پی ایس ایل 9 کےسنسنی خیز مقابلے، جوش و خروش عروج پر پہنچ گئے ہیں، چمچماتی ٹرافی کے حصول کے لیے، ٹیموں کی رسّہ کشی دل چسپ مرحلے میں داخل ہوگئی ہے مستقبل کی اُمیدوں کے محور و مرکز نئے کھلاڑی جان مار رہے ہیں، بابر اعظم ریکارڈ ساز بن گئے، تاہم سخت سیکیورٹی اور ایونٹ کی بہتر تشہیر نہ ہونے کی وجہ سے تماشائیوں کی تعداد اس جیسی نہیں جو ماضی میں دکھائی دیتی تھی، اب بدھ سے یہ مقابلے کراچی میں شروع ہو رہے ہیں جس میں کراچی کے شائقین سے امید ہے کہ وہ اسٹیڈیم کا رخ کریں گے۔
پاکستان کرکٹ بورڈ میں کئی ہفتوں کی غیر یقینی صورتحال کا خاتمہ ہوچکا ہے اور نگراں وزیر اعلی محسن رضا نقوی تین سال کے لئے پی سی بی چیئرمین کی ہاٹ سیٹ سنبھال چکے ہیں۔ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کی بدترین کارکردگی کے بعد ڈائریکٹر پاکستان کرکٹ ٹیم محمد حفیظ بھی عہدے سے الگ ہوچکے ہیں۔ اوپر تلے ٹیم انتظامیہ میں تبدیلیاں بھی پاکستان کرکٹ کے لئے اچھا شگون نہیں۔
جب تک ٹیم انتظامیہ کو طویل المعیاد معاہدے تک کام کرنے کا موقع نہیں ملے گا پاکستان کرکٹ ٹیم کی کارکردگی میں بہتری نہیں آسکتی۔ سابق کپتان محمد حفیظ پاکستان کرکٹ ٹیم سے الگ ہونے کے بعد ایک ٹی وی چینل پر پاکستان سپر لیگ پر ماہرانہ رائے دے رہے ہیں۔
پاکستان سپر لیگ کےمقابلے بھی اپنے روایتی انداز میں چل رہے ہیں۔ کراچی کے خواجہ نافع ، محمد علی، سمیت کئی نوجوان کھلاڑی ٹورنامنٹ میں اچھی کارکردگی دکھاکر شہ سرخیوں میں جگہ بنا رہے ہیں۔ پی ایس ایل کا نواں ایڈیشن کامیابی سے جاری ہے لیکن گراونڈ میں تماشائیوں کی کمی شدت سے محسوس ہورہی ہے۔
محسن نقوی اچھے منتظم ہیں انہیں پاکستان کرکٹ کے بڑے چیلنجز کا سامنا ہے۔ ایسے میں نگران حکومت کی طرف سے پاکستان کرکٹ بورڈ سے متعلق بڑا فیصلہ سامنے آیا جس کے تحت حکومت نے پی سی بی کے معاملات وزارت بین الصوبائی رابطہ سے کابینہ ڈویژن منتقل کردئیے ہیں۔ فیصلے کے بعد پی سی بی کا انتظامی کنٹرول کابینہ ڈویژن کے ماتحت کردیا گیا ہے جب کہ اس سلسلے میں کابینہ ڈویژن کی جانب سے نوٹیفکیشن بھی جاری کردیا گیا ہے۔حکومت کرکٹ بورڈ کے معاملات پر پالیسی فیصلے کررہی ہے، لیکن پی ایس ایل برانڈ کو اس بار جس خاموشی سے شروع کیا گیا اگر اس کی مناسب تشہیر کی جاتی اور ٹکٹوں کے نرخ کم کئے جاتے تو تماشائی ماضی کی طرح جوش وخروش سے اسٹیڈیمز آتے۔
بدقسمتی سے خالی گراونڈز میں پی ایس ایل کامزہ خراب ہورہا ہے۔پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین محسن نقوی کو محمد حفیظ کے الزامات پر بھی تحقیقات کرانی ہوگی کیوں کہ عہدہ چھوڑتے ہی حفیظ کے بیانات سے نیا تنازع کھڑا ہوگیا ہے۔ پاکستان کرکٹ ٹیم کے گذشتہ دس ماہ میں خراب کارکردگی کی کڑیاں بھی حفیظ کے بیانات سے ملتی ہیں۔ پاکستان کرکٹ بورڈ نے آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے مایوس کن دوروں کے بعد محمد حفیظ کے معاہدے میں توسیع نہ کرنے کا اعلان کیا تھا ورلڈ کپ میں پاکستان کی خراب کارکردگی کے بعد محمد حفیظ کو 2023 کے آخر میں ٹیم ڈائریکٹر مقرر کیا گیا تھا۔
محمد حفیظ کے چارج سنبھالنے کے فوراً بعد آسٹریلیا نے پاکستان کو تین ٹیسٹ میچوں کی سیریز میں وائٹ واش کیا، جب کہ نیوزی لینڈکے خلاف پانچ میچوں کی ٹی ٹوئنٹی سیریز چار ایک سے شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ محمد حفیظ نے انکشاف کیا کہ ’جب میں نے(2023 میں) ڈائریکٹر کا عہدہ سنبھالا اور ہم آسٹریلیا پہنچے تو میں نے ٹیم ٹرینر سے کہا کہ وہ مجھے کھلاڑیوں کے فٹنس معیارکے بارے میں رپورٹ دیں اور فٹنس کا نیا طریقہ تیار کریں۔ ٹرینر نے انکشاف کیا کہ 6 ماہ قبل ٹیم ڈائریکٹر، سابق کپتان (بابر) اور ہیڈ کوچ (مکی آرتھر) نے بتایا تھا کہ فٹنس اس وقت ترجیح نہیں ، اور کھلاڑیوں کو جیسا وہ چاہتے ہیں کھیلنے دیں۔
یہ میرے لیے چونکا دینے والی خبر تھی جب ٹیم ٹرینر نے مجھے بتایا کہ انہیں کھلاڑیوں کی فٹنس نہ چیک کرنے کے لیے کہا گیا تھا۔محمدحفیظ نے کہا کہ جب ڈائریکٹر بننے کے بعد انہوں نے کھلاڑیوں کے جسم کا فیٹ لیول یعنی چربی کا لیول چیک کیا تو تمام کھلاڑی کا فیٹ لیول بین الاقوامی کرکٹ کے معیار کے مطابق بالکل نہیں تھا۔ جب آسٹریلیا میں کچھ کھلاڑیوں کے ٹیسٹ کیے گئے تو وہ دو کلومیٹر کی دوڑ بھی مکمل نہیں کر سکے، ’ماڈرن ڈے کرکٹ میں فٹنس تمام ٹیموں کی اولین ترجیح ہے۔انہوں نے الزام لگایا کہ ’کھلاڑیوں کے جسم کی چربی کی سطح معمول کی حد سے ڈیڑھ پوائنٹ زیادہ تھی۔
محمد حفیظ نے یہ بھی کہا کہ بابر اعظم کو ٹی ٹوئنٹی کرکٹ میں اپنی ابتدائی جگہ چھوڑنے اور تیسرے نمبر پر بیٹنگ کرنے پر راضی کرنے میں انہیں تین ماہ لگے۔ سابق ڈائریکٹر محمد حفیظ نے دعویٰ کیا ہے کہ قومی ٹیم کے سابق کپتان بابر اعظم اور غیر ملکی کوچز مکی آرتھر اور گرانٹ بریڈ برن نے بھارت میں ہونے والے ون ڈے ورلڈ کپ میں ٹیم کی فٹنس کو سب سے کم ترجیح دی تھی۔ اسی طرح کی باتیں چیف سلیکٹر وہاب ریاض نے بھی کی تھیں انہوں نے کہا تھا کہ مجھے بتایا گیا کہ سابق دور میں فٹنس کے بارے میں سوچنا بھی منع ہے۔
محسن نقوی کانام کرکٹ کے حلقوں میں نیا ہے لیکن ان کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ اچھے ایڈمنسٹریٹر ہیں۔ اس لئے شائقین کرکٹ ان سے اچھے اور طویل المعیاد فیصلوں کی توقع کررہے ہیں۔ امید ہے کہ وہ محسن اسپیڈ کے ذریعے کرکٹ سے گند صاف کریں گے اور پاکستان کرکٹ ٹیم کو ایک بار پھر صف اول کی ٹیموں میں شامل کرائیں گے لیکن جن لوگوں نے اس مقبول کھیل کے ساتھ کھلواڑ کیا ہے ان کا احتساب بھی ضروری ہے۔