سیمیں کمال سماجی ترقی اور خواتین کو بااختیار بنانے کے حوالے قومی اور بین الاقوامی سطح پر شہرت کی حامل ہیں، جب کہ وہ پاکستان کی معروف جغرافیہ دان کے طور پر بھی ایک الگ و نمایاں پہچان رکھتی ہیں۔ اُن کا پیشہ ورانہ کیریئر چار دہائیوں پر محیط ہے، جو جنوبی ایشیا، ایشیا پیسفک، مشرقِ وسطیٰ اور یورپ سے لے کر افریقا تک کے ممالک میں پھیلا ہوا ہے۔
اُنہوں نے پانی، ماحولیات، موسمیاتی تبدیلیوں اور فوڈ سیکیورٹی کے شعبوں میں گراں قدر خدمات انجام دی ہیں، جس کے دوران وہ کئی قومی اور بین الاقوامی نیٹ ورکس اور پروگرامز سے منسلک رہیں اور اب بھی کئی اداروں کے پلیٹ فارمز سے وابستہ ہیں۔
سیمیں کمال 180 سے زائد تحقیقی رپورٹس کی مصنّفہ، بہ طور ٹیم لیڈر اور لیڈ کنسلٹنٹ200 سے زاید اسائمنٹس اور پوسٹنگ کی قیادت کر چُکی ہیں۔ اُن کے متعدد ہینڈ بکس، تربیتی ماڈیولز، 450 سے زاید مضامین اور مقالات قومی اور بین الاقوامی سطح پر شائع یا پیش کیے جاچُکے ہیں ۔اُنھوں نے پاکستان کی سٹیزنز واٹر پالیسی اور پاکستان کی پہلی قومی آبی پالیسی (2018) بنائی۔ کراچی میں ہر دوسال بعد منعقد ہونے والی’’کراچی انٹرنیشنل واٹر کانفرنس ‘‘کا بھی حصہ ہیں۔ گزشتہ 10 سالوں میں’’ پاکستان پاورٹی ایلیویشن فنڈ‘‘ سمیت بہت سے شعبوں کے قومی پروگرامز کا حصّہ رہیں۔
1984ءمیں انٹر نیشنل واٹر مینجمنٹ انسٹی ٹیوٹ کے قیام کے بعد سیمیں کمال بورڈ کی چیئر پرسن کے طور پر مقرر ہونے والی پہلی خاتون ہیں جو پاکستان اور پاکستان کی خواتین کے لیے یقیناً ایک بڑا اعزاز ہے، اس سلسلے میں گزشتہ دنوں ہم نے اُن کی رہائش گاہ پر اُن سے خصوصی ملاقات کی، جس میں اُنہوں نے اپنے زمانۂ تعلیم طالبِ علمی، خواتین کے حقوق، مسائل اور ان پر تشّدد کے خلاف ہونے والے کاموں،بہ حیثیت جغرافیہ دان اپنی خدمات، چیئر پرسن کے طور پر مستقبل میں کیا کرنے کا ارادہ ہے، مُلک میں پانی کے مسائل، موسمیاتی تبدیلیوں اور فوڈ سیکیورٹی پر تفصیلی گفتگو کی، جو نذرِ قارئین ہے۔
……٭٭……٭٭……٭٭……
س: سب سے پہلے اپنی تعلیم اور کیریئر سے متعلق کچھ بتائیے؟
ج: میں نے اپنی ابتدائی تعلیم سینٹ جوزف اور کراچی گرامر اسکول سے حاصل کی ،پھر اس کے بعد برطانیہ کی کیمیرج یونی ورسٹی سے جغرافیہ میں گریجویشن کیا۔فرسٹ ایئر میں ہمارے ایکindus water treaty سبیجکٹ کے پروفیسر تھے، انہوں نے جب پاکستان اور بھارت کی تاریخ بتانا شروع کی، تو میں نے ان سے کہا’’ یہ جو آپ بتا رہے ہیں، یہ تو صحیح تاریخ نہیں ہے۔‘‘ انہوں نے برجستہ کہا کہ ’’ تو آپ لیکچر دے دیں‘‘۔ میں خوشی خوشی راضی ہو گئی، جس پران کو بڑی حیرانی ہوئی۔
انہوں نے کہا’’ چلیں، پھر میں آپ کے لیے لیکچر کا انتظام کرتا ہوں۔‘‘جنگل میں آگ کی طرح یہ بات پوری یونی ورسٹی میں پھیل گئی کہ فرسٹ ایئر کی ایک طالبہ لیکچر دے گی۔ میری دوستوں نے مجھے منع کیا کہ یہ تم نے کیا کہہ دیا، سب مذاق اُڑائیں گے، لیکن میں پیچھے نہیں ہٹی اور لیکچر دینے کی تیاری شروع کردی۔مقررہ دن جب ہال میں پہنچی تو پوری فیکلٹی موجود تھی ، تل دھرنے کو جگہ نہیں تھی۔ایک لمحے کے لیے میں گھبرا گئی۔ جب میں نےلیکچر شروع کیا، تو لوگ نوٹ کرنے لگے۔ یہ دیکھ کر مجھے تھوڑا حوصلہ ہوا۔ایک طرح سے میں نے وہاں تاریخ رقم کی۔
گریجویشن مکمل کرنے کے بعد کچھ سال وہاں جاب بھی کی۔اس کے بعد1984ء میں پاکستان واپس آگئی، جب سے یہیں ہوں۔ یہاں پر میں نے پرافٹ اور نان پرافٹ ادارے بنائے۔ بین الاقوامی پلیٹ فارمز، گروپس، کمیٹیز بنائیں۔ دنیا کی مختلف نام ور تنظیموں کے بورڈز کے ساتھ کام کیا۔راستہ ڈیوپلمنٹ کنسلٹنٹس بنائی،اُس زمانے میں سوشل ڈیوپلمنٹ کا کام نیا نیا شروع ہوا تھا، کافی لوگوں کو تربیت دی ،بعدازاں گلوبل واٹر پارٹنر شپ واٹر آرگنائزیشن ، جس کا سویڈن میں پاکستان بھی اسپانسر تھا، تھینک ٹینک پر9 سال کام کیا۔
انٹرنیشنل واٹر مینجمنٹ انسٹی ٹیوٹ میں7 سال سے اپنی خدمات انجام دے رہی ہوں۔ علاوہ ازیں، واٹر ایڈ یوکے، سینٹر فار ایگریکلچر اینڈ بائیو سائنسز اور خوش حالی بینک کے بورڈ میں بھی ہوں۔2020 ء کے بعد میں نے فیصلہ کیا کہ کوئی فل ٹائم پیڈ جاب یا بزنس نہیں کروں گی۔ اب صرف رضاکارانہ طور پر جہاں میری ضرورت ہوگی یا جس جگہ میں کچھ کر سکتی ہوں، بس وہیں پر کام کروں گی۔
س: آپ کا حال ہی میں انٹر نیشنل واٹر مینجمنٹ انسٹی ٹیوٹ (IWMI) کی چیئرپرسن کے طور پر تقرّر ہوا ہے،اس ادارے کی کیا اہمیت ہے اور یہ کس طر ح کام کرتا ہے؟
ج: انٹرنیشنل واٹر مینجمنٹ انسٹی ٹیوٹ کی تاریخ بہت غور وفکر کرنے والی ہے،جب جنگ ِعظیم دوم ختم ہوئی، تودنیا بھر میں بہت زیادہ تباہی ہوگئی تھی، تواُس وقت یہ دیکھا گیا کہ دنیا کی آبادی بہت زیادہ ہے اور مزید بڑھ رہی ہے، تو ان کی فوڈ سیکیورٹی کے لیے کچھ لائحۂ عمل طے کیا جائے، اس مقصد کے لیے مختلف ممالک میں15 ادارے بنے،ان سب کو ملا کر ایک ادارہ بنا، جس کانام CGIAR )Consultative Group for International Agricultural Research ) تھا۔
کچھ وجوہ کی بناء پر انٹر نیشنل واٹر مینجمنٹ انسٹی ٹیوٹ، سری لنکا میں بنا تھا،جب کہ اسے بننا پاکستان میں تھا،اس کا پرانا نام ’’انٹر نیشنل ایری گیشن مینجمنٹ انسٹی ٹیوٹ‘‘ تھا۔ چند سال بعد اس ادارے نے فیصلہ کیا کہ ہم صرف ایری گیشن پر نہیں، بلکہ پورے واٹر سیکٹر پر کام کریں گے۔اسی لیے اس کا نام تبدیل کردیا گیا۔پاکستان سمیت15 ممالک میں اس کے دفاتر ہیں۔
اس لیے اس کی رسائی بہت ہے۔ اس کے بورڈ میں پاکستان کی جگہ ہے،مگر اس پر کوئی تقرر نہیں ہے۔اس بورڈ پرمَیں اپنی بین الاقوامی استعداد پر ہوں۔اس ادارے کے بورڈ میںشامل ہوئے ساتواں سال ہے۔ گزشتہ تین سال سے میں وائس چیئر پرسن کے عہدے پر فائز تھی،اب اس کی چیئر پرسن ہوں۔اس انسٹی ٹیوٹ کی 40 سالہ تاریخ میں، میں پہلی خاتون ہوں، جو بورڈ کی چیئر پرسن مقرر ہوئی۔یہ میرے ہی لیے نہیں پاکستان کے لیے بھی اعزاز کی بات ہے۔
میرے علاوہ اس بورڈ کے تمام ممبران مرد ہیں۔اس کے علاوہ میں واٹر ایڈ کے بورڈ کا بھی حصہ ہوں، حصار فاؤنڈیشن کی چیئر پرسن ہوں اور این ای ڈی یونی ورسٹی میں جو ’’پنجوانی حصار واٹر انسٹی ٹیوٹ ‘‘ بن رہا ہے، اس کے ایگزیکٹو بورڈ کا حصّہ ہونے کے ساتھ مشیر بھی ہوں۔ ان سب عہدوں کےساتھ مجھے اگلے دس سالوں میں بہت بڑا یہ کام کرنا ہےکہ پانی کے حوالے سے کام کرنے کے لیے انٹر نیشنل پینل بنانا ہے، جس میں محققین اور سائنس دان شامل ہوں گے۔اس میں انٹرنیشنل واٹر مینجمنٹ انسٹی ٹیوٹ اور دوسری تنظیمیں میرے ساتھ کام کررہی ہیں۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ نیشنل پینل سب سے پہلے پاکستان میں بن رہا ہے ، چند مہینوں میں یہ پینل باقاعدہ طور پر کام شروع کردے گا۔ اس کے علاوہ پاکستان کی ان جامعات کو بھی، جن میں واٹر انسٹی ٹیوٹ ہیں، پینل میں شامل کیا ہے۔
س: انٹر نیشنل واٹر مینجمنٹ انسٹی ٹیوٹ کی پاکستان میں کیا سرگرمیاں ہیں؟
ج: اس ادارے کا کام تحقیق اور ترقی کے پراجیکٹس پر کام کرنا ہے،یہ وہ تحقیق کرتا ہے،جس سے گراس روٹ، میڈیم اور پالیسی لیول پر تبدیلیاں آئیں۔ مسائل اور ان کے حل کے بارے میں بتاتا ہے، لیکن کئی سال قبل کچھ وجوہ کی بناء پر اسے بلیک لسٹ کردیا گیا تھا۔اب یہ دوبارہ بہتر طریقے سے فعال ہوا ہے۔اصل بات یہ تھی کہ انٹر نیشنل واٹر مینجمنٹ انسٹی ٹیوٹ کا پاکستانی حکومت کے ساتھ ایک ایم او یو تھا،جسے ختم کرکے یہاں کے لوگوں نے اسے ایک این جی او بنانے کی کوشش کی۔
جب میں ان کے بورڈ میں آئی تو میں نے دیگر لوگوں کے ساتھ پاکستانی گورنمنٹ سے بات کرکے ایم او یو ری اسٹور کروایا۔اُس کے بعد انہوں نے بڑے بڑے پراجیکٹس پر دوبارہ کام شروع کیا،جس میں بڑی بڑی تنظیموں کے ساتھ مل کر کام کیاجاتا ہے،جیسا کہ یو این، یو ایس ایڈ اور پورپین یونین وغیرہ۔
س: آپ بنیادی طور پر جغرافیہ دان ہیں، یہ بتائیں اس شعبے کا پانی، ماحولیات اور فوڈ سیکیورٹی سے کیا ربط ہے؟
ج: اگر آپ جغرافیہ کی تعریف پر غور کریں، تو اس میں زمین، پانی، انسان، حیوان اور ماحولیات سب شامل ہیں، ان کی وجہ سے دنیا بھر میں ریجن بنتے ہیں، بارشیں ہوتی ہیں، درجۂ حرارت تبدیل ہوتا ہے، اب دیکھیںبرف پگھل رہی ہے، سمندر اُبل رہے ہیں، درجۂ حرارت تیزی سے بڑھ رہا ہے، تو جغرافیہ سے ہی پتا چلتاہے کہ ان کے اثرات انسانوں پر کیا ہوتے ہیں۔
معاشرت اور معیشت پر اس کے کیا اثرات مرتّب ہوتے ہیں، یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ قدرتی نظام اور انسانوں کے بنائے ہوئے نظام کا کیا امتزاج ہے، مگر اصل میں ہمیں یہ دیکھنا ہوتا ہے کہ انسانوں کا زمین سے کیا تعلق ہے۔زمین، پانی اور انسان کے ایک دوسرے پر کیا اثرات ہوتے ہیں، جس طرح قدرتی ماحول اور چیزوں کا اثر انسان پر پڑتا ہے،اُسی طرح انسانی سرگرمیوں کے اثرات زمین پر بھی پڑتے ہیں۔غرض یہ کہ جغرافیہ اس سدھار اور بگاڑ کو دیکھتا ہے اور اس سے نتائج اخذ کرکے آگے جانے کے راستے بناتا ہے۔
س: دنیا موسمیاتی تبدیلیوں کی زد میں ہے، اس مشکل کا کیسے مقابلہ کیا جا سکتا ہے ؟کیا اس ضمن میں بڑے ممالک یا عالمی اداروں کی کاوشوں سے آپ مطمئن ہیں؟
ج: عالمی ادارے تو عرصے سے یہ بات کرتے آرہے ہیں کہ ماحولیاتی تبدیلیوں کے بہت زیادہ منفی اثرات ہیں۔ ایک وقت تھا، جب ہم کہتے تھے کہ اس مسئلے پر قابو پایاجائے، اب وقت گزر گیا ہے، جب ہمیں روکنا چاہیے تھا، تب کچھ نہیں کیا۔ مغربی ممالک تو اپنی زندگیوں میں کوئی تبدیلی لانا نہیں چاہتے۔ وہ چاہتے ہیں، جوبھی تبدیلی آئے، وہ ہم لائیں۔ وہ یہ سوچتے ہیں کہ بہت پیسا ہے، جب کوئی آفت آئے گی تو ہم کہیں اور چلے جائیں گے۔کہاں جائیں گے، دنیا تو ایک ہی ہے ناں۔
فی الحال تو کوئی چاند پر یا مریخ پر جاکررہ نہیں سکتا۔اصل بات یہ ہے کہ جب تک ہم سرمایہ دارانہ نظام سے باہر نہیں نکلیں گے،اُس وقت تک موسمیاتی تبدیلیوں کے منفی اثرات سے باہر نہیں نکل سکتے، کیوں کہ یہ نظام اسے بد سے بدتر کرتا جارہا ہے۔ آپ یہ دیکھیں، اس وقت جو80 ،امیر ترین لوگ ہیں،انہوں نے دنیا کے تمام وسائل پر قبضہ کیا ہوا ہے۔ جتنا وہ کماتے ہیں، اُس کا0.04 فی صد بھی اچھے کاموں پر نہیں لگاتے۔ان کا کہنا ہے کہ یہ سرمایہ دارانہ نظام بہت اچھا ہے، خوب پیسے کماؤ اور اُس میں سے تھوڑا سا خیرات کردو، سب ٹھیک ہو جائے گا، جب کہ ایسا نہ کبھی ہوا ہے اور نہ ہوگا۔
یہ لوگ پوری انسانیت سے کھیل رہے ہیں ۔ انہوں نے دنیا کو مکمل تباہی کے دہانے پر کھڑا کردیا ہے۔ میرے خیال میں اب ہمیں موسمیاتی تبدیلیوں کے ساتھ جینا سیکھنا ہوگا۔ پچھلی صدی میں انسانوں نے فضا میں جو کاربن پھینکا تھا، آج اسی کی وجہ سے تباہی آرہی ہے۔اُس کاربن کے سب سے زیادہ اثرات پانی کے ذخائر پر مرتب ہورہے ہیں۔
اب ہمیں اپنی توجّہ اس مسئلے کے ساتھ جینے کی جانب مبذول کرنی چاہیے۔ طوفانوں اور سیلابوں کو روک تو نہیں سکتے، لیکن ان سے نمٹنے کے طریقے تو بنا سکتے ہیں اور یہ کام جَلد کرنے کی ضرورت ہے۔ فوسل فیولز کو مزید فضا میں نہ چھوڑیں، ورنہ ہم مزید تباہی کی طرف چلے جائیں گے۔
س: پانی، ماحولیات یا خوراک سے متعلق پاکستان میں کیا صُورتِ حال ہے اور ان مسائل کے حل کے لیے کون سے اقدامات کی ضرورت ہے؟
ج: بین الاقوامی اداروں کے توسّط سے پاکستان میں بہت کچھ ہوتا رہا ہے، ہماری کوشش ہوتی ہے کہ اب تک جو اقدامات کیے گئے ہیں، اُنھیں آگے لے کر چلیں۔پاکستان کے پاس صرف پانی کے ذخائر نہیں تھے، بلکہ پانی پر تحقیق اور ترقّی کا بھی بہت بڑاپلان تھا۔دنیا بھر کے لوگ یہاںپانی ذخیرہ کرنے کا طریقہ سیکھنے آتے تھے۔ہمارے انجینئرز اور تھنکرز نے دوسروں کو اس حوالے سے تربیت دی، مگر اب تو ہر جگہ سیاست کا غلبہ ہے، اسی لیے پانی ایک سیاسی ایشو بن چکا ہے۔
ہم لوگوں کو یہ بات بتا بتا کر تھک گئے ہیں کہ پانی سیاسی نہیں، معاشی مسئلہ ہے۔یہ کاشت کاروں اور ہماری زندگیوں کا مسئلہ ہے، اسے درست زوایے سے دیکھنا چاہیے۔پاکستان میں پانی کے 13 زونز ہیں اگر ہم چاہیں تو اسے صحیح طرح سے ذخیرہ کر کے پانی کے مسائل حل کرسکتے ہیں، مگر بد قسمتی سے ہمارے حکم ران پانی اور فوڈ سیکیورٹی کے بارے میں سوچتے ہی نہیں، وہ وہی انفرا اسٹرکچر بنانا چاہتے، جس سے انھیں فائدہ ہو،عوام کی تو انھیں فکر ہی نہیں ہے۔ اسی لیے آج تک عوام کوصاف پانی نہیں مل سکا۔ یہ لوگ مسئلے کو نہ خود حل کرتے ہیں اور نہ ہی کسی کو کرنے دیتے ہیں۔ مسائل حل نہ ہونے یا تبدیلی نہ آنے کی ایک اہم وجہ یہ بھی ہے کہ ہم اسٹیپ بائے اسٹیپ کام نہیں کرتے، چاہتے ہیں کہ تمام مسائل ایک ساتھ حل کر دیں۔
س: قومی اور بین الاقوامی سطح پر سماجی ترقی اور خواتین کو بااختیار بنانے کے حوالے سے آپ کی خاص پہچان ہے ۔یہ بتائیںپاکستان میں خواتین کو کن مسائل کا سامنا ہے اور انہیں کس طرح بااختیار بنایا جاسکتا ہے؟
ج: میں 1980ء سے خواتین کے حقوق کے لیے کام کررہی ہوں ۔ویمن ایکشن فورم کی ممبر رہی، تو خواتین کی ترقی اور حقوق کے لیے بہت کام کیا۔دیگر ممالک میں خواتین کے حقوق کے لیے جو تحریکیں چلیں اورچل رہی ہیں، اس کا بھی حصہ ہوں۔ اس وقت ہمارا ایک کام خواتین پر تشدّد کا خاتمہ کرنا ہے۔اس کے لیے سب کو پرزور آواز اُٹھانی ہوگی یو این میں ہم to end violence against women and girlsکے نام سے ٹریٹی بنانا چاہتے ہیں۔اس کی جو پہلی اسٹیئرنگ کمیٹی تھی، میں اس کی کو چیئرپرسن تھی۔تقریباً2ہزار وکلاء کے ساتھ مل کر ہم نے مختلف آئیڈیاز پر کام کیا جو رضاکارانہ طور پر تھا۔
اب میں اس کا حصہ نہیں ہوں لیکن وہاں کے لوگوں سے رابطے میں رہتی ہوں۔میں عورت مارچ کی حامی ہوں ،ہر سال اس میں شرکت بھی کرتی ہوں لیکن یہ حقیقت ہے کہ خواتین کے مسائل بے شمار ہیں اگر ایک مسئلہ حل ہوتا ہے تو دوسرا کھڑا ہوجاتا ہے ۔خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے کو میں نے گھول کر پی لیا ہے ۔ہر وقت میرے ذہن میں یہی چیزیں چلتی رہتی ہیں کہ کس طر ح خواتین کی آوازوں کو اُجاگر کیا جائے ۔حصار فاؤنڈیشن کے بورڈ میں 5 مرد اور 5 خواتین ہیں ۔دیگر اسٹاف ممبرز میں بھی مرد ،خواتین کی تعداد برابر ہے۔
میں نے اب تک جس ادارے میں کام کیا ہے وہاں خواتین کی مدد کرنے کے طریقے بنائے ہیں ۔میں نے خواتین کی گھریلو اور بچّوں کی ذمہ داریوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ورک فار ہوم کی سہولت 20 سال پہلے مہیا کردی تھی ،تا کہ ان کے کیر ئیر میں وقفہ نہ آئے۔
ہمیں یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ،’’ حقوق کوئی بھی پلیٹ میں رکھ نہیںدے گا ‘‘ اس کے لیے ہمیں خود آواز بلند کرنی پڑے گی ،اپنے اندر حقِ خود ارادیت پیدا کریں اور جو کام کرنے کا دل چاہے ،اس کو ڈٹ کر کریں۔ کوئی آپ کو راستہ نہیں دے گا ،راستہ خود تلاش کرنا ہوگا ۔کمفرٹ زون سے باہر نکل کر سوچیں ۔میں یہ کہتی ہوں ،’’یہ صدی عورتوں کی صدی ہے ‘‘۔خواتین کی سوچ مختلف ہوتی ہے، ان کی سوچ اور کام دنیا بد ل سکتے ہیں اور بدل رہے ہیں ۔
س: حصار فاؤنڈیشن کا دائرۂ کار کیا ہے؟اس ادارے کو شروع ہوئے کتنا عرصہ ہوا؟
ج: لفظ حصار کا مطلب ہے،’’دائرہ یا قلعہ‘‘ بنانا،جس طرح ہم عام طور پر کہتے ہیں کہ حصار باندھ دو۔بالکل اسی طرح اس فاؤنڈیشن نے عوام کے گرد پانی،غذا اور ذریعۂ معاش کا حصار باندھا ہوا ہے،ان تینوں کو محفوظ کرنا اس فاؤنڈیشن کا مقصد ہے تاکہ عوام تک پانی اور غذا آسانی سے پہنچے، پیداوار میں اضافہ ہو۔لوگ باوقار زندگی گزار سکیں۔
اس کی بنیاد مَیں نے 20سال پہلے رکھی تھی۔ اس فاؤنڈیشن کی پہلی ترجیح پانی پر کام کرنا تھا،اسی لیے اب تک صرف اسی پر کام ہوا ہے، لیکن اب ہمارا ارادہ فوڈ سیکیورٹی پر بھی کام کرنے کا ہے۔ میں 8سال تک حصار فاؤنڈیشن کے بورڈ میں نہیں رہی، اُس دوران دوسرے لوگ اس کےچیئرمین رہے۔ اب میں نے دوبارہ سے اس کی باگ دوڑ سنبھال لی ہے،مگر اب میرا ارادہ ہے کہ آئندہ چند سالوں میں نئی لیڈر شپ تیار ہو اور میں یہ تنظیم ان کے حوالے کردوں۔ہمیں ترقیاتی کاموں میں اور قدرتی نظام میں توازن قائم کرنے کی ضرورت ہے۔ترقی کا مطلب بڑی بڑی عمارتیں کھڑی کرنا نہیں ہے بلکہ ماحولیا ت پر بھی کام کرنا ہے۔
اس کے علاوہ واٹر انسٹی ٹیوٹ بنانے کا جو میرا خواب تھا، وہ زیرِ تکمیل ہے۔ این ای ڈی یونیورسٹی میں پبلک پرائیوٹ پارٹنر شپ کے تحت واٹر انسٹی ٹیوٹ بن رہا ہے،جس کا نام ’’پنجوانی حصار واٹر انسٹی ٹیوٹ‘‘ہے۔اس ادارے کا مقصد نئی نسل کو پانی کے مسائل حل کرنے کی تربیت دینا ہے،کیوں کہ پچھلی صدی میں جو حل سوچے تھے، وہ اس صدی کے نہیں رہے۔اب ہمیں نئے حل اور نیچر بیسڈ سولیوشن کی ضرورت ہے۔ اگر ہمیں آگے بڑھنا ہے، تو اپنے رہن سہن کے طریقے تبدیل کرنے پڑیں گے۔
جب تک ہم نئے طریقے اور ٹیکنالوجی نہیں اپنائیں گے،اس وقت تک مسائل حل نہیں کرسکتے۔مستقبل میں مزید پالیسیاں اور اسٹریٹجی بنانی ہے،لوگوں کو کام کرنے کی تربیت اور تعلیم دینی ہے،سیکھنا اور سکھانا ہے ۔پانی کو پینے کے قابل کیسے بنانا ہے۔ اگلے دس سال یہی کرنے کا ارادہ ہےاور یہ تمام کام جدّت سے بھر پور طریقوں اور نئی سوچ کے ساتھ کیے جائیں گے۔
فاؤنڈیشن کی اچھی بات یہ ہے کہ اس کے بورڈ کے تمام ممبران رضا کارانہ طور پر کا م کرتے ہیں ۔میرا کام کرنے کا ایک اُصول ہے ،جس کے بارے میں ،میں سب کو بتاتی ہوں ’’ کچھ دیں ،کچھ لے کر آئیں اور کچھ کریں ،ورنہ چھوڑ دیں ۔‘‘تمام ممبران اپنا وقت دیتے ہیں، عطیات خود بھی دیتے ہیں اور جمع بھی کرتے ہیں۔ فنڈریزننگ زیادہ ترافراد، کچھ خاندان، پاکستانی بزنسز اور کورپوریٹ سیکٹر سےہوتی ہیں۔ ہم اپنے مشن پر قائم رہ کر کام کرنا چاہتے ہیں۔