• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ کائنات ہمارے اندازوں سے کہیں زیادہ وسیع و عریض ہے، مٹھی بھر ریت میں دس ہزار ذرّات ہوتے ہیں اور یہ تعداد برہنہ آنکھ سے نظر آنے والے ستاروں سے زیادہ ہے لیکن جو بھی ستارے ہم برہنہ آنکھ سے دیکھ سکتے ہیں، وہ اصل ستاروں کی تعداد کا انتہائی کم ہیں، رات کو ہم جو کچھ آسمان پر ملاحظہ کرتے ہیں، وہ قریبی ستاروں کا افق ہے جب کہ کون و مکاں کا دامن لامحدود ستاروں سے لبریز ہے۔ کائنات میں موجود کل ستارے زمین پر موجود تمام ساحلوں کے تمام ریت کے ذرّات سے بھی زیادہ تعداد میں ہیں۔ 

کیا ان میں کسی پر بھی کسی تہذیب نے کبھی بھی جنم نہیں لیا؟ ہماری دودھیا کہکشاں میں یقیناً زمین سے لاکھوں یا اربوں سال پرانے ستارے بھی ہوں گے۔ہمارے سیارے کے وجود میں آنے کے بعد سے کئی ارب سال کے دوران کیا کبھی ایک دفعہ بھی کسی دور دراز تہذیب کا کوئی عجیب و غریب خلائی جہاز ہماری فضا میں مشاہدے کے لیے نہیں اترا۔ 

ماہرینِ فلکیات کی اکثریت اس امر پر متفق ہے کہ ہماری اور دوسری کہکشائوں میں ایسے سورج موجود ہوسکتے ہیں کہ جنھوں نے اپنے سیاروں پر مشتمل اپنے نظامِ شمسی بھی تشکیل دیے ہوں، جن میں زمین جیسے سیّاروں کی موجودگی کا بھی امکان ہو اور ان میں حیات اور نشوونما کے لیے سازگار ماحول بھی موجود ہو۔ 1940ء کے عشرے میں امریکی ماہرِ فلکیات فرینگ ڈریگ نے ہماری دودھیا کہکشاں میں ایسے سیّاروں کی تعداد کے تعین کے لیے کہ جہاں حامل فہم و ادراک مخلوق پائی جاسکتی ہے، ایک کلیہ وضع کیا۔ 

اس بنیاد پر بہت سے ایسے ماہرین نے جو دوسرے سیاروں میں غیر ارضی تہذیب کی موجودگی کے بارے میں خاصے پرامید ہیں، صرف ملکی وے میں جس کے ایک کنارے پر ہمارے نظامِ شمسی کا وجود ہے، ایک لاکھ پچیس ہزار سیاروں کا اندازہ لگایا ہے جہاں زندگی پائی جاسکتی ہے، ہماری کہکشاں میں تقریباً چار سو بلین سورجوں کی موجودگی اور ان کے درمیان نامیاتی سالمات کا پایا جانا ،اس خیال کو مزید تقویت عطا کرتا ہے۔

سائنس دانوں کے مطابق نظامِ شمسی کی پیدایش چار ارب سال قبل ہوئی۔ اس عرصے کے دوران مادرِ ارض پر ’’ہومیوسپین‘‘ یعنی زیرک انسان وجود میں آیا۔ اس طرح دوسرے سیاروں پر بھی اس طرح کی زندگی پروان چڑھ سکتی ہے، ناسا کے تحت قائم شدہ کائنات میں غیر ارضی تہذیب کی تلاش کے سربراہ کے مطابق ہماری کہکشاں میں ایسے سیارے موجود ہیں جہاں اس قسم کی حیات فروغ پاسکتی ہے اور جب ارض پر ایسا ہوسکتا ہے تو غیر ارض پر ایسا کیوں نہیں ہوسکتا۔ 

لیکن ہم اپنے نظامِ شمسی میں کس حد تک ترقی یافتہ تہذیب کی توقع کرسکتے ہیں؟ اگر کوئی تہذیب ہم سے ترقی میں مقابلتاً دس ہزار سال پیچھے ہے تو اس کے پاس کوئی ترقی یافتہ ٹیکنالوجی نہیں ہوگی۔ اگر وہ ہم سے کچھ آگے ہیں تو یقیناً اب تک یہاں کا دورہ کرچکے ہوں گے، کیونکہ ہم تو خود نظامِ شمسی کی چھان بین کررہے ہیں۔ دوسری تہذیبوں سے رابطے کے لیے ہمیں ایسا طریقہ درکار ہے جو نہ صرف بین السیارہ بلکہ بین الستارہ بھی رابطے کے لیے سازگار ہو۔

مثالی صورت حال تو یہ ہونی چاہیے کہ یہ طریقہ سستا اور تیز رفتار ہو تاکہ زیادہ معلومات بھیجی اور حاصل کی جاسکیں۔تہذیب، چاہے جیسے بھی ارتقائی حالت سے گزری ہو، اسے جلد سمجھ سکتے۔ خوش قسمتی سے ایسا ایک طریقہ ہے، جسے ریڈیو فلکیات کہتے ہیں۔ دور دراز ستاروں اور کہکشائوں کے طیفوں کے نقوش ایک جیسے ہیں، نہ صرف کائنات میں، ہر جگہ یکساں کیمیائی عناصر پائے جاتے ہیں بلکہ وہ کوانٹم قوانین بھی یکساں ہیں جو ایٹمی شعاعوں کے جذب اور خارج ہونے پر لاگو ہوتے ہیں۔امریکی خلائی تحقیقاتی ادارے ناسا نے ’’غیر ارضی تہذیب کی تلاش‘‘ کے کام کا آغاز 1969ء میں کیا اور اس سلسلے میں کئی اہم تحقیقاتی خلائی مشن اب تک خلاء میں روانہ کیے جاچکے ہیں۔ 

غیر ارضی تہذیب کی تلاش کے سلسلے میں پائینر 10، 11 اور 12 خلا میں روانہ کیے گئے۔ ان میں ایک تختی رکھی ہے، جس پر یہ عبارت درج ہے کہ انسان نظامِ شمسی میں صرف سیارہ زمین پر موجود ہے۔ اس کے علاوہ وائجر اوّل و دوم اور وائی کنگ وغیرہ بھی خلاء میں ستاروں کی جانب رواں دواں ہیں۔ ان خلائی جہازوں میں زمین اور زمین والوں کے بارے میں معلومات کا ذخیرہ موجود ہے، جب کہ امریکی خلائی گاڑی ’’کروسٹی‘‘ نیز انسان کے بغیر دیگر خلائی مشن کامیابی کے ساتھ مریخ پر اتر چکے ہیں۔

اب وہ وقت دور نہیں جب انسان سطح مریخ پر بھی قدم رکھے گا اور بستیاں بسائے گا۔ہمارے بالکل قریب ایک اور دنیا آباد ہے۔ یہ ہمارا قریب ترین پڑوسی سیارہ مریخ ہے، جس کی سطح کا مشاہدہ ہم معمولی چھوٹی دوربین سے بھی کرسکتے ہیں۔ نظام شمسی کی برادری میں شامل یہ سیارہ ہماری زمین سے بہت مشابہ ہے۔ بظاہر دونوں کی مدت قیام ایک ہے، دونوں کا عرصہ تسلسل بھی ایک ہے، دونوں ہی سورج کی روشنی سے اثر لیتے ہیں۔

زندگی اُٹھتی ہے اور ایک کے اندر تو داخل ہوجاتی ہے لیکن دوسرے کو اپنی اثر پذیری سے محروم رکھتی ہے۔ آخر کیوں؟ یہ فرق کیوں ہے؟ یہی وہ اہم و القاوی سوال تھا اور اب بھی ہے، جس نے دنیائے سائنس میں ایک عرصے ہلچل مچائے رکھی اور عشاق مریخ پر مشتمل اہل سائنس کی ایک مخصوص تعداد ہر دور میں بضد رہی کہ مریخی ماحول حیات آفریں اور حیاتیاتی نقطہ نظر سے سازگار ہے، وہاں پانی بھی وافر مقدار میں موجود ہے، نہریں بہتی ہیں، بادل برستے ہیں اور زندگی اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ رونق افروز ہے۔ 

ایک صدی سے زیادہ عرصے سے انسان سوچ رہے ہیں کہ آیا مریخ پر زندگی موجود ہے؟ لگتا ہے کہ اگلے پانچ برسوں میں ماہرین فلکیات کو اس سوال کا حتمی جواب مل جائے گا۔ 19ویں صدی کے آخری برسوں میں امریکی ہیئت دان پرسیول لوول کا خیال تھا کہ اس نے مریخ کی سطح پر نہریں دیکھی ہیں۔ اس کے بقول یہ مشاہدہ اس بات کا ثبوت تھا کہ ہمارے قریب ترین سیارے پر نہ صرف زندگی کا وجود ہو سکتا ہے بلکہ ممکن ہے کہ وہاں کوئی ایسی تہذیب بھی ہو جو ہماری تہذیب سے برتر و ترقی یافتہ ہو۔ پرسیول لوول کی اس بات سے لوگوں کے لیے ایک نئی خیالی دنیا کے دروازے کھل گئے۔ابتداء میں خلائی مشن ’’وائیکنگ‘‘ مریخ پر پرسیول لوول کی کنال ڈھونڈنے میں ناکام رہا تھا، تاہم عہد جدید کے ترقی یافتہ مشن مریخ پر پانی کی موجودگی کے حتمی ثبوت ڈھونڈنے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔

ایک رپورٹ کے مطابق مریخ پر مشن کے لیے بھیجی گئی خصوصی گاڑی کیوریسٹی نے گپل گڑھے میں کئی چٹانوں میں اس قسم کے مظاہر کی تصاویر کھینچیں، مریخ کے مدار سے نظر آنے والی وادیوں، گزرگاہوں اور ڈیلٹا کے بارے میں بہت عرصے سے خیال تھا کہ یہ پانی سے بنے ہیں لیکن کیوریسٹی نے اس بات کا ثبوت فراہم کردیا۔ امریکا کے پلینٹری سائنس انسٹیٹیوٹ کی ڈاکٹر ریبیکا ولیمز کا کہنا ہے کہ ہم عشروں سے اندازے لگا رہے تھے کہ مریخ کی سطح کو پانی نے ڈھالا ہے لیکن یہ پہلی بار ہے کہ ہم ندی کے پانی کے بہاؤ کے آثار دیکھ رہے ہیں۔ 

امریکی خلائی تحقیقاتی ادارے ناسا (NASA) نے سب سے پہلے کنکروں کی دریافت کی خبر دی تھی، مریخ پر ارضی مظاہر کی عمر کا درست تخمینہ لگانا ممکن نہیں لیکن مریخ گاڑی نے جو چٹانیں دیکھی ہیں وہ یقیناً 3 ارب سال سے پرانی ہیں، ان تصاویر کی مدد سے بخوبی پانی کی گہرائی اور رفتار کا بھی اندازہ لگایا جاسکتا ہے جو کبھی مریخ کی سطح پر رواں دواں تھا۔ بعد ازاں دیگر مہمات بلخصوص چائنا کے مشن نے بھی مریخ پر پانی کی تصدیق کی۔ مریخ سے آنے والی معلومات کا سلسلہ جاری ہے۔ ایک طرف یورپ کے خلائی ادارے ای ایس اے نے برف سے بھرے گڑھے کی تصویریں جاری کیں تو دوسری طرف ناسا کا مشن’ ’ان سائٹ‘‘ بھی اپنے مختلف آلات کو کام میں لا رہا ہے۔

محققین نے سیارہ مریخ کی ابتدا اور ساخت کے متعلق معلومات پر نئی روشنی ڈالتے ہوئے سرخ سیارے کے مائع سے بنے مرکز کے متعلق نئی معلومات فراہم کی ہیں۔برسٹل یونیورسٹی میں کی جانے والی تحقیق میں مریخ کے مرکز میں حرکت کرنے والی آواز کی لہروں کا پہلی بار مشاہدہ کیا گیا ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان لہروں کی کثافت گزشتہ خیال سے قدرے کثیف ہے۔اس صوتی توانائی، جسے زلزلے کی لہریں کہتے ہیں، کی پیمائش یہ بھی بتاتی ہے کہ سیارے کا مرکز جتنا سمجھا جاتا تھا۔

اس سے چھوٹا ہے اور یہ فولاد اور متعدد دیگر عناصر کا مرکب ہے۔مریخ کے طوفانوں کے سبب گردوغبار کے تیزی سے جمع ہونے اور ناسا انسائٹ مارس لینڈر کی طاقت کو کم کرنے کے باوجود، خلائی ایجنسی نے اپنے قیام کو بڑھایا، اس لیے جیو فزیکل ڈیٹا، بشمول مریخ کے زلزلے کے سگنلز، گزشتہ سال کے آخر تک جمع ہوتے رہے۔ سائنس دانوں نے مریخ کے مرکز سے حرکت کرنے والی زلزلے کی لہروں کا پہلی بار مشاہدہ کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’زلزلے کے دو سگنلز، ایک زلزلے کے مقام سے بہت دور اور دوسرے سیارے کے دور دراز پر شہابِ ثاقب ٹکرانے کی جگہ کے سبب سائنس دان زلزلے کی لہروں کے ساتھ مریخ کے مرکز کی جانچ کرسکے۔

مریخ کو کئی حوالوں سے زمین سے مشابہت رکھنے والا سیارہ کہا جاتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ زمین سے باہر کوئی انسانی بستی بسانے کے لیے سائنس دانوں کی نظریں سب سے پہلے مریخ پر ہی پڑتی ہیں۔ مریخ پر بھی زمین کی طرح زلزلے آتے ہیں۔فلکیات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ ان زلزلوں کی وجہ عموماً وہ شہاب ثاقب ہوتے ہیں جو اپنے مدار سے بھٹک کر مریخ کی سطح سے ٹکرا جاتے ہیں۔ شہاب ثاقب جتنا بڑا ہوتا ہے۔ اس کے ٹکرانے سے دھماکہ اور زلزلے کا جھٹکا بھی اتنا ہی شدید ہوتا ہے۔ 

تاہم، سائنس دانوں کے پاس اپنے اس نظریے کو ثابت کرنے کے لیے ٹھوس شواہد موجود نہیں تھے۔اب پہلی بار ہوا ہے کہ انہوں نے چار شہابیوں کے مریخ کی سطح سے ٹکرانے کے بعد دھماکے کی آوازیں اور زلزلے کے ارتعاش کو ریکارڈ کیا ہے۔ امریکی خلائی ادارے ناسا کے مطابق مریخ کی سطح پر ڈیٹا اکھٹا کر کے زمینی مرکز کو بھیجنے کے لیے جو گاڑی اتاری تھی، اس نے مریخ کی سطح پر شہاب ثاقب گرنے سے پیدا ہونے والے دھماکے اور زلزلے کے ارتعاش کا ڈیٹا بھیجا ہے۔

سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ یہ زمین سے باہر کسی اور سیارے پر اپنے آلات کے ذریعے اس نوعیت کا سائنسی ڈیٹا ملنے کا پہلا واقعہ ہے۔ کائنات میں موجود زیادہ تر سیاروں پر کثرت سے شہابیوں اور خلاء میں اڑتی ہوئی چھوٹی بڑی چٹانوں کی بارش ہوتی رہتی ہے، کیوں کہ ان کے گرد ہوا کی تہہ نہیں ہوتی جو خلائی اجسام کا راستہ روک سکے۔ خلائی چٹانوں کی بارش ان سیاروں کو ناقابل رہائش بنا دیتی ہے۔

آج عہد جدید میں مریخ پر ماضی میں بسنے والے زندگی کے آثار ڈھونڈنے کے لئے اور اس سرخ سیارے پر انسانوں کے بسنے کے طریقوں پر بھی جانچ جاری ہے۔ اہل سائنس کے مریخ پر زندگی کے آثار کے حوالے سے مختلف نظریات رہےہیں۔ مریخ پر غیر ارضی تہذیب کی تلاش میں کچھ رپورٹس سے قبل بھی کئی اہم قابل ذکر مشن بھیجے گئے۔ اہل سائنس مریخ کے مزید انکشافات سے باز آنے والے نہیں وہ مزید سربستہ رازوں سے پردہ اٹھانے اور تحقیق کے نئے باب وا کرنے میں رات دن مصروف عمل ہیں۔

سائنس داں 2024ء تک انسانوں کو مریخ تک پہنچانا چاہتے تھے، مگر اب انہوں نے اس کو مزید بڑھاتے ہوئے کہا ہے کہ ایسا اس دہائی کے آخر تک ہوسکے گا۔ 2016ء میں اسپیس ایکس کے بانی نے مریخ میں ایک شہر بسانے کے منصوبے کے بارے میں بتایا تھا اور توقع ظاہر کی تھی کہ انسان بردار مشن 2024ء تک سرخ سیارے پر پہنچ جائے گا۔

اس کے بعد سے کمپنی نے مریخ راکٹ کی تیاری میں کافی پیش رفت کی ہے، مگر وہ اتنی نہیں جو 2024ء کے ہدف کو حاصل کرسکے۔ ایلون مسک کے مطابق ان کے خیال میں 2029ء وہ قریب ترین سال ہے جب ممکنہ طور پر انسان مریخ پر پہلا قدم رکھ سکیں گے۔ یعنی اس سال جب انسانوں کو چاند پر پہلی بار قدم رکھے 60 برس مکمل ہوجائیں گے۔

سائنس اینڈ ٹیکنالوجی سے مزید
سائنس و ٹیکنالوجی سے مزید