• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تفہیم المسائل

سوال: میرا نکاح ہوا ، نکاح کے بعد تقریباً20منٹ ہم میاں بیوی ایک کمرے میں ساتھ بیٹھے ، دروازہ ایک فٹ کھلا ہوا تھا ، باہر چہل قدمی بھی ہورہی تھی، اس دوران لڑکی کے والد کمرے میں جھانک کر بھی گئے۔ ہم میاں بیوی کے درمیان تعلق قائم نہیں ہوا ، پانچ دن بعد میں نے ایک تحریری طلاق نامہ بناکر بھیج دیا ، جس میں تین طلاقیں لکھی ہوئی تھیں، کیا اب ہم دوبارہ نکاح کرسکتے ہیں ؟،( جنید انور ، کراچی)

جواب: زوجین کسی ایسے کمرے میں ہوں جس کا دروازہ کھلا ہوا ہو اور وہاں کسی کے آنے پر پابندی نہ ہو ، خَلوتِ صحیحہ سے مانع ہے ،تنویر الابصار مع الدرالمختار میں ہے : ترجمہ:’’ اس میں سے مکان کا (مباشرت) کی صلاحیت نہ رکھنے کا معاملہ باقی رہ گیا، جس طرح مسجد ،حمام ، صحرا ،چھت اور ایسا کمرہ جس کا دروازہ کھلا ہوا ہو ‘‘۔

(قَوْلُہٗ وَبَیْتٍ بَابُہُ مَفْتُوحٌ) کی شرح میں علامہ ابن عابدین شامی لکھتے ہیں: ترجمہ:’’ یعنی اگرکوئی انسان دیکھے تو انھیں دیکھ لے ‘‘۔ مزید لکھتے ہیں: ترجمہ:’’ یعنی مکان خَلوت کی صلاحیت نہ رکھتاہو ، اس سے مرادیہ ہے کہ غیر کے ان (کی ممکنہ مباشرت )پر مطلع ہونے سے امان ہو ، جس طرح گھر، کمرہ اگرچہ اس کی چھت نہ ہو ،(جلد3،ص:116)‘‘۔

صدرالشریعہ علامہ امجد علی اعظمی لکھتے ہیں: ’’ اگر مکان ایساہے ،جس کادروازہ کھلا ہوا ہے کہ اگر کوئی باہر کھڑا ہو تو ان دونوں کو دیکھ سکے یا یہ اندیشہ ہے کہ کوئی آجائے تو خَلوتِ ٍصحیحہ نہ ہوگی ،(بہارِ شریعت ،جلد دوم،ص:69)‘‘۔

ایسی خاتون کو اگر ایک ہی لفظ کے ساتھ تین طلاقیں دی جائیں ، مثلاً: ’’تجھے تین طلاقیں یا میں نے تجھے تین طلاقیں دیں ‘‘،توتینوں طلاقیں اکٹھی واقع ہوں گی اور دونوں ایک دوسرے پر حرام ہوجائیں گے ، البتہ اگر الگ الگ الفاظ سے تین طلاقیں دی ہوں ، مثلاً : ’’میں تجھے طلاق دیتا ہوں، میں تجھے طلاق دیتا ہوں ،میں تجھے طلاق دیتاہوں ‘‘،تو خَلوتِ صحیحہ نہ ہونے کے سبب ایک طلاق سے رشتۂ نکاح ختم ہوگیا اس لیے کہ غیرمدخولہ (جس کے ساتھ مباشرت نہ کی گئی ہو) کو طلاقِ رجعی نہیں ہوتی بلکہ ایک طلاق دینے سے بھی بائن ہوجاتی ہے اور طلاق بائن دینے کے بعد وہ عورت مزید طلاق کا محل نہیں رہتی، بقیہ طلاقیں لغو ہوجاتی ہیں ، غیر مدخولہ کی طلاق کے بارے میں حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ترجمہ:’’اگر کسی آدمی نے باکرہ کو ایک طلاق دی تو وہ بائنہ ہو جائے گی اور اگر اُسے( دخول سے پہلے) تین طلاقیں دیدے ،تو وہ اس کے لیے اُس وقت تک حلال نہیں جب تک کسی دوسرے شخص سے نکاح نہ کر لے، (مُصَنّف ابن ابی شیبہ: 17853)‘‘۔

علامہ نظام الدین لکھتے ہیں: ترجمہ:’’اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو دخول سے پہلے تین طلاق دے دے تو وہ طلاق واقع ہوجاتی ہیں پس اگر علیحدہ علیحدہ الفاظ سے طلاق دی ہوتو(بیوی)پہلی طلاق سے بائن ہوجائے گی اور دوسری اور تیسری طلاق واقع نہیں ہوگی، مثلاً یوں کہے: تجھے طلاق ہے ، طلاق ،طلاق اور اسی طرح جب یوں کہے : تجھے ایک طلاق ہے اور ایک اور ایک، تو ایک طلاقِ بائن واقع ہوگی ، ’’ہدایہ‘‘ میں اسی طرح ہے ،(عالمگیری جلداول ص:373)‘‘۔ چونکہ آپ کے فراہم کردہ طلاق نامے کے مطابق شوہر نے تین طلاقیں مُتفرق طور پر دی ہیں ، اس لیے پہلی طلاق سے بیوی بائن ہوگئی اور باقی دو طلاقیں لغو اور بے اثر ہوگئیں ۔ غیر مدخولہ پر عدت نہیں،اللہ تعالیٰ کاقرآن مجید میں ارشاد ہے: ترجمہ:’’اے ایمان والو! جب تم مسلمان عورتوں سے نکاح کرو،پھر ہاتھ لگانے سے پہلے انہیں طلاق دے دو،تو تمہارے لیے ان پر کچھ عدت نہیں، جسے تم شمار کرو، (سورۃالاحزاب: 49 ) ‘‘۔

پہلے نکاح میں جو مہر مقررہوا تھا،سابق شوہر پر واجب ہے کہ آدھا مہر عورت کو ادا کرے، اللہ تعالیٰ کاقرآن مجید میں ارشاد ہے: ترجمہ:’’ اور اگر تم نے عورتوں کو چھونے سے پہلے طلاق دے دی،اورتم ان کے لیے مہرٹھہراچکے تھے، تو جو مقرر ہوا تھا، اس کا آدھا(واجب) ہے، (سورۃ البقر: 237) ‘‘۔

اس صورت میں اگر طرفین چاہیں تو باہمی رضامندی سے نئے مہر اور دو گواہوں کی موجودگی میں دوبارہ نکاح کرسکتے ہیں، عدت اور تحلیلِ شرعی کی ضرورت نہیں، تجدیدِ نکاح کی صورت میں آئندہ شوہر کو صرف دو طلاقوں کا اختیار حاصل ہوگا ۔ نیز اگر عورت سابق شوہر سے دوبارہ نکاح کے لیے رضامند نہ ہو تو وہ اپنی آزادانہ مرضی سے جہاں چاہے، نکاح کرسکتی ہے۔ (واللہ اعلم بالصواب)