• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تفہیم المسائل

سوال: میں نے اپنے ایک دوست سے ایک لاکھ روپیہ بطور قرض لیا تھا، منافع ہوا تو چند ماہ انہیں منافع سے حصہ بھی دیا، مگر بعدہٗ منافع کا سلسلہ بند کردیا، میرے دوست نوید نے مجھ سے رقم کی واپسی کا تقاضا کیا تھا اور یہ کہ مجھے اپنی رہائش کے لیے فلیٹ خریدنا ہے، رقم تیار رکھنا، میں نے کسی وقت بھی وہ رقم تم سے واپس لینی ہے ،وہ مع اپنی بیوی اور ایک ڈیڑھ سالہ بیٹی کے کرایہ کے فلیٹ میں رہائش پذیر تھے، اس کے علاوہ ان کے ہمراہ اور کوئی نہ رہتا تھا،22، جنوری2006ء کو انہیں شہید کردیا گیا، وہ فلیٹ بھی نہ خرید سکے اور نہ ہی میں ایک لاکھ کی رقم واپس کرسکا۔ میں ایک لاکھ کی رقم واپس کرنے کو تیار ہوں، طریقہ کار کیا ہونا چاہئے، مرحوم کے ورثاء میں بیوہ، ایک بیٹی ،ایک بیٹا (جو مرحوم کی شہادت کے تین ماہ بعد پیدا ہوا) مرحوم کی والدہ ،5بھائی اور 5بہنیں ہیں۔

دوسری صورت یہ ہے کہ مرحوم کے سسر مجھ سے ایک لاکھ روپے کا مطالبہ کررہے ہیں کہ میں نے مرحوم کو ایک لاکھ روپے بطور قرض دیے تھے کہ اپنی سہولت کے مطابق جب چاہو واپس کر دینا، انھوں نے مجھے اس قرضے کا ثبوت بھی دکھایا، بینک سے ایک لاکھ روپے کا چیک مرحوم کے نام پر تھا، بیوہ بھی اس قرض کی تائید کر رہی ہے۔ اس صورت میں مجھے کیا کرنا ہوگا یا سب سے افضل طریقہ میرے لیے کیا ہوگا، یہ بھی واضح رہے کہ بیوہ کی عدت پوری ہوچکی ہے اور بیوہ نے اپنے والدین کے گھر ہی عدت کے ایام پورے کیے اور اب بھی وہ مستقلاً وہیں رہ رہی ہیں، (ایک سائل ، کراچی)

جواب: صورتِ مسئولہ میں مُتوفّٰی کی جو رقم بطور قرض آپ کے پاس امانت ہے، اُسے مُتوفّٰی کے ترکے میں شامل کیا جائے گا ،آپ نے سوال میں لکھا ہے: ’’ایک لاکھ روپیہ بطور قرض لیا تھا، منافع ہوا تو چند ماہ انہیں منافع سے حصہ بھی دیا، مگر بعدہٗ منافع کا سلسلہ بند کردیا‘‘،جب قرض لیاتھا ، تو قرض پر نفع کیسا ؟، قرض کے حوالے سے شریعت کا اصول یہ ہے کہ جتنا قرض لیاہے، اُتنا ہی واپس کیا جائے گا ، قرض دینے والا قرض دیتے وقت یاقرض دینے کے بعد صراحۃً یا اشارۃً یا کنایۃً زیادتی کا مطالبہ نہیں کرسکتا ،حدیث پاک میں ہے : ترجمہ:’’ ہر وہ قرض جو نفع کھینچ لائے ،وہ سود ہے،(مُصَنّف ابن ابی شیبہ:20690)‘‘۔ اگر یہ رقم آپ نے مضاربت کے لیے لی تھی اور فریقین کے درمیان منافع کا تناسب طے تھا تو آپ کو پوری مدت کے منافع میں سے ان کا حصہ ادا کرنا ہوگا اور اگر آپ کا بیان عنداللہ وعندالنّاس درست ہے کہ یہ رقم آپ نے محض قرض کے طورپر لی تھی ،تو جو رقم بطور منافع آپ اداکرچکے ہیں ، وہ قرض سے منہا ہوجائے گی۔

مُتوفّٰی کے سسر کا دعویٰ ہے کہ انھوں نے مرحوم کو ایک لاکھ روپے قرض دیے تھے، مُتوفّٰی کی بیوہ کے اقرار اور بینک ریکارڈ سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اس نے اپنے سسر سے قرض لیاتھا ،وفات کے وقت مُتوفّٰی کے موجودہ مال اور آپ کی جانب سے مُتوفّیٰ کی رقم ادا کرنے کے بعد مجموعی ترکے سے پہلے قرض اداکیا جائے اور اُس کے بعداگر کچھ بچتا ہے، تو وہ ورثاء کے درمیان تقسیم ہوگا، ادائیگیٔ قرض کے بعد بقیہ ترکہ 72حصوں میں تقسیم ہوگا: مرحوم کی والدہ کو 12حصے، بیوہ کو 9حصے، بیٹے کو 34حصے اور بیٹی کو17حصے ملیں گے، مرحوم کے بہن بھائی محروم رہیں گے۔ (واللہ اعلم بالصواب)

اپنے مالی وتجارتی مسائل کے حل کے لیے ای میل کریں۔

tafheem@janggroup.com.pk