کرکے خون میں شامل نہیں کرپاتا ۔یہ ایک بیماری کئی امراض کاباعث بن سکتی ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق حیرت انگیز طور پر ذیابطیس ٹائپ 2 کے شکار 25 فی صد افراد کو اس کے ہونے کا علم نہیں ہوتا۔یہ مسئلہ تیزی سے بڑھ رہا ہے ۔ 2021ء کے اعدادوشمار کے مطابق پاکستان میں تقریباً سوا تین کروڑ بالغ افراد اس مرض میں مبتلا ہیں۔ 

ایک حالیہ تحقیق کے مطابق پاکستان میں ہر چار میں سے ایک فرد ذیابطیس کا مریض ہے اور یہ تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ پاکستان میں ہر سال ذیابطیس کے مرض کے باعث تقریباً ڈیڑھ سے دو لاکھ افراد معذور ہو جاتے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ ذیابطیس پاکستان میں ہلاکتوں کی آٹھویں بڑی وجہ بھی ہے اور 2005 کے مقابلے میں اس سے متاثرہ افراد کی ہلاکتوں میں 50 فی صد کا اضافہ ہوا ہے۔ ان خطرات کے باوجود ذیابطیس کا شکار لوگوں کو اس بات کا علم نہیں کہ روزمرہ کے معمولات میں تبدیلی کئی معاملات میں بہتری لا سکتی ہے۔

کھانا کھاتے وقت ہمارا جسم نشاستے (کاربوہائیڈریٹس) کو شکر (گلوکوز) میں تبدیل کر دیتا ہے، جس کے بعد لبلبے (پینکریاز) میں پیدا ہونے والا ہارمون انسولین ہمارے جسم کے خلیوں کو ہدایت دیتا ہے کہ وہ توانائی کے حصول کے لیے اس شکر کو جذب کریں۔ ذیابطیس تب لاحق ہوتا ہے جب انسولین مناسب مقدار میں پیدا نہیں ہوتی۔ اس کی وجہ سے شکر ہمارے خون میں جمع ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ انٹرنیشنل ڈائبٹیز فیڈریشن کے مطابق اس وقت دنیا بھر میں 53 کروڑ سے زیادہ افراد اس مرض کا شکار ہیں۔ عالمی ادارۂ صحت کے مطابق یہ تعداد 40 سال پہلے کے مقابلے میں پانچ گنا ہے۔ ٹائپ ون ذیابطیس کی علامات بچپن یا جوانی میں ہی ظاہر ہونا شروع ہو جاتی ہیں اور یہ زیادہ خطرناک ہوتی ہیں۔

…… اقسام ……

ذیابطیس کی دو اقسام ہیں۔ ٹائپ ون ذیابطیس میں لبلبہ انسولین بنانا بند کر دیتا ہے، جس کی وجہ سے شکر خون کے بہاؤ میں جمع ہونا شروع ہو جاتی ہے۔اس کے ہونے کی اصل وجہ کیا ہوتی ہے یہ تو نہیں معلوم ۔خیال ہے کہ شاید ایسا جینیاتی اثر کی وجہ سے یا کسی وائرل انفیکشن کی وجہ سے لبلبےمیں انسولین بنانے والے خلیے خراب ہوجاتے ہیں۔ ذیابطیس کے مریضوں کا 10 فی صد ٹائپ ون کا شکار ہیں ۔ٹائپ ٹو میں لبلبلہ یاتو ضرورت کے مطابق انسولین نہیں بناتا یا جو بناتا ہے وہ ٹھیک طرح سے کام نہیں کرتی ۔ایسا عموماً درمیانی اور بڑی عمر کے لوگوں کو ہوتا ہے۔

کچھ حاملہ خواتین کو دورانِ زچگی ذیابطیس ہو جاتا ہے جب ان کا جسم ان کے اور بچے کے لیے کافی انسولین نہیں بنا پاتا۔ ایک اندازے کے مطابق 6 سے 16 فی صد خواتین کو دورانِ حمل ذیابطیس کا مرض لاحق ہوجاتا ہے۔ انہیں ایسے میں غذا اور ورزش کے ذریعے شوگر لیول کو کنٹرول کرنا ہوتا ہے، تاکہ اسے ٹائپ ٹو انسولین میں بدلنے سے روکا جا سکے۔اب لوگوں کو خون میں گلوکوز کی بڑھی ہوئی سطح کے بارے میں تشخیص کر کے انہیں ذیابطیس ہونے کے خطرے سے آگاہ کیا جا سکتا ہے۔

…… علامات ……

٭…بہت زیادہ پیاس لگنا

ذیابطیس کے مریض افراد اگر جوسز یا دودھ وغیرہ کے ذریعے اپنی پیاس کو بجھاتے ہیں تو یہ خطرے کی علامت ہوسکتی ہے۔ یہ میٹھے مشروبات خون میں شکر کی مقدار کو بڑھا دیتے ہیں ،جس کے نتیجے میں پیاس ختم نہیں ہوتی ۔

٭…یورین زیادہ آنا

ذیابطیس کے شکار لوگوں کاجسم خوراک کو شوگرمیں تبدیل کرنے میں زیادہ بہتر کام نہیں کرتا،جس کے نتیجے میں دوران ِخون شوگر کی مقدار بڑھ جاتی ہے اوراسی لیے ان کو یورین زیادہ آنے لگتا ہے، تاہم اس مرض کے اکثر افراد اس خاموش علامت سےواقف ہی نہیں ہوتےاور نہ ہی اس پر توجہ دیتے ہیں۔

٭…تھکاوٹ محسوس کرنا

تھوڑی چہل قدمی کرنے سے یا کام کرنے سے بہت زیادہ تھکاوٹ محسوس ہونا یا ہر وقت تھکاوٹ طاری رہنا ذیابطیس کی اہم علامت ثابت ہو سکتی ہے ۔اس میں مبتلا ہونے کی صورت میں خوراک جسم میں توانائی بڑھانے میں ناکام رہتی ہے اور ضرورت کے مطابق توانائی نہ ہونے سے تھکاوٹ کا احساس اور سستی طاری رہتی ہے۔ اسی طرح ذیابطیس ٹائپ ٹو میں شوگر لیول اوپر نیچے ہونے سے بھی تھکاوٹ کا احساس غلبہ پالیتا ہے۔

٭…وزن کا کم ہونا

جسمانی وزن میں اضافہ ذیابطیس کے لیے خطرے کی علامت قرار دی جاتی ہے، تاہم وزن میں کمی آنا بھی اس مرض کی ایک علامت ہوسکتی ہے۔ جسمانی وزن میں کمی دو وجوہات کی بناءپر ہوتی ہے، ایک تو جسم میں پانی کی کمی ہونا اور دوسری خون میں موجود شوگر میں پائے جانے والی کیلوریز کا جسم میں جذب نہ ہونا۔ ذیابطیس کا علم ہونے کی صورت میں جب لوگ اپنے بلڈ شوگر کو کنٹرول کرنا شروع کرتے ہیں تو اس کے نتیجے میں وزن بڑھ سکتا ہے ،مگر یہ اچھا امر ہوتا ہے، کیوں کہ اس کا مطلب ہوتا ہے کہ بلڈ شوگر ک لیول زیادہ متوازن ہے۔

٭…بینائی میں دھندلاہٹ

ذیابطیس کی ابتدائی سطح پر آنکھوں کے لینس منظر پر پوری طرح توجہ مرکوز نہیں کرپاتے، کیوں کہ آنکھوں میں گلوکوز کی مقدار بڑھ جاتی ہے، جس کے نتیجے میں عارضی طور پر اس کی ساخت یا شیپ بدل جاتی ہے۔ چھ سے آٹھ ہفتے میں جب مریض کا بلڈ شوگر لیول مستحکم ہوجاتا ہے تو دھندلا نظر آنا ختم ہوجاتا ہے ،کیوںکہ آنکھیں جسمانی حالت سے مطابقت پیدا کرلیتی ہیں اور ایسی صورت میں ذیابطیس کا چیک اپ کروانا ضروری ہوتا ہے۔

٭…زخموں کا نہ بھرنا

زخموں کو بھرنے میں مدد دینے والا دفاعی نظام اور پراسیس بلڈ شوگر لیول بڑھنے کی صورت میں موثر طریقے سے کام نہیں کرپاتا، جس کے نتیجے میں زخم یا خراشیں معمول سے زیادہ عرصے میں مندمل ہوتے ہیں۔

٭…پیروں میں جھنجھناہٹ

ذیابطیس کی شکایت ہونے سے قبل بلڈ شوگر میں اضافہ جسمانی پیچیدگیوں کو بڑھا دیتا ہے۔ اس مرض کے نتیجے میں اعصابی نظام کو بھی نقصان پہنچتا ہے اور اس کے نتیجے میں آپ کے پیروں کو جھنجھناہٹ یا سن ہونے کا احساس معمول سے زیادہ ہونے لگتا ہے کہ جو کہ خطرے کی علامت ہوتا ہے۔

ذیابطیس میں ہونے والی پیچیدگیاں  

خون میں شوگر کی زیادہ مقدار خون کی شریانوں کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔اگر خون کا جسم میں بہاؤ ٹھیک نہ ہو تو یہ ان اعضا تک نہیں پہنچ پاتا جہاں اس کی ضرورت ہوتی ہے اس کی وجہ سے اعصاب کو نقصان پہنچنے کا خطرہ ہوتا ہے ،جس کی وجہ سے درد اور احساس ختم ہو جاتا ہے، بینائی جا سکتی ہے اور پیروں میں انفیکشن ہو سکتا ہے۔ نابینا پن، گردوں کی ناکارہ ہونے، دل کے دورے، فالج اور پاؤں کٹنے کی بڑی وجہ ذیابطیس ہی ہے۔

صحت سے مزید