18ویں سندھ گیمز منتظمین کی ناقص حکمت عملی کی وجہ سے متنازع انداز اور تنقید کی زد میں کراچی کی جیت کے ساتھ اپنے اختتام کو پہنچے، اطلاعات کے مطابق 15کروڑ روپے ان مقابلوں کے لئے مختص کئے گئے تھے، مگر صورت حال یہ رہی کہ ایتھلیکٹس مقابلوں میں بعض کھلاڑی بغیر شوز کے دوڑتےہوئے نظر آئے،کئی کھلاڑیوں نے ٹریک سوٹ کا سائز درست نہ ہونے کی شکایت کی،کسی بھی ایونٹ میں مراتھن کو اس مقابلے کی جان کہا جاتا ہے جس انعقاد نہیں ہوسکا،کوئی بھی اس وقت تک کامیاب نہیں ہو پاتے ہیں جب تک اسے میڈیا پر اچھی کوریج نہ مل سکے ،مگران مقابلوں کے آرگنائزر نے صرف بندر بانٹ پر ہی توجہ مرکوز رکھی۔
میڈیا کے نمائندے خبروں کے حصول کے لئے مشکلات کا شکار رہے،میڈیا ذمے دار کاشف فاروقی اپنی ذمے داری اس انداز میں ادا نہیں کرسکے جو انہیں کرنی چاہئے تھی، ان کا موقف ہے کہ ایسوسی ایشنوں نے ان کو نتائج سے بروقت آگہی نہیں دی،ایتھلیکس میں بعض ایونٹس کے نہ ہونے کی شکایت بھی ملی،اختتامی تقریب میں دن کی روشنی میں آتش بازی کا مظاہری سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ثابت ہوا،آتش بازی کے اخرجات اگر ایونٹ کے بہترین کھلاڑیوں میں تقسیم کردئیے جاتے تو اس سے ان کی حوصلہ افزائی ہوتی،کھلاڑیوں نے ڈیلی الاؤنس نہ ملنے کا بھی رونا گانا مچایا ہوا ہے،ایسا لگتا ہے کہ سندھ کے نگراں وزیر کھیل ڈاکٹر جنید علی شاہ نے اپنی ذاتی دل چسپی سے چھ سال تک نہ ہونے والے مقابلوں کو منعقد تو کرادیا مگر آرگنائزر نے ان کی محنت پر پانی پھیر دیا۔
کھلاڑی جو کسی بھی مقابلوں کی جان ہوتے ہیں،انہیں وہ شہرت نہیں مل سکی جس کے وہ حق دار تھے، صوبے کے تیز ترین کھلاڑیوں کو ان کا وہ مقام نہیں مل سکا جس کا انہوں نے اپنی کار کردگی سے سکہ جمایاتھا، سندھ گیمز نئے کھلاڑیوں کو قومی سطح پر اجاگر کرنے، کھلاڑیوں کو روزگار کی فراہمی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں،مگر برسوں سے کھیلوں کی ایسوسی ایشنوں پر قابض عہدے داروں کو سرف اپنی تصاویر، ذاتی شہرت پر توجہ مرکوز رکھنے کے علاوہ کھلاڑیوں سے کو ئی غرض نہیں،انہیں اس بات کی فکر نہیں کہ اچھی کار کردگی دکھانے والے کھلاڑیوں کو کس طرح ملازمت کے حصول کے لئے راستہ دکھایا جائے، ڈاکٹر جنید علی شاہ سندھ اولمپکس ایسوسی ایشن سے بھی وابستہ ہیں،انہیں خود سندھ اولمپکس کے عہدے داروں کا احتساب کرنا چاہئے، سندھ گیمز میںموہنجو دوڑو ٹرافی کراچی نے شاندار کامیابیوں کے ساتھ اپنے نام کی اور فیئر پلے ٹرافی میرپور خاص نے حاصل کی۔
کراچی نے مردوں میں 115 گولڈ اور خواتین میں 53 میڈلز کے ساتھ مجموعی طور پر 168 میڈلز جیتے،حیدرآباد نے مردوں میں 23 گولڈ اور خواتین میں 7 میڈلز کے ساتھ مجموعی طور پر 30 میڈلز کے ساتھ دوسری پوزیشن حاصل کرنے میں کامیاب،سکھر نے مردوں میں 13 گولڈ اور خواتین میں 1 میڈل کے ساتھ مجموعی طور پر 14 میڈلز کے ساتھ تیسری پوزیشن اپنے نام کی۔
اختتامی تقریب کے مہمان خصوصی سابق صوبائی وزیر کھیل ،امور نوجوان اور کلچرل ڈاکٹر جنید علی شاہ نے کہا کہ سندھ گیمز کا انعقاد ہر سال کیا جائے، 6سال بعد سندھ گیمز کا انعقاد کیا گیا جس میں کچھ کمی کوتاہی رہی ہے، چار ہزار سے زائد کھلاڑی اور ایک ہزار آفیشلز و آرگنائزر کیلئے سہولیات فراہم کی گئیں، سندھ حکومت سندھ اولمپک ایسوسی ایشن اور تمام کھیلوں کے آرگنائزرز کا شکر گزار ہوں کہ انہوں نے اس ایونٹ کو کامیاب بنانے میں اہم کردار ادا کیا، طویل عرصے بعد ہونے والے یہ سندھ گیمز صوبے بھر کے کھلاڑیوں کے لیے خوشی کا سبب بنے ہیں،اس موقع پر اسماءشاہ، سیکریٹری اسپورٹس عبدالہادی بلو،احمد علی راجپوت سیکریٹری سندھ اولمپک ایسوسی اور دیگر بھی موجود تھے۔
ڈوج بال ایونٹ میں کراچی نے بوائز اور گرلز مقابلے جیت کر اپنی برتری ثابت کر دی، بے نظیر آباد نے دونوں کیٹیگریز میں سلور میڈل حاصل کیا۔ کاشان اقبال مہمان خصوصی تھے جبکہ اس موقع پرسندھ ڈوج بال ایسوسی ایشن کے صدر امتیاز شیخ، سیکریٹری عابد نعیم،حق نواز، الفا کالج کے کوآرڈی نیٹر ماجد رسول،خالد شاہ،شاہد علی جعفری،نجمہ غیاث اور دیگر بھی موجود تھے۔
سندھ گیمز ختم ہونے کے بعد کئی سوالیہ نشان چھوڑ گئے،کراچی کو اگلے سال قومی گیمز کی میزبانی کرنا ہے،جس طرح سندھ گیمز میڈیا کے لئے عذاب اور درد سر بنے قومی گیمز میں کیا حال ہوگا، اس پر سندھ کی نئی حکومت اور اس کے نئے وزیر کھیل کو بہت زیادہ توجہ دینا ہوگی، جس طرح سندھ گیمز میں کراچی اور سندھ سے تعلق رکھنے والے سابق نامور کھلاڑیوں کو نظر انداز کیا گیا، انہیں کسی بھی تقریب میں مدعو کرنا منتظمین نے اپنی توہین سمجھا، کیا قومی گیمز میں بھی ان کے ساتھ اسی قسم کا سلوک روا رکھا جائے گا، سباق کھلاڑی ہمارے ہیرو، ہماری آن ، شان اور پہچان ہیں،ان کو جو اہمیت دی گئی وہ حدرجہ افسوس ناک ہے، نئے کھلاڑی اپنے ہیروز کو دیکھ کر جو خوشی حاصل کرتے ہیں، سندھ گیمز کے آرگنائزر نے ان سے یہ خوشی کیوں چھین لی،اس کا جواب کون دے گا،جس وقت یہ تحریر لکھی جارہی ہے، سندھ اور پاکستان میں باڈی بلڈنگ کا بڑا نام سندھ باڈی بلڈنگ ایسوسی ایشن اور سندھ اولمپکس ایسوسی ایشن کے فنانس سکریٹریسید سعید جمیل ایڈوکیٹ انتقال کرگئے، سندھ گیمز کے دوران وہ بہت زیادہ فعال تھے،دھیمے لہجے اورملنساری میں انہیں ملکہ حاصل تھا، اس کھیل کے لئے ان کی خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائے گی۔
سندھ گیمز ٹیبل ٹینس ٹورنامنٹ کراچی نے مردوں اور عورتوں کے ٹیم ایونٹ میں سونے کا تمغہ حاصل کیا حیدرآباد کی مردوں اور عورتوں کی دونوں ٹیموں کو فائنل میں شکست کا سامنا کرناپڑا۔ مردوں کے ٹیم ایونٹ میں کراچی کے رضا عباس نے حیدرآباد کے محمّد شاہزیب کو نعمان زارا نے حیدرآباد کے عبدل رافع کو ارحم بن فرخ نے حیدرآباد کے طحہ بھگیو کو شکست دی۔
عورتوں کے ٹیم ایونٹ میں کراچی کی فاطمہ دانش نے حیدرآباد کی صاحبہ کو بشری انور نے حیدرآباد کی لائبہ کو لائبہ یٰسین نے حیدرآباد کی اشرا کو شکست دیکر کراچی کو سونے کا تمغہ دلوا دیا۔ اس موقع پر سابق قومی ٹیبل ٹینس چیمپئن پرائڈ آف پرفارمنس نازو شکور سیما کلیم ۔ محمد ابراہیم ناخدا. سندھ ٹیبل ٹینس ایسوسی ایشن کے سیکرٹری محسن سرور انجم زیدی بھی موجود تھے ۔