عسکری صاحب ان نقادوں میں نہیں تھے جو ساری عمر خطِ مستقیم پر سفر کرتے ہیں۔ اُن کا فکری سفر بادی النظر میں ایک دوسرے سے ٹکراتے اور کہیں تو ایک دوسرے کو قطع کرتے ہوئے خطوط پر آگے بڑھتا نظر آتا ہے۔ انہوں نے ہماری تہذیب، ادب اور زندگی کی بابت جتنے بڑے بڑے غور طلب سوالات اٹھائے اور اپنے ذہنی سفر میں واقع ہونے والی تبدیلیوں کو جس طرح نہ صرف قبول کیا بلکہ جس جرأت کے ساتھ ان کا اعتراف بھی کیا، اُس کی دوسری کوئی مثال پوری اردو تنقید میں نہیں ملتی۔
بات یہ ہے کہ جرأت مندی ادب و فکر میں ہو یا زندگی کے میدان میں، جہاں بھی ظاہر ہوتی ہے، اپنے بارے میں متضاد رویوں کو جنم دیتی ہے۔ یہی حسن عسکری کے ساتھ بھی ہوا۔ کچھ لوگوں نے ان میں تضاد دریافت کیا۔ حالاں کہ یہ تضاد نہیں تبدیلی کا عمل تھا۔فکری تضاد کا مطلب ہوتا ہے، دو ایسے خیالات یا نظریات یا فکری رویوں کا ایک جگہ یا بہ یک وقت جمع ہونا جو ایک دوسرے کو رد کرتے ہوں یا ایک دوسرے کی ضد ہوں۔ حسن عسکری کے یہاں فکری صورتِ حال یہ نہیں تھی۔
مخالفت کا آغاز محمد حسن عسکری اور ترقی پسندوں کے مابین مناقشے سے ہوا تھا جب انھیں رجعت پسند اور قدامت پرست قرار دیا گیا ۔
حسن عسکری کے سلسلے میں جو غلط فہمی ہمیں ان کے اواخرِ عمر کے کام کے حوالے سے دیکھنے کو ملتی ہے، وہ انتہا پسندی کی تو بے شک غمازی کرتی ہے لیکن کوئی نئی چیز بہرحال نہیں ہے۔ ان کے کام کی طرف یہ رویہ تو شروع ہی سے دیکھنے میں آتا ہے۔ مثال کے طور پر ابتداً جب وہ ’’ساقی‘‘ میں ’’جھلکیاں‘‘ کے عنوان سے ادبی مضامین لکھ رہے تھے تو کہا جاتا تھا کہ وہ مغرب کے آدمی ہیں۔ ان کے فکر و نظرکا بنیادی مآخذ مغرب ہے، مغرب ان کا اوڑھنا بچھونا ہے۔
اس قسم کے اعتراضات صرف ترقی پسندوں ہی کی طرف سے نہیں تھے بلکہ ان کے ساتھ جدیدیت کے علم بردار بھی اپنے انداز اور اپنے رنگ میں ایسے ہی یا ان سے ملتے جلتے کچھ اعتراضات کرتے تھے۔ اس حقیقت سے تو انکار نہیں کرسکتا کہ ایک زمانے میں اُن کے یہاں واقعی مغربی ادب اور فن و اسالیب کے حوالے تواتر سے آیا کرتے تھے۔
جوئس، پائونڈ، والیری، مشل فوکو، ژاک ماری تاں، مارسل پروسٹ اور ڈی ایچ لارنس ہی کے نہیں بلکہ کامیو اور سارتر ایسے وجودیت اور افادیت کے علم برداروں تک کا تذکرہ ہوتا تھا لیکن کیا اس کے ساتھ ہی ساتھ میر، غالب، اقبال، پریم چند، منٹو، عظیم بیگ چغتائی اور غلام عباس وغیرہ کا ذکر ان کے یہاں نہیں ملتا۔ یقینا ملتا ہے اور بارہا ملتا ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ انہوں نے اردو زبان، اس کے لسانی ڈھانچے اور اس کی داخلی سکت پر بھی جو کچھ لکھا ہے، کیا وہ ہمیں اردو کے کسی دوسرے نقاد کے یہاں اس تواتر اور ایسی نظر کے ساتھ دکھائی دیتا ہے۔
انہوں نے مغرب کا مطالعہ کسی طرح کی ذہنی عیاشی یا پھر اردو والوں پر اپنی دھاک جمانے کے لیے نہیں بلکہ حقیقت کی تلاش و جستجو میں کیا تھا۔ اس جستجو میں مرعوبیت کا شائبہ تک ان کے یہاں نظر نہیں آتا۔ مرعوبیت کا تو سوال ہی کیا، وہ مغرب پر جب نظر ڈالتے تو تنقیدی نظر ہی ڈالتے،اور یہ بعد کے زمانوں کی بات نہیں، اپنے ادبی تصنیفی سفر کے ابتدائی مراحل سے ہی ان کا یہ اندازِ نظر بن گیا تھا۔
مثال کے طور پر اپنے افسانوی مجموعے ’’جزیرے‘‘ کے اختتامیے میں انھوں نے مغرب کو جس طرح انحطاط پذیر بتایا ہے اور نئے شعور کو پانے کے لیے اس کے جس داخلی اضطراب کا ذکر کیا ہے، کیا یہ باتیں مغرب کی روح تک پہنچے اور ہر طرح کی مرعوبیت سے آزاد ہوئے بغیر کی جاسکتی تھیں؟ ہرگز نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ حسن عسکری کی فکری منزل مغرب نہیں تھا۔ ان کے تو اصل میں کچھ اور ہی سوالات تھے جو انھیں حقیقت کی جستجو میں لیے پھرتے تھے۔ اس جستجو میں انھوں نے مغربی فکر و ادب کی راہوں کو بھی کھنگالا، اور اس طرح کھنگالا کہ مغرب کی روح کے راز ان کے شعور پر افشا ہوگئے۔
انھوں نے یہ جان لیا کہ مغرب اصل میں جو تصورِ حیات لیے ہوئے ہے وہ سراسر مادّی ہے اور مادّیت کے اس جال میں وہ اسی طرح پھنسا ہوا ہے جس طرح مکڑی اپنے بنائے ہوئے جال میں پھنس کر رہ جاتی ہے۔ ان کی نگاہِ نکتہ رس نے یہ دیکھ لیا تھا کہ مغرب اس مادّیت سے اٹھنے یا اس سے نکلنے کی کوشش نہیں کر رہا بلکہ اس کی شکلیں بدل بدل کر خود کو دھوکا دے رہا ہے۔ وہ سمجھ گئے تھے کہ اس مادّیت نے روپ بدل بدل کر مغرب میں اپنا اظہار کیا ہے۔ کبھی یہ عقلیت پرستی کہلائی اور کبھی فطرت پرستی، کبھی ترقی پسندی ہوئی، کبھی آمریت اور کبھی جمہوریت ٹھہری۔
کبھی اس نے افادیت کا اور کبھی اضافیت کا بہروپ بھرا۔ کبھی اکتسابیت اور کبھی تجربیت کا چولا پہنا۔ ظاہر ہے، ان سب رنگوں نے سیاست اور معاشرت کو جس رنگ میں رنگا، اُس سے حذر مغربی معاشرے کے لیے ممکن ہی نہ تھا لیکن عسکری صاحب کی تشویش اور الجھن کا باعث اصل میں یہ بات تھی کہ مغرب کے ادیبوں اور مفکروں نے بھی غیر مادّی اقدار کو چھوڑ کر مادّیت کے آگے سپر ڈال دی تھی۔ چناں چہ مغرب اور اس کی انسانی، تہذیبی اور ادبی صورتِ حال کے بارے میں وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ تجرباتی اور اضافی فلسفے اور سیاست کو اگر ادیبوں کا تخیل مل جائے تو پھر انسانیت کی تباہی کے لیے کسی اور سامان کی ضرورت نہیں رہتی۔
ذہن میں ایک سوال آتا ہے، وہ کیا شے ہے جو کسی لکھنے والے کو خواہ وہ تخلیقی ادیب ہو یا ادب کا ناقد، زندہ رکھتی ہے؟ ہماری ناچیز رائے میں یہ صرف زندگی اور ادب کی طرف اُس کا رویہ ہوتا ہے جو اسے زندہ رکھتا ہے۔ یہی رویہ اس کے تصورِ حیات و کائنات اور اس کے تئیں انسان کی ماہیت کو بیان کرتا ہے۔
محمد حسن عسکری اپنی وفات کے بیالیس تینتالیس برس بعد بھی ہمارے ادب کے مباحث میں آج تک اس لیے زندہ ہیں کہ انھوں نے اپنے عہد کے فکری مسائل کے پیشِ نظر جو کچھ کہا تھا اور جس طرف ہماری معاشرتی انسانی زندگی کو جاتے ہوئے دیکھا تھا اور اُس کی بابت جس تشویش کا اظہار کیا تھا، وہ غلط نہیں تھا۔ اس میں سے کتنی ہی باتیں جو انھوں نے انسان کے وجودی تجربے اور ذہنی عمل کی بابت کہی تھیں اور جو کل تک محض باتیں معلوم ہوتی تھیں، آج وہ جدیددنیا کے انسان کی روزمرہ زندگی کا اشاریہ مرتب کر رہی ہیں۔
ہمارے ادب و تنقید میں محمد حسن عسکری کی اہمیت صرف یہ نہیں کہ انھوں نے مغربی افکار اور مغربی شعر و ادب سے ہمیں متعارف کرایا۔ انھوں نے ہمیں مغرب کو مرعوبیت کے بغیر پڑھنا اور کسی عصبیت کے بغیر اس کی بابت اپنی رائے کا اظہار کرنا بھی سکھایا۔ انھوں نے ہمیں بتایا کہ ہر زمانے اور تہذیب کا زندہ ادب اسی تصورِ حقیقت کا زائیدہ ہوتا ہے جو اُس کی تہذیب کے لیے اصلِ اصول کا کام کرتا ہے۔
اگر آج ہم اپنے لیے مشرق کو قائم نہیں رکھ سکتے تو یہ بھی طے ہے کہ ہم پوری طرح مغرب کے بھی نہیں ہوسکتے۔ انھوں نے واضح کیا کہ مشرق و مغرب کے امتزاج کی کوئی صورت ممکن نہیں۔ حسن عسکری کی یہ باتیں سلیم احمد کے بقول ہماری عافیت کے قلعے پر حملے کے مترادف ہیں۔ لیکن بات یہیں ختم نہیں ہوجاتی۔
حسن عسکری ہمیں بتاتے ہیں کہ مشرق کے پاس اب راستہ یہ ہے کہ وہ مغرب کو اپنے اندر جذب کرے اور پھر اپنا راستہ خود ڈھونڈے، ظاہر ہے یہ اسی وقت ممکن ہے جب مشرق نہ صرف یہ کہ مغرب کی روح میں اترا ہوا ہو بلکہ اسے اپنی بقا کے جوہر سے بھی آگاہی ہو اور وہ طبیعیات سے گزر کر مابعد الطبیعیات کے حقائق تک رسائی کی سکت رکھتا ہو۔حسن عسکری نے ادب کو انسان کے خارجی احوال نہیں بلکہ روحانی واردات کے طور پر دیکھنا اور پڑھنا سکھایا۔
ان سے قبل ہماری تنقید ادب کو انفرادی ذہن کی سرگرمی کے طور پر دیکھا کرتی تھی لیکن انھوں نے ہمیں ادب کو اپنی یعنی مشرقی تہذیب کے سیاق و سباق کے ساتھ مربوط کرکے پڑھنا سکھایا۔ ان کے نزدیک ادب وقت گزاری کا شغل نہیں بلکہ یہ تو انسانی وجود کے اُن اعمال سے سروکار رکھتا ہے جو اس کی ذہنی زندگی سے لے کر تہذیبی شعور کا جغرافیہ تک بدل ڈالتے ہیں۔