کراچی (نیوز ڈیسک) یمن میں ایرانی حمایت یافتہ حوثی جنگجوئوں پر امریکا کے حالیہ فضائی حملے ظاہر کرتے ہیں کہ امریکا کی سرپرستی میں مغربی ممالک بالخصوص امریکا مشرق وسطیٰ میں اپنی پالیسیوں میں کامیاب نہیں ہوسکے۔
ان سب کی سب سے بڑی ناکامی اسرائیل فلسطین تنازع حل نہ ہونا ہے۔ برطانوی اخبار دی گارڈین میں شائع ہونے والے آرٹیکل میں کہا گیا ہے کہ امریکا کو برطانیہ کی مدد کے ساتھ حوثیوں کیخلاف طاقت کا استعمال کرنا پڑا کیونکہ حوثی جنگجو بحیرہ احمر میں بحری جہازوں پر حملہ کر رہے تھے جس سے تجارت میں مشکلات پیدا ہو رہی تھیں۔
حوثیوں کا بدستور حملے کرنا اور مزید حملوں کیلئے عزم کا اظہار ثابت کرتا ہے کہ امریکا سیاسی طاقت کھو رہا ہے، اس کی سفارت کاری ٹھیک کام نہیں کر رہی، اور امریکا کی بالادستی کا احترام نہیں کیا جا رہا۔
یہ تمام تر صورتحال ایک حقیقت واضح کرتی ہے کہ مشرق وسطیٰ میں سب سے زیادہ بااثر طاقت اب امریکا، مصر، سعودی عرب یا اسرائیل نہیں رہے۔ بلکہ حوثی جنگجوئوں کا حامی ملک ایران مشرق وسطیٰ میں سب سے بڑی طاقت بن کر سامنے آ رہا ہے۔
غزہ کی خوفناک صورتحال میں جیتنے اور ہارنے والوں کے بارے میں بات کرنا بہت آسان ہے۔ حوثیوں کا دعویٰ ہے کہ غزہ میں اسرائیلی مظالم کی وجہ سے انہوں نے اپنی مہم شروع کی۔
لیکن تصویر کا دوسرا رُخ دیکھنے کی کوشش کریں تو معلوم ہوگا کہ اس نئی صورتحال سے ایران کو فائدہ ہو رہا ہے۔ جب بھی کچھ برا ہوتا ہے، مثلاً فلسطینیوں کی شہادت، حزب اللہ کے میزائل حملے یا پھر عراق اور شام میں بمباری، ان سب کی وجہ سے ایران کا اثر و رسوخ مضبوط ہو جاتا ہے۔
امریکی صدر جو بائیڈن کے جن اقدامات کی وجہ سے دنیا کے کئی ممالک پریشان ہوئے ہیں ان میں اسرائیل کی مکمل حمایت کا وعدہ اور جنگ بندی کیلئے مختلف ممالک کی جانب سے کی جانے والی کوشوں کو روکنا شامل ہیں۔