محمد عبدالمتعالی نعمان
پیغمبر آخر و اعظم حضرت محمدﷺ کی حیاتِ طیبہ اور آپ ﷺ کی سیرت پاک میں واقعۂ معراج بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔ اس تاریخ ساز واقعے نے آپ ﷺ کو نبوت و رسالت کی امامت و سیادت اور آپﷺ کی ختم نبوت کو پورے طور پر اجاگر کیا۔
معراج مصطفیٰﷺ، سرورکائنات، امام الانبیاء، ہادی عالم حضرت محمد ﷺکا امتیاز اور ایک عظیم معجزہ ہے۔جو آپ کو تمام انبیائے کرامؑ اور رسولوں پر عظمت ورفعت عطا کرتا ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ یہ معجزاتی سفر آپﷺ کی عظمت ورفعت پر ایک روشن دلیل ہے۔ اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ واقعۂ معراج نہ صرف تاریخ اسلامی بلکہ تاریخ انسانی کے ان عظیم واقعات میں سے ہے، جس نے زمانے کی رفتار کو نہ صرف بدل ڈالا، بلکہ تاریخ پر اپنا مستقل اور گہرا اثر چھوڑا ہے۔
قریش مکہ کی طرف سے نبی اکرمﷺ اور آپؐ کے رفقاء اور بنو ہاشم کا سماجی مقاطعہ (سوشل بائیکاٹ) جو مسلسل تین سال جاری رہا، آپؐ اور آپ کے ساتھیوں کے لیے نہایت پرُ آشوب اور صبر آزما تھا۔ مکے سے باہر گھاٹی میں محصور ہو کر مسلمانوں نے مصائب اور تکالیف کے باوجود عزیمت اور استقامت کا بھر پور مظاہرہ کیا، 10؍نبویؐ میں یکے بعد دیگرے پہلے آپ ؐ کے مہربان و شفیق چچا ابو طالب کی رحلت اور ان کے بعد آپؐ کی دیرینہ ساتھی اور وفا شعار رفیقۂ حیات ام المومنین حضرت خدیجۃ الکبریٰؓ وفات پاگئیں۔ ان متواتر واقعات سے رسول اکرم ﷺبے حد متاثر ہوئے اور آپؐکو سخت رنج و صدمہ پہنچا، یہی وجہ ہے کہ سیرت نگار اس سال کو ’’عام الحزن‘‘ یعنی رنج و غم کا سال، سے موسوم کرتے ہیں۔
بعدازاں آپؐ نے تبلیغ و اشاعت دین کی غرض سے طائف کا قصد فرمایا، لیکن طائف میں ظلم و الم کی ایک سیاہ تاریخ رقم ہوئی۔ طائف کے لوگوں کے تمام مظالم کے باوجود آپؐ نے عزم و ہمت اور صبر و استقامت کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا اور ان کے حق میں دعائے خیر فرمائی اور زخمی و لہولہان واپس آئے۔ سخت ترین آزمائش اور جاں گداز امتحانات کے مراحل طے ہو جانے کے بعد رب العالمین نے امام الانبیاء سید المرسلین سید عرب و عجم، رحمۃ للعالمین، خاتم النبیین حضرت محمد مصطفیﷺ کو عظمت و رفعت کی وہ معراج نصیب فرمائی،جو روز ازل سے آپ کا ہی مقدر اور آپؐ ہی کا اعزاز تھی اور جو حضور انورﷺ کی سیرت پاک پر ایک مرصع تاج کی طرح چمکتی نظر آتی ہے۔
آپﷺ چونکہ خاتم النبیین ہیں اور آپ ؐ کے بعد کوئی نبی نہیں آنے والا، اس لیے اللہ تبارک و تعالیٰ نے آپؐ کو قرآن حکیم کی صورت میں ایک مکمل شریعت، مکمل پیغام اور جامع دستور حیات عطا فرمایا، کائنات کے سربستہ رازوں اور اسرار کا مشاہدہ کرانے اور بنی نوع انسان پر یہ امر واضح کرنے کے لیے کہ جہاں تک اللہ رب العزت کی ’’ربوبیت‘‘ ہے، وہاں تک محمد عربیؐ کی نبوت ہے۔ آپؐ کو اپنی قدرت کاملہ سے رات کے وقت مسجد الحرام سے مسجد اقصیٰ تک سیر کرائی۔ امام الانبیاء کا تاج پہنایا۔
امام الانبیاء کے منصب جلیل پر سرفراز فرمایا اور پھر یہاں سے عالم بالا کی سیر کا شرف بخشا۔قرآن حکیم میں واقعہ معراج کی عظمت اور اس مبارک سفر کی غرض و غایت کے سلسلے میں دو سورئہ مبارکہ سورہ اسریٰ (بنی اسرائیل) اور سورۃ النجم آئی ہیں۔ سورۂ بنی اسرائیل کی پہلی آیت میں اللہ تبارک وتعالیٰ کا ارشاد ہے ’’پاک ہے وہ ذات (ہر نقص اور کمزوری سے) جس نے اپنے (محبوب و مقرب) بندے (محمدؐ) کو رات کے ایک قلیل حصے میں مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک سیر کرائی جس کے گرد و نواح کو ہم نے بابرکت بنا دیا، تاکہ ہم انہیں (محمدؐ کو) اپنی قدرت کی نشانیاں دکھائیں۔بے شک، وہی (اللہ) سب کچھ سننے والا اور سب کچھ دیکھنے والا ہے۔‘‘
آپؐ براق پر سوار ہو کر پہلے مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ پہنچے، جہاں تمام انبیاء اور ملائکہ نے استقبال کیا ،آپؐ کی امامت میں نماز ادا کی۔ یہ آپؐ کی عظمت و رفعت امام الانبیاء اور خاتم النبیین ہونے کا واضح اشارہ تھا۔ اس کے بعد آنحضرتﷺ جبرائیل امینؑ کی معیت میں زمین سے آسمان کی طرف سیر کو روانہ ہوئے اور وہاں مختلف طبقات سماوی میں مختلف جلیل القدر انبیاء سے آپ کی ملاقات ہوئی۔ اسی موقع پر دوسری اہم ہدایات کے علاوہ اللہ تعالیٰ نے آپؐ کی امت پر پانچ وقت نماز کی فرضیت کا حکم دیا۔ دوران سفر آپؐ کو اللہ تبارک و تعالیٰ کی قدرت کی بڑی بڑی نشانیاں دکھانے کے ساتھ ساتھ جنت و دوزخ کے مشاہدات بھی کرائے گئے۔
اس کے بعد آپؐ پہلے بیت المقدس اور وہاں سے مسجد حرام واپس آئے۔ حضورﷺ چوںکہ سرور انبیاء اور سید اولاد آدم ہیں، اسی لیے شب معراج آپ ؐ کو وہاں تک رسائی ہوئی، جہاں تک کسی فرزند آدم کا قدم اس سے پہلے نہیں پہنچا تھا اور آپ ؐ نے وہ کچھ مشاہدہ کیا جو اب تک دوسرے مقربان بار گاہ کی حد سے باہر رہا تھا۔
صبح جب نبی کریمﷺ نے لوگوں کو اس واقعے کی خبر دی تو قریش نے اس پر بے حد تعجب کا اظہار کرتے ہوئے اس معجزاتی سفر کی تکذیب کی اور اس کو ایک ناممکن اور امر محال قرار دیا، مگر جب اس بات کی خبر جانشین رسول، افضل البشر بعد الانبیاء حضرت ابو بکرؓ کو ہوئی تو آپؓ نے نہ صرف اس کی تصدیق کی بلکہ فرمایا میں جس ذات مقدس پہ آسمان سے جبرائیلؑ کے نازل ہونے اور وحی ربانی لے کر حاضر ہونے کا یقین رکھتا ہوں۔
اگر وہ ذات گرامی خود آسمانوں پر بلائی گئی تو اس میں میرے لیے حیرت و تعجب کی کون سی بات ہے۔ اسی بناء پر بار گاہِ رسالتؐ سے آپ ؓ کو ’’صدیق‘‘ کا لقب عطا ہوا۔ اسراء ومعراج کے اس معجزاتی سفر نے جہاں سرکار دو عالمﷺ کی عظمت و رفعت پر مہر تصدیق ثبت کی، وہیں اس عظیم واقعے نے تسخیر کائنات کے مقفل دروازے کو کھولنے کی ابتدا کی۔
بعد ازاں بنی نوع انسان نے تحقیق و جستجو کے بند کواڑوں پر دستک دی اور کائنات/خلا میں دشوار راستوں کی تلاش کا سفر شروع کیا۔ سرور کائنات حضرت محمدﷺکو مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ اور جملہ سماوی کائنات کی بے شمار وسعتوں کے اس پار قاب قوسین کے مقام بلند تک لے جانا اور پھر وہاں سے آپؐ کو آپ کے منصب کا فرمان خاص عطا فرما کر اسی کاشانہ آب و خاک میں واپس لے آنا درحقیقت اس تاریخ ساز سفر کی حقیقت ہے۔
فخر دوعالم حضرت محمد مصطفی ﷺکا سفر معراج قرآن حکیم اور سائنس دونوں کی روشنی میں برحق اور صداقت پرمبنی ہے۔ مغرب کے معروف سائنس داں البرٹ آئن اسٹائن نے اپنا مشہور عالم ’’نظریہ‘‘ نظریہ اضافیت مخصوصہ پیش کیا۔ یہ نظریہ اور جدید سائنسی تحقیق سفر معراج کی تصدیق و تائید کرتی نظر آتی ہیں۔
مگر یہاں ضمناً یہ بات بھی عرض کرنا ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت، اسلام کی صداقت کے لیے ہم سائنس کے محتاج نہیں، یعنی اسلام اور قرآن و شریعت سے رہنمائی سائنس کو حاصل کرنی ہے اور اس کے پیچھے پیچھے سائنس کو چلنا ہے نہ کہ قرآن حکیم کو سائنس کے پیچھے، البتہ جب سائنس کا کوئی نظریہ قرآن و حدیث کے مطابق ہوگا تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ سچ ہوگا، مگر اس کا کوئی نظریہ قرآن و حدیث میں بیان کردہ حقائق سے متصادم ہوگا تو یہی سمجھا جائے گا کہ ابھی سائنس کو مزید تحقیق کی ضرورت ہے کیوںکہ کائنات کے جن رازوں سے دور جدید کے سائنس داں صدیوں کی محنت شاقہ اور تحقیق کے بعد پہنچے ہیں اللہ تعالیٰ نے قرآن میں انہیں چودہ سو سال پہلے ضمناً بیان کردیا ہے جس سے صاف ظاہر ہے کہ یہ کائنات کے خالق کا کلام ہے۔