• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہر آنے والا سال ہمارے لئے کئی اُمیدیں اور توقعات لے کر آتا ہے۔ ہر سال کے آغاز پر طلوع ہونے والا سورج ہمیں یہ درس دیتا ہے کہ ہم اپنا محاسبہ کرکے ماضی کا جائزہ لیں اور اپنے حال کی اصلاح کرتے ہوئے صحیح سمت کی جانب مستقبل کی منصوبہ بندی کریں تاکہ آنے والا سال ہمارے لئے ایک کامیاب اور خوشیوں سے بھرا سال ثابت ہو۔ دنیا کی مختلف اقوام نیا سال مناتے وقت اپنی گزشتہ غلطیوں سے سبق سیکھ کر آئندہ سال وہ غلطیاں نہ دہرانے کا عزم کرتی ہیں۔ ماضی کی بہ نسبت گزشتہ کئی سالوں سے اسلامی معاشرہ نیا سال منانے میں مغربی معاشرے سے کہیں زیادہ پرجوش نظر آرہا ہے اور وہی رسم و رواج اختیار کررہا ہے جو مغرب نے اپنارکھے ہیں جس پر بے دریغ دولت لٹاکر مغرب کی تقلید کی جارہی ہے۔ گزشتہ کئی سالوں سے یہ دیکھا جارہا ہے کہ خلیجی ممالک میں نئے سال کے آغاز پر آتش بازی کا مظاہرہ کرنا ایک روایت بن چکا ہے اور آج دبئی کا شمار اُن شہروں کیا جانے لگا ہے جہاں نئے سال کی آمد پر دنیا کی سب سے بڑی اور مہنگی ترین آتش بازی کی جاتی ہے۔ ہر سال کی طرح اس سال بھی دبئی آتش بازی کے مقابلے میں سب سے آگے رہا جبکہ یو اے ای کے شہر راس الخیمہ اور دوسرے اسلامی ممالک میں بھی آتش بازی کا مظاہرہ کیا گیا۔

گزرا ہوا سال مسلمانوں بالخصوص فلسطینیوں کیلئے اچھا سال ثابت نہیں ہوا جس میں اسرائیل نے غزہ کے 25 ہزار سے زائد مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلی جن میں بڑی تعداد بچوں اور خواتین کی تھی اور صہیونی طاقتوں کی خواہش ہے کہ فلسطینیوں کی نسل کشی کا سلسلہ 2024 میں بھی جاری رہے۔ اس طرح اس بار نیا سال ایسے موقع پر آیا جب غزہ پر اسرائیلی جارحیت، ظلم و بربریت اور خونی کھیل جاری تھا، نہتے فلسطینیوں اور معصوم بچوں کو نشانہ بنایا جارہا تھا۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ فلسطینیوں کی نسل کشی پر نئے سال کی آمد پر تمام اسلامی ممالک یکجہتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے فلسطینیوں بھائیوں کے غم میں شریک ہوتے مگر افسوس کہ کچھ اسلامی ممالک نئے سال کی آمد پر آتش بازی میں مصروف رہے۔ آتش بازی اور جشن منانے میں جن اسلامی ممالک نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، اُن میں متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب سرفہرست رہے جہاں ایک اندازے کے مطابق آتش بازی پر کئی ملین ڈالرز جھونک دیئے گئے، یہ جانے بغیر بھی مسلمانوں کا سال یکم محرم الحرام سے شروع ہوتا ہے۔ اسلامی ممالک میں آتش بازی کے مناظر دیکھ کر غزہ کے مظلوم مسلمان یہ ضرور سوچ رہے ہوں گے کہ ایسے میں جب اسرائیل نے ہمارے گھروں اور اسپتالوں پر گولہ باری کرکے ظلم و بربریت کا بازار گرم کر رکھا ہے، یہ کیسے مسلمان بھائی ہیں جو اپنے فلسطینی بھائیوں کے زخموں پر نمک پاشی کررہے ہیں۔

یہ بات خوش آئند ہے کہ پاکستان سمیت مراکو، ترکی اور مصر میں نئے سال پر آتش بازی کے بجائے فلسطینیوں کے حق میں بڑے مظاہرے کئے گئے جس میں ہزاروں افراد نے شرکت کی۔ پاکستان میں بھی اس بار نئے سال کے موقع پر روایتی گرمجوشی دیکھنے میں نہیں آئی اور پاکستانیوں نے اپنے فلسطینی بھائیوں سے اظہار یکجہتی کرتے ہوئے نئے سال کا جشن منانے سے اجتناب کیا۔گوکہ حکومت کی جانب سے اسرائیلی بربریت کے خلاف کوئی سخت موقف یا بیان سامنے نہیں آیا اور حکومت صرف مذمتی بیانات سے محدود ہے مگر عوام انفرادی طور پر اسرائیلی اشیاء کابائیکاٹ کررہےہیں جس سے اسرائیلی معیشت کو دھچکا لگاہے۔ ساتھ ہی نئے سال کے موقع پر اگر اسلامی ممالک کے عوام فلسطینیوں کے حق میں ریلیاں اور احتجاجی مظاہرے کیلئے نکلتے تو اس سے اسرائیل پر عالمی دبائو بڑھتا۔ میں نے اپنے گزشتہ کالم میں تحریر کیا تھا کہ ایک غیر اسلامی ملک جنوبی افریقہ فلسطینیوں کی نسل کشی کا معاملہ عالمی عدالت انصاف میں لے کر گیا جبکہ مسلمانوں کی نسل کشی پر اسلامی ممالک اور ان کی نمائندہ تنظیم او آئی سی نے بالکل خاموشی اختیار کئے رکھی کیونکہ تنظیم میں شامل کئی ممالک امریکی، یورپی دبائو اور اسرائیل سے اپنے تجارتی مفادات کے باعث کوئی سخت ایکشن لینے کے حق میں نہیں۔ یہ امر باعث افسوس ہے کہ جہاں ایک طرف اسلامی ممالک آتش بازی پر کروڑوں ڈالر آگ کی نذر کررہے تھے تو دوسری طرف ورلڈ ٹینس ایسوسی ایشن (WTA) کے فائنل کی فاتح تیونس کی 29 سالہ خاتون کھلاڑی اونس جیبی یور نے انعام میں جیتی ہوئی خطیر رقم فلسطینیوں کو عطیہ کرکے مسلمانوں کے دل جیت لئے۔

حضور اکرم ﷺ کا فرمان ہے۔ ’’مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں، جسم کے کسی ایک حصے میں تکلیف ہو تو اس کا احساس پورے جسم کو ہوتا ہے۔‘‘ ایک مسلمان کیلئے یہ کس طرح ممکن ہے کہ ایک طرف اسرائیل، فلسطینیوں کے قتل عام اور نسل کشی کررہا ہے اور دوسری طرف کچھ اسلامی ممالک اپنے فلسطینی بھائیوں کی تکلیف کا احساس کئے بغیر نئے سال پر آتش بازی میں مگن ہیں۔ اگر تمام اسلامی ممالک نئے سال کے موقع پر یہ طے کرلیتے کہ کوئی اسلامی ملک نئے سال کا جشن نہیں منائے گا اور آتش بازی پر خرچ ہونے والی رقم فلسطینیوں میں تقسیم کی جائے گی تو فلسطینی بھائیوں کے آنسو پونچھے جاسکتے تھے اور انہیں یہ احساس ہوتا کہ مسلمان بھائی غم کی اس گھڑی میں ہمارے ساتھ کھڑے ہیں۔ کاش کہ مسلمانوں کو اپنے دوسرے مسلمان بھائیوں کے غم بانٹنے اور ان کی تکالیف کا احساس ہوجائے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین