• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تفہیم المسائل

سوال: میرے شوہر نے مجھے13نومبر کو اپنے اور اپنے والد کے نام سے مخاطَب کر کے میرا اور میرے والد کا نام لے کر تین بار طلاق دی ، بعد میں انھوں نے ایک اسلامی اسکالر کا حوالہ دیا کہ اس سے ایک ہی طلاق واقع ہوتی ہے اور تین ماہ کے اندر رجوع کرسکتے ہیں، اس دوران اس نے پھر مجھے دوبار طلاق دی اور پھر حیض کے تیسرے دورانیے سے پہلے آکر رجوع کرلیا اور جب دوسری بیوی کورجوع کا پتا چلا تو قرآن پر جھوٹا حلف اٹھالیا کہ میں نے رجوع نہیں کیا اور پھر تین بار میرا نام لے کر طلاق دے دی، اب مجھے پھر کال کر کے کہہ رہا ہے، وہ میں نے غصے میں دی تھی، وہ طلاق واقع نہیں ہوئی اور پہلے کا رجوع ہوچکا ہے،(ایک مستفتیہ، نیو یارک ،امریکہ)

جواب: صورتِ مسئولہ میں پہلی مرتبہ آپ کو آپ کے سابق شوہر نے جو تین طلاقیں دیں ، اُس سے دونوں ایک دوسرے پر حرام ہوگئے، تین طلاقیں، تین ہی ہوتی ہیں اور اس کے بعد رجوع کی گنجائش باقی نہیں رہتی، علامہ یحیٰ بن شرف الدین نو وی شافعی لکھتے ہیں: ترجمہ :’’جس شخص نے اپنی بیوی سے کہا:’’تجھے تین طلاقیں ہیں‘‘: ، امام شافعی،امام مالک، امام اعظم ابو حنیفہ اور امام احمد بن حنبل اور جمہور علمائے سلَف وخلَف رحمھم اللہ اجمعین کے نزدیک تین طلاقیں واقع ہوجائیں گی، (صحیح مسلم بشرح النَّوْوِی، جلد10، ص:60، بیروت)‘‘ ۔

اَئِمہ ومشایخ عِظام نے تصریح فرمائی ہے کہ غصہ ارادۂ طلاق کی علامت ہے،ملک العلماء علامہ علاء الدین ابوبکر بن مسعود کاسانی حنفی لکھتے ہیں: ترجمہ:’’غصے کی حالت ( حالتِ غضب )اور مذاکرۂ طلاق ظاہری طور پر طلاق کے ارادے پر دلیل ہوتے ہیں ،لہٰذا طلاق کے کلمات بولنے کے بعد اگر شوہر کلام کی ظاہری معنی کے خلاف مراد بیان کرے ،تو اُس کی تصدیق نہیں کی جائے گی، (بدائع الصنائع ،جلد3، ص:149)‘‘۔ مذاکرۂ طلاق سے مراد یہ ہے کہ شوہر کہے : میں تمھیں طلاق دیتا ہوں یا بیوی طلاق کا مطالبہ کرے اور شوہر طلاق دےدے۔

صدرالشریعہ علامہ امجد علی اعظمی رحمہ اللہ تعالیٰ لکھتے ہیں: ’’آج کل اکثر لوگ طلاق دے بیٹھتے ہیں، بعد کو افسوس کرتے اور طرح طرح کے حیلے سے یہ فتویٰ لیا چاہتے ہیں کہ طلاق واقع نہ ہو، ایک عذر اکثر یہ بھی ہوتاہے کہ غصے میں طلاق دی تھی۔ مفتی کو چاہیے کہ یہ امر ملحوظ رکھے کہ مطلقاً غصے کا اعتبار نہیں ، معمولی غصے میں طلاق ہوجاتی ہے، وہ صورت کہ عقل غصے سے جاتی رہے، بہت نادر ہے ،لہٰذاجب تک اس کا ثبوت نہ ہو محض سائل کے کہہ دینے پر اعتماد نہ کرے، (بہارِ شریعت، جلداول،ص:113)‘‘۔

صدرالشریعہ علامہ امجد علی اعظمی رحمہ اللہ تعالیٰ لکھتے ہیں: ’’طلاق اکثر غصے ہی میں ہوتی ہے اور غصے میں جو طلاق دی جاتی ہے ،واقع ہوتی ہے ،مگر جب کہ غصہ اِس حد کاہو کہ عقل تکلیفی زائل ہوجائے کہ غصے کی شدت میں مجنون اور پاگل کی طرح ہوجائے کہ اسے کچھ امتیاز ہی باقی نہ رہے ،جو کچھ کہے اُس کا علم نہ رہے کہ کیاکہتاہے تو اس صورت میں طلاق واقع نہ ہوگی، مگر یہ یاد رکھنا چاہئے کہ اگر واقع میں اس حد کا غصہ نہ ہو ااورلوگوں پر یہ ظاہر کرتاہے کہ مجھے بالکل خبر نہیں کہ کیا کہاتو اپنے اس جھوٹے بیان سے مؤاخذہ ٔاُخروی سے بری نہ ہوگا اور وہ بیان طلاق کو عنداللہ منع نہ کرے گا اور اگرمعمولی غصہ تھاتو جتنی طلاقیں دی ہیں، واقع ہیں،(فتاویٰ امجدیہ دوم،ص:197 )‘‘۔

آپ نے سوال میں لکھا ہے کہ پہلی مرتبہ13نومبرکو تین طلاقیں دیں، دوسری مرتبہ پھر دو طلاقیں اور پھر تیسری مرتبہ مزید تین طلاقیں دیں،تین متفرق مواقع پر مجموعی طور پر آٹھ طلاقیں ہوئیں ، جن کے نزدیک ایک ساتھ دی جانے والی تین طلاقیں ایک ہوتی ہیں ، اُن کے نزدیک بھی یہ طلاقیں نافذ ہوگئیں اور رجوع کی گنجائش نہیں رہی۔ 

ماضی میں واقع ہونے والے کسی امر کے بارے میں قصداً جھوٹی قسم کھانا گناہِ کبیرہ ہے، اس کا کوئی کفارہ بھی نھیں ہے ، سوائے اس کے کہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں نادم ہوکر صدقِ دل سے توبہ کرے ، تو اُمید کی جاسکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ توبہ قبول فرمائے گا ، کیونکہ حدیث پاک میں فرمانِ رسول ہے: ترجمہ:’’ اللہ تعالیٰ کے حضور اظہارِ ندامت ہی حقیقی توبہ ہے ،(سنن ابن ماجہ:4252)‘‘ (واللہ اعلم بالصواب)