عدالتوں کا بنیادی کام انصاف کی فراہمی ہے۔ عدالتیں چہرہ دیکھ کر نہیں بلکہ قانون دیکھ کر فیصلہ کرتی ہیں۔ مگر ہماری بدقسمتی رہی کہ گزشتہ چند برسوں کے دوران ہماری اعلیٰ ترین عدالتوں نے چہرے دیکھ کر فیصلے کئے۔ ذاتی عناد اور بغض پر مبنی فیصلوں کی قیمت ایک عام آدمی کو ادا کرنا پڑی۔کریمنل جسٹس سسٹم کی دھجیاں اڑائی گئیں۔ آئین پاکستان کے بجائے بلیک لاء ڈکشنری کا سہارا لیا جاتا رہا۔ جو ججز عدالتوں میں بیٹھ کر بائیس کروڑ عوام کے نمائندوں کو سسیلین مافیا اور گارڈ فادر جیسے القابات سے نوازتے رہے، آج پتہ چلا ہے کہ دراصل وہ جج صاحبان خود گارڈ فادر بنے ہوئے تھے۔ آئین و قانون پر مبنی نہیںبلکہ چہرہ دیکھ کر فیصلہ کرتے تھے۔ اگر ایک شخص کا چہرہ پسند نہیں آرہا تھا تو اسے بیٹے سے تنخواہ نہ لینے پر نااہل کردیا اور اگر ایک شخص کا چہرہ پسند آرہا تھا تو اسکی غیر قانونی تعمیرات کو جائز قرار دیدیا گیا، منی ٹریل کی بات آئی تو ایسے بینکوں کے کاغذ تسلیم کرلئے جنہیں بند ہوئے بھی دو دہائیاں ہو چکی تھیں۔وجہ صرف یہ تھی کہ اس وقت عدالتیں قانون کے مطابق نہیں بلکہ ذاتی عناد میں چہرے دیکھ کر فیصلے کر رہی تھیں۔ آج کوئی پوچھنے کی جسارت کرسکتا ہے کہ جس سپریم کورٹ کے متنازع ترین فیصلے نے حمزہ شہباز کی پنجاب حکومت کو ختم کردیا اور اس بنچ کا ایک جج دوسرے فریق کے ساتھ مسلسل رابطے میں تھا اور آج وہی جج کرپشن کے ثبوت سامنے آنے پر سپریم کورٹ سے استعفیٰ دیکر بھاگ گیا ہے۔ کیا کوئی تصور ہے کہ ملک کی اعلیٰ ترین عدالت میں ایسے ججز تعینات ہوئے ہیں کہ نظام انصاف بھی شرما جائے۔
آج مجھے تین عورتیں ،تین کہانیوں سے تین جج اور تین کہانیاں یاد آرہی ہے۔ایک سابق چیف جسٹس کھوسہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے صرف اس لئے شریف فیملی کیخلاف فیصلے دئیے، کیونکہ انہیں ایک رفاقت ختم ہونے پر ذاتی غصہ تھا۔ اسی طرح سے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار سے متعلق سامنے آچکا ہے کہ انکے بھائی ڈاکٹر ساجد نثار گردوں کی ٹرانسپلانٹ کے مریضوں کو انڈیا بھیجتے تھے اور یوں میڈیکل ٹورازم سے انہیں اچھاخاصا کمیشن ملتا تھا۔ شہباز شریف نے یہ غلطی کی کہ غریبوں کیلئے پنجاب میں ہی پاکستان کڈنی اینڈ لیور انسٹیٹیوٹ بنا دیا اور یوں لاہور میں کروڑوں روپے لٹوانے والے غریبوں کا مفت علاج ہونے لگے۔ چونکہ اس سے ثاقب نثار کے بھائی کا کاروبار متاثر ہواتو انہوں نے اپنے بھائی کے کہنے پر ڈاکٹر سعید کو گھر بلا کر ذلیل کیا اور دھمکیاں دیں۔ اتنا شاندار ہسپتال ثاقب نثار دور میں محض کرونا کا قرنطینہ مرکز بنا رہا۔ یہ دوسرے جج کی داستان تھی،اسی طرح سے تیسرے جج اعجاز الاحسن، جو چند ماہ بعد چیف جسٹس بننے والے تھے،نے اچانک سے استعفیٰ دیدیا۔ بہرحال اس کی تحقیقات تو ایک نیشنل کمیشن کرے گا،مگر ا س جج کے بھائی اظہار الاحسن کے بارے میں سب کو معلوم ہے کہ وہ اتفاق فاؤنڈری میںملازم تھے۔ممکن ہے کبھی اتفاق کے مالکوں نے کوئی ٹارگٹ پورا نہ ہونے پر اپنے ملازم کو کچھ کہہ دیا ہو، آج انکے بھائی نے جج بن کر احتساب عدالتوں کے ججز کو گھر بلا بلا کر اتفاق فاؤنڈری کے مالک کیخلاف صرف اسلئے فیصلے کرنے پر مجبور کیا، کیونکہ وہ قانون کے مطابق نہیں بلکہ چہرہ دیکھ کر فیصلہ کررہا تھا۔ یہ ہمارے ججز کا حال ہے جنہوں نے ایک منتخب وزیراعظم کو صرف اسلئے نشانہ بنایا کہ ماضی میں اس شخص نے انہی ججز کو ناجائز کاروباری مفاد دینے سے انکار کیا تھا۔ یہ ہیں تین ججز کی تین کہانیاں۔آج اسی سوچ کے حامل دانشور سمجھتے ہیں کہ قاضی فائز عیسیٰ بھی قانون نہیں بلکہ چہرہ دیکھ کر فیصلہ کریں، کیونکہ انکا خان بہت ہینڈ سم ہے۔لیکن قاضی فائز عیسیٰ کا مسئلہ یہ ہے کہ سامنے انکا بیٹا بھی کھڑا ہو ،وہ پھر بھی انصاف پر مبنی فیصلہ کرنے کا قائل ہے اور انصاف ہمیشہ قانون پر عمل کرنے سے ملتا ہے۔آج قاضی فائز عیسی ٰ پر تنقید کرنیوالے توجیہ دے رہے ہیں کہ میرٹ پر تو فیصلہ ٹھیک ہے لیکن کیا حرج تھا کہ چیف جسٹس اپنی صوابدید کا استعمال کرتے ہوئے ایک دفعہ غلطی معاف کردیتے اور غیر قانونی عمل کو قانونی قرار دے دیتے۔ کیونکہ یہ لوگ گزشتہ چند سال سے اپنی غلطیاں سپریم کورٹ سے درست کروانے کے عادی ہوچکے تھے، اسلئے اس مرتبہ انہیں یہ فیصلہ ہضم کرنے میں دقت پیش آرہی ہے۔
سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ گزشتہ کئی ماہ سے سوشل میڈیا پر ہدف تنقید ہیں۔ کچھ صحافی، یو ٹیوبرز اور ایک سیاسی جماعت کے سپورٹر کثیر تعداد میں ان کیخلاف ہرزہ سرائی جاری رکھے ہوئے ہیں۔قاضی فائز عیسیٰ کا بڑا پن ہے کہ انہوں نے اس معاملے پر گزشتہ کئی ماہ سے خاموشی اختیار کر رکھی ہے، وگرنہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے خلاف جس طرح کی لغو زبان استعمال کی جارہی ہے، ایک جوڈیشل آرڈر ان کی نسلوں کا سافٹ وئیر اپ ڈیٹ کرنے کیلئے کافی ہے۔لیکن قاضی فائز عیسیٰ کوئی ایک فرد نہیں ہے، اس وقت ملک کا چیف جسٹس ہے،وفاقی حکومت،ڈی جی ایف آئی اے اور دیگر تحقیقاتی اداروں کی اس معاملے پر خاموشی ایک مجرمانہ غفلت ہے۔ ریاست اتنی بے حس ہوچکی ہے کہ اسے معلوم نہیں کہ اس کے چیف جسٹس کیخلاف چند لوگ انتشار پھیلا رہے ہیں اور ریاستی ادارے انتظار کررہے ہیں کہ سپریم کورٹ از خود نوٹس لے گی تو ہم کچھ کریں گے۔