کراچی (رفیق مانگٹ) پاکستان اور ایران کے ایک دوسرے پر حملوں پر غیر ملکی ذرائع ابلاغ نے اپنےتجزیوں میں لکھا کہ ایران اور پاکستان کے لیے آگے کیا ہے یہ ایک ملین ڈالر کا سوال ہے۔
اسلام آباد کی طرف سے ردعمل ہندوستان کیلئے اشارہ ہے، ہندوستانی وزیر خارجہ اس وقت تہران میں تھے جب ایرانی حملہ ہوا،تہران نے پاکستان کے حوالے سےغلط اندازہ لگایا یہ ایک پی آر اسٹنٹ تھا،ایران نے پاکستان کو ناراض کرنے کے علاوہ کچھ حاصل نہیں کیا۔
یہ فلیش پوائنٹ یمن اور غزہ میں جاری تنازعات سے کیسے مطابقت رکھتا ہے؟اسلام آباد کے ساتھ امریکی اثر و رسوخ کم ہو گیا ۔قطر، کویت اور سعودی عرب کردار ادا کر سکتے ہیں
پاکستانی اور ایرانی افواج کا آمنے سامنے آنےکا امکان نہیں،ایران پاکستان میزائل حملے نے سفارت کاری کو امتحان میں ڈال دیا،عالمی برادری کے پاس ایران پاکستان کشیدگی کم کرنے کے لیے محدود آپشنز ہیں۔
امریکی تھنک ٹینک’ اٹلانٹک کونسل‘ نے ماہرین کے حوالے سے کہا یہ فلیش پوائنٹ یمن اور غزہ میں جاری تنازعات سے کیسے مطابقت رکھتا ہے؟ سابق امریکی سفیراورمعاون وزیر خارجہ این پیٹرسن نے کہاعالمی برادری کے پاس ایران پاکستان کشیدگی کم کرنے کے لیے محدود آپشنز ہیں۔
بین الاقوامی ردعمل الجھن کا شکار ہو سکتا ہے،اسلام آباد کے ساتھ امریکی اثر و رسوخ کم ہو گیا ۔قطر، کویت اور سعودی عرب کردار ادا کر سکتے ہیں۔ اٹلانٹک کونسل کے سنیئر فیلومارک این کاٹز نے کہا ایران اور پاکستان کے حملوں میں اضافے کا امکان نہیں۔
میڈیا ان حملوں کو کسی نہ کسی طرح اسرائیل اور حماس کے تنازع کے تناظر میں دیکھ رہی ہے، لیکن ایسا نہیں،نہ ایران اور نہ ہی پاکستان نے دوسرے کی افواج یا اثاثوں پر حملہ کیا۔اس کے بجائے، ہر ایک نے اس کے خلاف حملہ کیا جسے وہ دوسرے علاقے کے اندر عسکری قوتیں سمجھتے ہیں ،پاکستانی اور ایرانی افواج کا آمنے سامنے آنےکا امکان نہیں،اگر ایسا کرتے ہیں تو چین، روس اور ممکنہ طور پر یورپی یونین دونوں ممالک کے ساتھ کام کر سکتی ہیں۔
اٹلانٹک کونسل کے بانی ڈائریکٹر شجاع نواز نے کہاایران نے پاکستان کے ساتھ ماضی کی شکایات کو دوبارہ زندہ کیا،حملے سےایران پاکستان تعلقات ٹوٹ پھوٹ کے قریب پہنچ گئے۔ مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ کے پالیسی ڈائریکٹرجیسن ایم بروڈسکی نے کہاایران اور پاکستان کے درمیان کشیدگی کافی عرصے سے چلی آ رہی ہے۔
ایرانی حکومت نے ممکنہ طور پر اس بات کا اندازہ لگایا کہ اس علاقائی تناظر میں جواب نہ دینے کی قیمت بہت زیادہ ہے۔پاکستانی کا اہداف کا انتخاب ایرانی حملوں کا متناسب ردعمل تھا۔ ماہر ڈینی سیٹرینووکز نے کہا شام، عراق یا پاکستان پر میزائل داغنے سے ایران کی سلامتی کے مسائل حل نہیں ہوں گے، میزائل حملہ ایک ہی چال ہے۔
سیکورٹی مسائل سے نمٹنے کی کمی بار بار میزائل فائر کرنے پر مجبور کرتی ہے۔جیسن ایم بروڈسکی نے کہا ایران حملہ اس کی تشویش کو ظاہر کرتی ہے کہ اس کی ڈیٹرنس ختم ہو گئی ہے۔رابعہ اختر نے کہا ایران پاکستان میزائل حملے سفارت کاری کو امتحان میں ڈال رہے ہیں۔
کارمیل آربٹ نے کہا پاکستان ایران حملے علاقائی کشیدگی کو کم کرنے کی امریکی کوششوں کو مزید مایوس کر دیں گے۔کیلی جے شینن نے کہا حملوں سے مشرقِ وسطیٰ کو مزید عدم استحکام کا خطرہ ہے۔